نثری نظم کی نوبل انعام یافتہ شاعرہ لوئیس گلک’ کی ایک نظم Wild Iris کا میں نے تر…

"جنگلی آئرس”
مجھے سنو
میری تکلیف کے خاتمے پہ ایک دروازہ ہے
اسے تم موت’ کہتے ہو
میں جانتی ہوں
مرے سر کے اوپر صنوبر کی شاخیں اپنی جگہ بدلتی ہیں
ان کا شور میں سن سکتی ہوں
پھر خاموشی
کمزور سورج
خشک مٹی پہ ایک لمحہ کے لئے چمکتا ہے
بچ جانا خوفناک ہے
شعور کے بغیر جو کالی مٹی میں دفن ہے
پھر خاتمہ ہو گیا
جس کا ہمیں خوف تھا
ایک روح رہنا اور بول نہ پانا
یا بولتے بولتے ایک دم سے چپ ہو جانا
زمین سخت ہے
اور تھوڑی سی نیچے کو جھکی ہے
میں کس کو دکھائی دیتی ہوں
جھکی ہوئی ؟
پرندے چھوٹی جھاڑیوں میں تیزی سے چھپ جاتے ہیں
تمہیں یاد نہیں
دوسری دنیا کو جانے کا راستہ ؟
میں بتا سکتی ہوں
کہ مجھے گفتگو پہ قدرت حاصل ہو گئی ہے
جو کچھ بھی بھول پن سے واپس آتا ہے
اسے آواز ضرور ملتی ہے
میری زندگی کے مرکز سے ایک عظیم چشمہ ابلتا ہے
گہرا اور نیلا
جو سمندر کے پانی پہ نیلا سایہ تنتا ہے
ترجمہ: طاہر راجپوت
The Wild Iris:
At the end of my suffering
there was a door.
Hear me out: that which you call death
I remember.
Overhead, noises, branches of the pine shifting.
Then nothing. The weak sun
flickered over the dry surface.
It is terrible to survive
as consciousness
buried in the dark earth.
Then it was over: that which you fear, being
a soul and unable
to speak, ending abruptly, the stiff earth
bending a little. And what I took to be
birds darting in low shrubs.
You who do not remember
passage from the other world
I tell you I could speak again: whatever
returns from oblivion returns
to find a voice:
from the center of my life came
a great fountain, deep blue
shadows on azure seawater.
Louise Gluck
بشکریہ
https://www.facebook.com/groups/1876886402541884/permalink/3829661873930984