منتخب نظمیں
خموشی سے میرے کمرے میں اتر آئی خموشی پھر سے سایہ ش…
خموشی سے
میرے
کمرے میں اتر آئی خموشی پھر سے
سایہ شام غریباں کی طرح
شورش دیدہ گریاں کی طرح
موسم کنج بیاباں کی طرح
کتنا بے نطق ہے یادوں کا ہجوم
جیسے ہونٹوں کی فضا یخ بستہ
جیسے لفظوں کو گہن لگ جائے
جیسے روٹھے ہوۓ رستوں کے مسافر چپ چاپ
جیسے مرقد کے سرہانے کوئی خاموش چراغ
جیسے سنسان سے مقتل کی صلیب
جیسے کجلائی ہوئی شب کا نصیب
/
میرے کمرے میں اتر آئی خموشی پھر سے
پھر سے
میرے زخموں کی قطاریں جاگیں
اول شام چراغوں کی طرح
ہر نئے زخم نے پھر یاد دلایا مجھہ کو
اسی کمرے میں کبھی
محفل احباب کے ساتھہ
گنگناتے ہوۓ لمحوں کے شجر پھلتے تھے
رقص کرتے ہوۓ جذبوں کے دہکتے لمحے
قریہ جاں میں لہو کی صورت
شمع وعدوں کی طرح جلتے تھے
سانس لیتی تھی فضا میں خوشبو
آنکھہ میں ” گلبن مرجان ” کی طرح
سانس کے ساتھہ گہر ڈھلتے تھے
/
آج کیا کہئے کہ ایسا کیوں ہے ؟
شام چپ چاپ
فضا یخ بستہ
دل، مرا دل کہ سمندر کی طرح زندہ تھا
تیرے ہوتے ہوۓ تنہا کیوں ہے ؟
تو کہ خود چشمہ آواز بھی ہے
میری محرم میری ہمراز بھی ہے
تیرے ہوتے ہوۓ ہر سمت اداسی کیسی ؟
شام چپ چاپ
فضا یخ بستہ
دل کے ہمراہ بدن ٹوٹ رہا ہو جیسے
روح سے رشتہ جاں چھوٹ رہا ہو جیسے
/
اے کہ تو چشمہ آواز بھی ہے
حاصل نغمگی ساز بھی ہے
اب کشا ہو کہ سر شام فگار
اس سے پہلے کہ شکستہ دل میں
بدگمانی کی کوئی تیز کرن چبھہ جائے
اس سے پہلے کہ چراغ وعدہ
یک بیک بجھہ جائے
/
لب کشا ہو کہ فضا میں پھر سے
جلتے لفظوں کے دہکتے جگنو
تیر جائیں تو سکوت شب عریاں ٹوٹے
پھر کوئی بند گریباں ٹوٹے
لب کشا ہو کہ میری نس نس میں
زہر بھر دے نہ کہیں
وقت کی زخم فروشی پھر سے
لب کشا ہو کہ مجھے ڈس لے گی
خود فراموشی پھر سے
میرے کمرے میں اتر آئی
"خموشی پھر سے ”
/
محسن نقوی
میرے
کمرے میں اتر آئی خموشی پھر سے
سایہ شام غریباں کی طرح
شورش دیدہ گریاں کی طرح
موسم کنج بیاباں کی طرح
کتنا بے نطق ہے یادوں کا ہجوم
جیسے ہونٹوں کی فضا یخ بستہ
جیسے لفظوں کو گہن لگ جائے
جیسے روٹھے ہوۓ رستوں کے مسافر چپ چاپ
جیسے مرقد کے سرہانے کوئی خاموش چراغ
جیسے سنسان سے مقتل کی صلیب
جیسے کجلائی ہوئی شب کا نصیب
/
میرے کمرے میں اتر آئی خموشی پھر سے
پھر سے
میرے زخموں کی قطاریں جاگیں
اول شام چراغوں کی طرح
ہر نئے زخم نے پھر یاد دلایا مجھہ کو
اسی کمرے میں کبھی
محفل احباب کے ساتھہ
گنگناتے ہوۓ لمحوں کے شجر پھلتے تھے
رقص کرتے ہوۓ جذبوں کے دہکتے لمحے
قریہ جاں میں لہو کی صورت
شمع وعدوں کی طرح جلتے تھے
سانس لیتی تھی فضا میں خوشبو
آنکھہ میں ” گلبن مرجان ” کی طرح
سانس کے ساتھہ گہر ڈھلتے تھے
/
آج کیا کہئے کہ ایسا کیوں ہے ؟
شام چپ چاپ
فضا یخ بستہ
دل، مرا دل کہ سمندر کی طرح زندہ تھا
تیرے ہوتے ہوۓ تنہا کیوں ہے ؟
تو کہ خود چشمہ آواز بھی ہے
میری محرم میری ہمراز بھی ہے
تیرے ہوتے ہوۓ ہر سمت اداسی کیسی ؟
شام چپ چاپ
فضا یخ بستہ
دل کے ہمراہ بدن ٹوٹ رہا ہو جیسے
روح سے رشتہ جاں چھوٹ رہا ہو جیسے
/
اے کہ تو چشمہ آواز بھی ہے
حاصل نغمگی ساز بھی ہے
اب کشا ہو کہ سر شام فگار
اس سے پہلے کہ شکستہ دل میں
بدگمانی کی کوئی تیز کرن چبھہ جائے
اس سے پہلے کہ چراغ وعدہ
یک بیک بجھہ جائے
/
لب کشا ہو کہ فضا میں پھر سے
جلتے لفظوں کے دہکتے جگنو
تیر جائیں تو سکوت شب عریاں ٹوٹے
پھر کوئی بند گریباں ٹوٹے
لب کشا ہو کہ میری نس نس میں
زہر بھر دے نہ کہیں
وقت کی زخم فروشی پھر سے
لب کشا ہو کہ مجھے ڈس لے گی
خود فراموشی پھر سے
میرے کمرے میں اتر آئی
"خموشی پھر سے ”
/
محسن نقوی