میں تو چلی چین /بیجنگ کا الف لیلوی ماحول اور کہانیاں (قسط21) -سلمیٰ اعوان -مکالمہ
میں اسے ملنے آئی تھی۔اُسے جوتنگ تھی۔سعدیہ (بیٹی)نے مجھے بلڈنگ کے باہر ہی اُتاردیا تھا۔ اپنے گھر آنے کی فرمائش اس نے پہلی ملاقات کے اختتام پر ہی اس شرط کے ساتھ نتھی کردی تھی اور جب وہ سعدیہ عمران کے ہاں آئی اُس نے اپنی خواہش کو ایک بار پھر دہراتے ہوئے کہا تھا۔
پرانے بیجنگ میں لاؤشی ٹی ہاؤس نہ دیکھا تو پھر کچھ بھی نہ دیکھا۔ اور لاؤشی جیسے عظیم لکھاری اور فنکار بارے کچھ نہ جانا تو پھر چین آنے کا فائدہ۔
لگتا تھا جیسے وہ لاؤشی ٹی ہاؤس اور لاؤشی کی محبت میں پور پور جکڑی ہوئی ہے۔ گذشتہ ملاقات والے جملوں کا اعادہ اس کی اِس چاہت کا غمّاز تھا۔
پتہ بھی سمجھا دیا تھا اور وہ ذرا مشکل نہ تھا اور یوں بھی گھروں کو ڈھونڈنے اور خجل ہونے میں مجھے مزہ آتا ہے۔اس لیے میں نے اس سے چینی میں لکھوا کر سنبھال لیا تھا۔ آج میں اس کے گھر آئی تھی۔لفٹ سے بآسانی مطلوبہ فلور پر آکر اب اس کے دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔
گھنٹی بجانے سے قبل میں نے گردوپیش کو دیکھا تھا۔ بے ہوش ہونے والا معاملہ تو خیر نہ تھا تاہم بے اختیار ٹھٹھک کر رکنے والی بات یقینی تھی۔دروازے کے ساتھ راہداری نے ہی جٹ جپھا ڈال لیا تھا۔ بڑے بڑے دو گلدان جو دروازے کے دائیں بائیں پاسبانوں کی طرح بیٹھے تھے میں ایسے ایسے نایاب پھولوں کے مکھڑے تھے کہ بندہ اعلیٰ تخلیق کار کی بہترین تخلیق کے صدقے جائے کہ کیسا نقالی ہے یہ ۔نقل پر اصل کا گمان گزرتا ہے۔آگے بڑھی ۔حسین منظروں والا گھر تھا۔پھولوں،بیلوں اور قیمتی سجاوٹی اشیا سے سجا۔
گھر والی نے ایسا پُرتپاک حسن سلوک کا مظاہر ہ کیا کہ دل کیا روح کو بھی سرشارکردیا تھا۔گھر والی محبت اور پیار میں مہکتا خوشبوئیں بکھیرتا گلاب کا عطر بیز سا پھول تھی۔ایسا ہی محسوس ہوا تھا جیسے بہت محبت کرنے والے کسی اپنے سے مل رہی ہوں۔دل میں اتر جانے اور گھر کرنے والی۔
چنیوٹ کا ڈرائی فروٹ سیٹ آہستگی سے میز پر رکھا۔جوتے باہر اُتار آئی تھی۔اس نے نرم سے سلیپر پہننے پر اصرار کیا مگر مجھے ننگے پاؤں چلنا زیادہ اچھا لگا۔
جس اولین احساس نے سرشاری سے نہال کیا وہ ایک معصوم سی آواز کی چہکار تھی۔جیسے کوئی لہک لہک کر گیت گارہا ہو۔
کوئی ساڑھے چارسال کی بیٹی من موہنی سی تتلی جیسی۔نانی کے گوڈے سے جڑی ہوئی تھی۔
میں نے تنگ سے کہا تھا۔‘‘کمرے میں داخل ہونے قبل مجھے بچی کی مستی بھری آواز میں کچھ پڑھنے کی اونچی اونچی آوازیں سنائی دی تھیں جو میرے اندر داخل ہونے سے خاموش ہوگئی تھیں۔یہ کیا کچھ گارہی تھی؟’’
تنگ ہنسی۔‘‘ہاں یہ نظمیں پڑھنے کی بڑی شیدائی ہے۔سارادن چہکتی رہتی ہے۔دراصل ہماری چینی نظمیں ہمارے کلچر ،ہماری تہذیب و ثقافت اور ہمارے ماضی کی فینسٹی کو جاننے کے لیے ایک خوبصورت آئینہ ہے۔اس کی وضاحت کچھ یوں کردیتی ہوں کہ جیسے برطانیہ میں ہر بچہ شعور کی آنکھ کھلتے ہی ٹونکل ٹونکل لٹل سٹاز،میری ہیڈ اے لیمب جیسی نظمیں پڑھنے لگتا ہے۔’’
میں نے فوراً اس کی بات کاٹ دی تھی۔
‘‘برطانیہ کو چھوڑو۔ہم جیسی غلام اور نقال قوموں کے بچے اُن سے بھی زیادہ اِن نظموں کو پڑھتے ہیں۔ہمارے بچوں کے چاہے وہ سر سے گزر جائیں ۔ککھ نہ ان کے پلے پڑے۔انہوں نے انہیں لہک لہک اور مٹک مٹک کر گاناہے۔ ہم لوگوں نے دیکھ دیکھ کرنہال ہونا اور واری صدقے جانا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ چین کا Tangدور حکمرانی شعروفن کا سنہری دور سمجھا جاتا ہے۔اس عہد میں تخلیق کے سوتے اُبلے تھے۔بڑوں کا کیا اس دور کے بچوں نے بھی وہ ادب تخلیق کیا جو آج بھی چین کا امتیاز ہے۔
تنگ نے بیٹی سے کچھ کہا۔ماشاء اللہ سے Baozhai(قیمتی ہیر پن) نے بھی فوراً ہاتھوں ،سر،آنکھوں اور منہ کے زاویے بنا بنا اور سنوار سنوار کر نظم سنانا شروع کردی تھی۔
بطخ اوبطخ اوبطخ
تم جب اپنی گردن
آسمان کی طرف موڑتی اور گاتی ہو
تمہارے سفید پر
زمرد جیسے پانیوں پر تیرتے ہیں
تمہارے سرخ پاؤں
شفاف لہروں کو پیچھے دھکیل دیتے ہیں
جانتی ہو یہ کلاسیکل ٹائپ کی نظم تھانگ دور کے ایک ہونہار بچے جو جوان ہوکر بہت عظیم شاعر بنا اور Luo bin Wangکے نام سے مشہور ہوا نے سات سال کی عمر میں تخلیق کی تھی۔
پھر ایک اور خوبصورت سی نظم تنگ نے سنائی۔Wang Weiکی ۔آٹھویں صدی کے شاعر کی جو آج بھی اتنی ہی ہردل عزیز ہے۔جتنی صدیوں پہلے تھی۔کیسی دل میں اُتر جانے والی تھی۔ عنوان تھامحبت کے بیج
جنوب کی سرزمین پر سرخ بیریاں اگتی ہیں
ہائے بہار میں بیچارے درختوں کا بوجھ کتنا بڑھ جاتا ہے
اکٹھا کرو انہیں کہ تمہاری مٹھی بھر جائے
یہ تمہاری محبت بھری میٹھی یادوں کو
پھر سے زندہ کردیں گی
چھوٹے سے گھر میں گھومنا پھرنا اچھا لگا۔ دو بیڈ روم کا بہت خوبصورت فلیٹ تھاجس کی آرائش سلیقہ مندی اور شاہانہ انداز میں کی گئی تھی۔اس کی والدہ کوئی پچاس کے پیٹے میں ہوگی۔وہ بہت خوبصورت خاتون تھی۔ نہ بیٹی کی طرح فربہ اور نہ آنکھیں سلائی جیسی۔متواز ن سی، دلکش سی دو بچوں کی ماں۔ تنگ کا بھائی امریکہ میں تھا۔گھر ماں کا تھا جو پچاس سال کی لیز پر تھا۔خاتون پروفیسر استاد تھی۔بیوگی کے بعد زندگی بیٹی کے ساتھ گزار رہی تھی۔خاوند کام پر تھا۔ چائے جسے ہم قہوہ کہتے ہیں اُس نے پلانے کی کوشش کی۔
‘‘تکلف چھوڑو میں نے کہا ہم باہر گھومنے جارہے ہیں۔وہیں کھائیں پئیں گے۔’’مگر وہ مانی ہی نہ۔
‘‘بولو تم نے مکس فروٹ ٹی پینی ہے؟سن فلاور،سٹرابیری یا ہربل۔’’
میری آنکھوں میں حیرت سی دوڑتے پھرتے دیکھ کر وہ ہنسی اور بولی۔
‘‘محاورے کی زبان میں اگر بات کروں تو کہوں گی کہ ہمارے ہاں پینتیس (35 )سو قسم کی چائے بنتی ہے۔پانی ہم نے کیا پینا ہے؟یہی گرم قہوہ ہی سارا دن چلتا رہتا ہے۔
مجھے اٹھا کروہ اپنے ساتھ کچن میں لے گئی۔چھوٹے سے کچن کی الماری سے اس نے ایک مُنی سی چینک اور دراز سے بڑا خوشنما ایک بند پیکٹ اور چھوٹی سی قینچی نکالی۔پیکٹ کا کونہ کاٹا۔مٹھی بھر خشک پھل اور دیگر دو ڈبوں سے کچھ پھول پتیاں چائے دانی میں ڈالیں اور اُبلتے ہوئے پانی سے اُسے بھر دیا۔
اب کرسی پر بیٹھی ہاتھوں میں بغیر ہینڈل کے چُنا سا کپ پکڑے میں اسکی سنہری رنگت کو دیکھتے ہوئے مُنا چنا سا گھونٹ بھرتی ہوں۔ذائقے بارے کیا کہوں ۔بس خفیف سی مٹھاس ،خفیف سی کٹھاس بھرا مائع جسے قہوہ کہہ لو ،صحت بخش مشروب جو مرضی نام دے دو یہ تو آپ کی مرضی ہے۔
پورا ایک گھنٹہ اس کے گھر گزار کر ہم باہر نکلے تھے۔سڑک پر آکر اُس نے مجھ سے پوچھا تھا۔
‘‘ جانتی ہو آج میں تمہیں کہاں لے کر جانے والی ہوں۔’’
میں ہنس پڑی پہلے اپنی زبان میں خود کو خوش کرنے کے لیے بولی۔۔
‘‘ارے جہاں مرضی لے جاؤ۔ٹھٹھے کھوہ میں لے جاؤ۔مجھے تو بس مزے لوٹنے ہیں۔ہاں لاؤشی ٹی ہاؤس دیکھنے کی بہت خواہش ہے۔’’
میرے ہنسنے اور کچھ سمجھ نہ آنے پر اُس نے پوچھا تھا۔میں نے ترجمہ کیا۔کھلکھلا کر ہنسی اور پھر قدرے جوشیلے سے لہجے میں بولی۔
‘‘پرانے بیجنگ کے چائے خانوں میں۔پہلے جگہ جگہ گھماؤں پھراؤں گی۔ساتھ ساتھ کہانیاں سناؤں گی۔پھر شہر آفاق ٹی ہاؤس Laosheجائیں گے۔’’
سچی بات ہے اب خوشی سے میری باچھیں کانوں کی طرف دوڑنے لگی تھیں۔
‘‘اف دجلہ کے کنارے بغداد کا شہرہ آفاق ال شابندر کافی ہاؤس یاد آیا تھا جسے دیکھنے کے لیے مری جاتی تھی۔
اب کیسے نہ شکر گزاری کے کلمات اس اوپر والے کے حضور پیش کرتی کہ تنگ جیسی لڑکی سے ٹکرایا جو بیجنگ کی جم پل، اس کے چپّے چپّے سے آشنا،اس کی ہڈی ہڈی جوڑ جوڑ سے واقف ۔اس پر طرّہ اللہ سے محبت،اس کے بندوں سے پیار اور ان کی مدد کرنے والی بھی ہے۔
اس نے ٹیکسی کی بجائے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے قریبی سب وے کے گڑھوں میں اتار کر چھک چھک کرتی میٹرو میں بٹھا Qianmenسب وے اسٹیشن پر لے آئی۔اُس کی زیر زمین دنیا سے باہر نکل کر میں نے آرچری Archeryٹاور کو دیکھا۔خوبصورت اور شاندار۔آنکھوں نے اُسے دیکھ کر مسرت بھری کلکاری بھری تھی۔
مجھے کچھ یاد آیا۔ اک ذرا رک کر پوچھا۔‘‘تم نے مجھ سے پیسے نہیں لیے۔’’
‘‘بہت معمولی کرایہ ہے۔میرا تو پاس بنا ہوا ہے۔اور ہاں اِن پیسو ں ویسوں کے چکروں میں مت پڑو۔میں جب لاہور آؤں گی تم سے دوگنا وصول کرلوں گی۔’’
شام کی میٹھی سی دھوپ میں ماحول لوگوں کی چہل پہل سے جگمگا رہا تھا اور جب پانچ آہنی محرابوں والے خوبصورت دروازوں سے Qianmenسٹریٹ میں داخلہ ہوا تو میری آنکھیں حیرت زدہ کبھی دائیں اور کبھی بائیں دیکھتیں۔کیا منظر تھے یہ؟محرابوں کی نقاشی اور سڑک کی خانوں میں بٹی وسعتیں اور ان پر چلتے پھرتے لوگ محسوس ہوتا تھا جیسے میں ایک طلسماتی دنیا میں داخل ہورہی ہوں۔جس کی شوخ رنگوں سے لتھڑی عمارتوں کے منہ متھے نئی نویلی دلہنوں کی طرح میک اپ اور ہار سنگار کی پٹیوں سے سجے ہیں۔مرکزی شاہراہ سے گلیاں مڑتی اور نئے منظروں کے دروازے کھولتی تھیں۔جہاں ایک طرف وہ سینکڑوں سال قبل تاریخ کے کچھ رنگ ،کچھ عکس اور اس وقت کی بھینی سی خوشبو کا احساس دیتی تھیں۔
تنگ نے بتایا تھا کہ Qianmenسٹریٹ پیدل چلنے کے لیے ہے۔یہاں چھوٹی بڑی کسی ٹرانسپورٹ کی اجازت نہیں۔
Qianmen Streetمیں داخل کیا ہوئے کہ محسوس ہوا جیسے رنگ و نور سے بھری پری کوئی الف لیلوی دنیا سامنے ہے۔شام تھی۔برقی روشنیوں میں ماحول کی جگمگاہٹ خیرہ کررہی تھی۔عمارتوں کا حسن جدت اور قدامت کے رنگوں میں گندھا آنکھیں پھاڑتا تھا۔ تنگ جوان لڑکی تھی۔زندگی کی حرارت سے لبالب بھری ہوئی۔مگر احساس اور خیالات کی دولت سے بھی مالا مال تھی کہ جوں کی سی چال چلتی تھی۔ تبھی اُس نے کہا تھا۔
‘‘آپ کو چلنا تو پڑے گا مگر میں کوشش کروں گی کہ کم سے کم چلاؤں۔Qianmen Streetمیں شمال اور جنوب سے دو داخلی راستے ہیں۔ہم پہلے راستے سے داخل ہورہے ہیں۔ذرا رونق میلہ دیکھیں۔ہوٹانگز کی تاریخ بارے جانیں۔ پھر لاؤشی ٹی ہاوس میں جائیں گے۔’’
اب ایک سیاپا پڑ گیا۔تنگ نے معلومات کے دریا بہانے شروع کردئیے تھے۔اُف آنکھوں اور کانوں کا امتحان تھا۔کان سنتے تو آنکھیں بھٹکنے لگتیں۔اب تنگ کو نہیں کہہ سکتی تھی کہ رکو میں اسے ہضم نہیں کرپاؤں گی۔سوچا اُسے ٹوکوں گی نہیں۔اتنی پیاری محبت بھری لڑکی ہے۔چلو جو مل رہا ہے چُپ چپاتے اُسے لیتے جاؤ۔کمی کا حساب کتاب پھر پر اٹھا رکھو۔
چائے وہ عنصر ہے جو چین کے ساتھ اسی طرح جڑا ہوا ہے جیسے گوشت کے ساتھ ناخن۔چینی کلچر، چینی روایات سب کا وجود اس کے بغیر نامکمل ہے۔
دارلحکومت کے اِس شہر قدیم والے حصّے میں اتنے چائے خانے ہیں اتنے کہ جن کا شمار کرنا مشکل ہے۔یہ دہائیوں میں نہیں سینکڑوں میں تو جاتے ہی ہیں۔ گذشتہ صدی میں تو یہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کیاصحافی،کیا لکھاری،اداکار،تاش کے کھلاڑی،استاد،طلبہ ،ڈاکٹر ،انجنئیر اور دست کاروں کی ایک طرح چوپال ہوتی تھی۔ لوگوں کے پاس بڑا وقت ہوتا تھا۔سچی بات ہے ان کی زندگی چھوٹے موٹے غم و فکروں سے آزاد بڑی ہموار، متوازن اور اِس صدیوں پرانے دارلحکومت کے حسن و دلکشی میں پور پور ڈوبی ہوئی تھی۔اِسے اگر ایک سطر میں بیان کرنے کو کہا جائے تو میں کہوں گی۔
‘‘مزے لوٹنا۔’’
چین کے ایک بڑے لکھاری Chen Jiangong نے ایک بار کہا تھا بیجنگ کے لوگ مزے لینا پسند کرتے ہیں۔اور لطف کی بات کہ یہ مزے تلاش کرنے میں بھی بڑی مہارت رکھتے ہیں۔اُن کے لیے ہر دلچسپ شوق یا مشغلہ مزے کا کام ہے۔پتنگ اڑانا،پرندے پالنا ،لہسن کے جوے ساتھ شراب کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرنا،گانے گانا یا سُننا سب مزے کے کام ہیں۔
‘‘ارے واہ تنگ تم نے تو میرے پرانے لاہور کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔لاہوریوں کے بھی یہی رنگ ڈھنگ تو ہیں۔بس اس میں سالوں پہلے چائے کی جگہ پیڑوں والی لسی ڈال لو۔ اٹھک بیٹھک، اوڑھنے پہننے کے ذرا فرق رنگوں کا آمیزہ گھول دیں تو مزے اور فراغت کے کلچروں میں گندھی بہت دل کش تصویریں بنیں گی۔
پرانا بیجنگ چائے خانوں کے لیے بہت شہرت رکھتا ہے۔روزمرہ زندگی سے متعلق کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس کا بندہ یہاں نہ آئے۔مزے کی بات آنے کے انداز بھی بڑے دلچسپ ہوتے ہیں۔کچھ تو آرام کرنے کے لیے آتے ہیں ۔کچھ کی اپنے پالتو جانوروں کے پینجروں کے ساتھ تشریف آوری ہوتی ہے۔ایک ڈنڈے پرپینجرے لٹکا دیتے ہیں۔ یا پھر میز پر رکھ دیتے ہیں۔خود چائے پیتے ہیں اور پرندے اپنی بولیاں بولتے ہیں۔ایسا ہنسنے ہنسانے والا منظر ہوتا ہے کہ دیکھنے والے کو لطف آجاتا ہے۔دراصل چینی زندگی میں چائے خانہ عوامی جگہ ہے۔ لوگوں کی سماجی سرگرمیوں کا مرکز جہاں بیٹھ کر وہ اپنے دکھ سکھ ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔کبھی ہنستے ہیں کبھی افسردہ ہوکر آنسو بھی بہاتے ہیں۔
اسیQianmen سٹریٹ میں ہی وہ شہرہ آفاق لاؤشی ٹی ہاوس واقع ہے۔تھوڑا سا بتا بھی دوں۔تفصیل اندر چل کر سناؤں گی۔
دراصل لاؤشیLaoshe ایک مشہور آرٹسٹ اور ٹی وی ڈرامہ نگار نے ‘‘ٹی ہاؤس’’ کے نام سے ایک شاندار اور کامیاب ڈرامہ لکھا جسے بہت پذیرائی ملی۔اسے بہترین کلاسیکل شاہکار شمار کیا گیا۔
ایک تو گلی بڑی شاندار تھی۔داخل ہوتے ہی جس طرح کے رنگ رنگیلے شو خ و چنچل رنگوں سے اُن کے دروازے، پگوڈا نما چھتیں،بالکونیاں معلق محرابی جنگلے اور منہ متھے سجے ہوئے تھے۔وہ سب آنکھوں اور ہونٹوں پر بچوں جیسی معصوم کلکاریوں جیسی ہنسی بکھیر دیتے تھے۔
ایک عمارت کے سامنے رُک گئے۔
کِسی الہڑ مٹیار کے باہر کو نکلے ہوئے چمکدار ماتھے کی طرح اس کے فرنٹ پر ایک نام چمکتاتھا۔
تاہم تنگ اندر جانے کی بجائے سیدھا چلنے لگی اور میرے استفسار پر اس نے کہا۔
‘‘میں نے سوچا پہلے میں آپ کو اس کی مختلف سٹریٹ ز میں گھماؤں پھراؤں۔تاریخ سے بھی آشنائی کرواؤں۔پھر یہاں آئیں گی۔’’
تیزی سے باتیں کرتے کرتے اس نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے آگے مڑنے والی گلیوں کی طرف اشارہ کیا۔ اور اس کے ساتھ ہی میں بھی مڑ گئی تھی۔
کیا منظر کھلا تھا۔نیچی چھتوں والے دو منزلہ عمارتوں والے ،چوباروں والے،تنگ گلیوں والے گھر کیسے کیسے نمونوں کا پیرھن پہنے کھڑے تھے ۔یہ کیسی دنیا تھی؟رات کے باوجود گھروں کی قدامت کے باوجود ان کے لپے تپے چہرے برقی روشنیوں میں خوب خوب لشکارے مارتے اور نظروں کو لبھاتے تھے۔
پھر وہ اندر ہی اندر پھیلتی تنگ تنگ گلیوں میں داخل ہونے لگی۔میرے لیے یہ منظر قطعاً نئے نہ تھے۔عام لوگوں کے گھر جو اب چائے خانے،طعام گھر اور شراب گھر بنے ہوئے تھے۔میرے سامنے میرے لاہور کا چھتہ بازار، سوہا،گمٹی، اعظم مارکیٹ کی گلیاں اور ٹکسالی کے بازار رقصاں تھے۔کبھی کے گھر جو اب کاروباری مرکز بنے ہوئے تھے۔دکھ کی لہر نے ضرور اندر بھگویا تھا کہ جدّت کے وہ تڑکے وہاں نہیں تھے جو یہاں تھے یا میں نے انہیں دنیا کے بیشتر ملکوں کے ڈاؤن ٹاؤ ن کی گلیوں میں دیکھے تھے۔
وہ ایسے ہی ایک سجی ہوئی گلی کے بطن سے نکلتی ایک اور گلی کا شیشے والا دروازہ کھول کر اندر چلی گئی۔عام سا چوبی دروازہ جسے کھولا تو اندر جیسے آرائش و زیبائش کا جہاں اُبل رہا تھا۔لوگ میزوں کے گرد بیٹھے خوش گپیوں اور چائے کے پیالوں سے شغل کرتے تھے۔ایک چھوٹی سی میز کے گرد بیٹھتے ہوئے اس نے کہا۔
‘‘یہی وہ گھر ہیں جن کی ڈھلانی چھتوں پر کبوتروں کے غول پُھدکتے،اُچھلتے ،ناچتے ،کودتے چہلیں کرتے نظر آتے تھے۔پرانے بیجنگ کے رہائشیوں کو کبوتر پالنے سے عشق تھا۔یہ جب فضاؤں میں اڑانیں بھرتے وہ بے خود ہوجایا کرتے تھے۔ بعض لوگ تو اِن کے پروں یا دموں کے ساتھ سیٹی باندھ دیتے تھے۔وانگ سکسیانگWang Shixiang جو بیسویں صدی کے آوائل دہائیوں کا ایک بہت بڑا فوک گائیک تھا نے ایک بار ایک محفل میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے دوران کہا تھا کہ کبوتر کی پروں کی پھڑپھڑاہٹ اور اس کی سیٹیاں دراصل بیجنگ کی زندگی کی خوبصورت علامت ہیں۔
موسم خواہ بہار کا ہو یا بیجنگ کی فضائیں گرمی سے تپتی ہوں۔سرد ترین دن ہوں یا خزاں کا ہرسُوراج ہو۔ہواؤں میں ،فضاؤں میں اِن کی اڑانیں ،ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹیں ،ان کی سیٹیاں،ان کی غٹرغوں غٹرغوں جیسی آوازیں آسمانوں پر تیرتی کبھی بہت نزدیک کبھی کہیں دور سے کبھی معدوم ہوتی ہوئیں اور کبھی آپ کے پاس سے کانوں میں رس گھولتی خوشی و مسرت کا پیغام دیتی آپ کو کسی سرمدی نغمے جیسی محسوس ہوتی ہیں۔ایک لطف ایک سرشاری سی رگ و پے میں دوڑنے لگتی ہے۔کبھی یہ پرنور صبحوں میں لوگوں کو ان کے خوابوں سے جگاتی ہیں۔اُن کی نگاہیں بہت دور تک ان کے تعاقب میں دوڑتی چلی جاتی ہیں۔
اور جب میں یہ سب سنتی تھی بے اختیار ہی تومیرے ہونٹوں سے نکلا تھا۔
یہ سب تو میرے بچپن کی یادوں اور میرے لاہور کے گلی کوچوں کے قصے کہانیاں ہیں۔یوں بھی بچپن کا کیا ذکر۔یہ تو میری جوانی اور اب بڑھاپے کے بھی منظر ہیں جو لاہور کیا پورے پاکستان کے شہروں میں بکھرے پڑے ہیں۔ہماری تو شاعری بھی ان کی رنگینی سے لبریز ہے۔ڈھو ل کو چھٹی پہنچانے کا کام بھی انہی کے سپرد طرلے منتوں سے ہوتا تھا۔
تنگ نے غالباً آرڈر کیا تھا۔ چھوٹی سی میز پر چیزیں سج گئی تھیں۔کڑوی کیسلی چائے یا قہوہ۔
دراصل اُس نے وضاحت کی۔‘‘ میں کچھ سستے سے ٹی ہاؤس میں سب کچھ دکھانا چاہتی تھی۔ لاؤشی Laoshe میں تو کھال اُتار لیتے ہیں۔’’
کچھ غلطی میری بھی تھی کہ میں نے ٹکٹ کا بندوبست نہیں کیا۔ چلو اِسے پھر پر رکھیں گے کہ اس کا اوپیرا دیکھنے کی چیز ہے ۔ساتھ میں ٹی ہاؤس کی بھی سیر ہوجائے گی۔
اور جب میں اور وہ کڑوا کسیلا قہوہ پیتی تھیں میں سُنتی تھی اِ س پرانے بیجنگ کے رہائشیوں کے کچھ اور انوکھے شوق بھی تھے۔
بڑے دیوانے تھے وہ۔گولڈ فش کو پالنا،ان کی سیوا کرنا بہت لوگوں کا جنون تھا۔شاہی گھرانے کے لوگ بھی اِس شوق کا شکار تھے۔اُن کے محلوں میں باقاعدہ تالاب اِس مقصد کے لیے بنائے جاتے تھے۔اور شاہی افراد اِس کی سجاوٹ میں بھی خصوصی دلچسپی رکھتے۔پرسی من درخت بھی اطراف میں لگائے جاتے۔یوں صحن کی سجاوٹ ہی منفرد نظرآتی۔
اور ایک بار پھر میرے سامنے اپنے عام اور خاص لوگوں کے شوق مرغیاں پالنے اور مرغوں کی باقاعدہ لڑائی کروانے کے شغل تھے۔
پھر اٹھے اور باہر آئے۔اب پھر آوارہ گردی شروع ہوگئی۔دفعتاً شنگ ایک جگہ رُک گئی۔
‘‘اوہویہ تو Tianqiaoفوک کلچر سٹریٹ ہے۔چلو اِسے بھی تھوڑا سا دیکھ لو۔یہ بھی دیکھنے کی چیز ہے۔’’
اس نے مجھے Tianqiao کے ایسے ایسے قصے سُنائے تھے کہ چند لمحوں کے لیے مجھے محسوس ہوتا تھا جیسے میں وقت کی اس ٹنل میں چلی گئی ہوں جہاں تفریح کے یہ سب انداز تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہمارے ہاں بھی ہوتے تھے۔لوگوں کو ہنساتے اور ان میں خوشیاں بانٹتے تھے۔یہ بھی مجھے تمہیں دکھانا تھا۔اِس وقت سرسری سا دیکھ لو۔مگر یہاں تمہیں دن کی روشنی میں بھی آنا ہے۔
میرے سوال پر کہ یہ یٹان قیاء چیز کیا ہے؟پتہ چلا تھا کہ قدیم بیجنگ کا ہی ایک علاقہ ہے۔جو بیجنگ کے لوک کلچر کی مختلف شاخوں جن میں ذہنی چسکوں کے ساتھ ساتھ ذہنی تفریح کی بھی بہت ساری اقسام ہیں۔اور یہ اِن سب کے لیے خصوصی شہرت رکھتا ہے۔
کھانے کے ریسٹورنٹ،کھوکھے،چائے خانوں کے ساتھ ساتھ تھیڑ ہال،پیکنگ اوپیرا،پتلی تماشا،مزاحیہ گفتگو،مزاحیہ ڈرامے، بازی گری تماشے،جادو کے کھیل اور دیگر بے شمار اسی نوعیت کی چیزیں کل بھی ہوتی تھیں ۔آج ذرا زیادہ شاندار انداز میں ہورہی ہیں۔بازار بھی سجتے ہیں۔ضروریات زندگی کی چیزیں سستے داموں ملتی ہیں۔
اور سچی بات ہے یہاں پھرنا،آوازوں کا شوروغل فضاؤں میں پھیلی کھانوں کی مہک سب مزے کا تھا۔دراصل قدیم بیجنگ کی سب سے زیادہ اہم اور یاد رکھنے والی بات صرف ایک ہی تو ہے اور وہ اس کی خوراک ہے۔ کہتے ہیں یہ اس کے انواع و اقسام کے کھانے ہی تو ہیں جن کے ساتھ ایک تہذیب جڑی ہوئی ہیں۔روایتیں منسلک ہیں۔طورطریقے جڑے ہوئے ہیں اور زمانوں سے چلے آرہے ہیں۔دوسرے اس کا فوک کلچر ہے۔
Advertisements
اب اِس سٹریٹ سے کِسی اور طرف نکلنا کوئی مذاق تھا۔جہاں ہر دوسرے قدم پر مجسمے آپ کو روکتے تھے۔اور اِن کے ساتھ جڑی کہانیاں آپ کو وقت کی کِسی دوسری دنیا میں لے جاتی تھیں۔انہی کہانیوں کو بڑے بڑے ہالوں میں تمثیلی انداز میں پیش کیا جاتا تھا۔جس کا ٹکٹ آپ کو چند لمحے کے لیے سوچ میں ڈال دیتا ہے۔یہ Qingاور منگ بادشاہوں کا عظیم تحفہ ہے۔
وقت نے کتنی کروٹیں لی ہیں۔یہ کروٹیں جو تبدیلیوں کا مظہر ہوتی ہیں۔اب یہ تو ممکن نہی کہ تبدیلیاں آئیں اور طرز زندگی کے انداز وہیں کھڑے رہیں۔بیجنگ کے لوگوں کا طرز زندگی بھی بدل چکا ہے۔بیسویں (۲۰) صدی کے اختتام پر اور اکیسویں (۲۱) صدی کے آغاز پرسنلیٹن میں بار سٹریٹ (Bar Street)منظر عام پر آئی۔
ڈونگریم میں گیجی سٹریٹ ایک اور دوسری بار سٹریٹ بنی ۔Shichahai Lakeکے گرد ،لوگوں کے لیے کہ وہ اپنے فارغ اوقات میں یہاں لطف اٹھا سکیں۔
Shichahaiجھیل ایک ویران جگہ تھی لیکن یہ اچانک پرکشش بن گئی ۔نئی صدی کے آغاز پر ایک بڑی تعداد میں شراب خانے (bars)شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔بڑے دلچسپ ناموں کے ساتھ جیسے Blue Lotus،۔۔۔۔۔۔۔۔
سچی بات ہے لاؤشی Laosheکو تو ہم بھول ہی گئے تھے۔ ہمیں تو ان سٹریٹوں نے ہی جھٹ جپھے ڈال لیے تھے۔ تاہم پھر بھی تو آنا ہے۔Laosheکو دیکھنے۔
تنگ مجھے چھوٹی چھوٹی گلیوں سے گزار رہی تھی۔ان کے بارے بتارہی تھی۔اِن گلیوں میں چھوٹے چھوٹے شراب خانے تھے۔
‘‘شکر ہے آل ال مائٹی جیسز کا میں نے ڈرنک کرنی چھوڑ دی ہے۔ان کے ساتھ بڑی دلچسپ ڈھیروں ڈھیر کہانیاں ہیں۔’’
شب کے پہلے پہر اور دوسرے تو پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب پاس سے گزر گئے اور اب تیسرے نے سانسیں بھرنی شروع کردی تھیں۔
تنگ میرے چہرے پر برستی تھکن کو دیکھتی اور کہتی تھی۔
‘‘میرے خیال میں آپ کو مزید پھرانا آپ پر ظلم کرنے کے مترادف ہوگا۔
لاؤشی ٹی ہاؤس کو پھر پر رکھتے ہیں۔’’
ارے ارے تنگ میں تو لطف اٹھا رہی ہوں اور دل ہی دل میں تمہیں دعائیں بھی دے رہی ہوں۔یہ تم ہو جس کے صدقے مجھے یہ سب دیکھنا نصیب ہوا۔
جاری ہے