منتخب غزلیں
مِیر تَقی مِیؔر اُس کا خِرام دیکھ کے جایا نہ جائ…

مِیر تَقی مِیؔر
اُس کا خِرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا
اے کَبْک! پھر بَحال بھی آیا نہ جائے گا
ہم کُشتَگانِ عِشق ہیں ابرو و چَشمِ یار
سَر سے ہمارے تیغ کا سایہ نہ جائے گا
ہم رہروانِ راہِ فنا ہیں بَرنگِ عُمر
جاویں
پھوڑا سا ساری رات، جو پکتا رہے گا دِل
تو صُبْح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے گا
اپنے شہیدِ ناز سے بس ہاتھ اُٹھا، کہ پھر
دِیوانِ حَشْر میں اِسے لایا نہ جائے گا
اب دیکھ لے، کہ سِینہ بھی تازہ ہُوا ہے چاک
پھر ہم سے، اپنا حال دِکھایا نہ جائے گا
ہم بیخودانِ محفلِ تصْوِیر اب گئے
آئندہ ہم سے آپ میں آیا نہ جائے گا
گو بَیسِتُوں کو ٹال دے آگے سے کوہ کن!
سنگِ گرانِ عِشق اُٹھایا نہ جائے گا
ہم تو گئے تھے شیخ کو اِنسان بُوجھ کر !
پر اب سے، خانقاہ میں جایا نہ جائے گا
یاد اُس کی اِتنی خُوب نہیں مِیؔر ! باز آ
نادان! پھر وہ جی سے بُھلایا نہ جائے گا