قضیۂ غزالی و ابن رشد اور بدعت شناسانہ میلانات – عاصم بخشی
عاصم بخشی صاحب کا یہ مضمون ماہنامہ الشریعہ میں شارق عبداللہ صاحب کے قسط وار شائع ہونے والے مضمون "غزالی اور ابن رشد کا قضیہ” کے جواب میں لکھا گیا تھا اور سب سے پہلے ماہنامہ الشریعہ میں ہی شائع ہوا۔ اسے عاطف حسین نے” دانش "کے قارئین کیلئے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ شارق عبداللہ صاحب کے مضمون کی قسط اول یہاں اور قسط دوم یہاں جبکہ عاصم بخشی صاحب کا اصل مضمون یہاں دیکھا جاسکتا ہے۔
شارق صاحب کا مضمون کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے۔ وہ غزالی کا دفاع تو کررہے ہیں لیکن انہوں نےاس مفروضہ حملے کا کوئی ایک بھی حوالہ نہیں دیا جس کے جواب میں یہ دفاع پیش کیا جارہا ہے۔ درحقیقت، غزالی پر کسی ایک حوالے سے نہیں بلکہ سائنسی، فلسفیانہ اور مذہبی متعدد پہلووں سے تنقید ہوئی ہے۔ ان پر ہونے والی تنقیدات کی زمرہ بندی مندرجہ ذیل طریقے سے کی جاسکتی ہے:
1۔ نام نہاد مسلم عقل پرستوں اور جدت پسندوں کی جانب سے کی جانے والی کم علمی پر مبنی تحدیدی تنقیدیں۔
2۔ان غیر مسلموں بشمول ملحدوں کی جانب سے کی جانے والی کوتاہ بین تنقیدیں جو غزالی اور ابن رشد کے قضیے کو عقیدہ پرستی اور عقلیت پسندی کی جنگ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
3۔ زیادہ دقیق تنقیدیں جن کا اصل نشانہ اشاعرہ کا کونیاتی فلسفہ اور علت و معلول کے نظریات کے متعلق ان کے عقائد ہوتے ہیں۔
4۔ نظریہ ٔ علم کے تناظر میں پیش کی جانے والی زیادہ رسمی اور جامع تنقیدیں جہاں غزالی اور ابن رشد بالکل الگ الگ نظریہ ہائے علم رکھنے والی شخصیات کے طور پرسامنے آتے ہیں۔ ظاہر ہے اسکے سماجی مضمرات بھی نہایت گہرے ہیں کیونکہ دونوں شخصیات کی فکر دنیا کو دیکھنے کے بالکل الگ الگ تناظر تشکیل دیتی ہے۔
میری عاجزانہ رائے میں فاضل مضمون نگار صرف زمرۂ اول کی تنقیدوں کے خلاف دفاع پیش کررہے ہیں لیکن وہ بھی کچھ ایسے انداز میں کہ ان قارئین کو بھی سمجھ نہیں آتی جو اس قضیے سے واقف ہیں۔ رہے عام قارئین تو ان کیلئے یہ مضمون گمراہ کن ہے کیونکہ یہ عہدوسطیٰ کے مسلم مفکروں کے فکری ورثے اور فلسفہ و سائنس کی تاریخ کی ایک بیش تسہیلی اور مسخ شدہ تصویر پیش کرتا ہے۔
فاضل مضمون نگار عہد وسطیٰ کے مسلم مفکروں کو دو الگ الگ خانوں میں رکھتے نظر آتے ہیں۔ اول، جن کو مابعدالطبیعاتی سوالات سے کوئی سروکار نہیں تھا اور دوم، جو ان سوالات سے بھی تعارض کرتے تھے۔ معزز مضمون نگار کو اپنے مضمون میں زمرہ بندی کا حق حاصل ہے مگر ان کی زمرہ بندی غیر ضروری معلوم ہوتی ہے۔ یہ محض ان مفکروں کی دلچسپیوں کا فرق ہے کہ ان میں سے بعض تو مابعدالطبیعات پر بھی غور کرتے تھے جبکہ بعض صرف تجربی علوم تک محدود رہتے تھے۔ مضمون نگار اس حقیقت کو بالکل ہی نظرانداز کردیتے ہیں کہ عربوں کو سائنس بنیادی طور پر ترجمے کی تحریک کے نتیجے میں یونانی مصادر سے منتقل ہوئی تھی اور اسکی بنیادوں میں ہی یونانی فلسفہ کارفرما تھا لہذا کسی کیلئے بھی اس زمانے کی سائنس کی مابعدالطبیعات سے صرف نظر کرنا ممکن نہیں تھا۔ اسی طرح یونانی تناظر میں علم کی طبیعات اور مابعد الطبیعات میں تقسیم اگر مکمل طور پر غلط نہیں بھی تو قابل بحث اور بیش تسہیلی ضرور ہے۔
اسی لیے ازمنہ وسطیٰ کی فکری روایت کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اگر الفارابی، الجاحظ، الکندی ، ابن طفیل اور ابن رشد وغیرہ نے سماجی علوم میں غور وفکر کیا اور کچھ دوسرے (جن میں سے بعض کا ذکر مضمون نگار نے کیا ہے) تجربی علوم میں مشغول ہوئے تو ایسا محض ان کی دلچسپیوں میں تفاوت کی وجہ ہوا ورنہ وہ سب کسی نہ کسی درجے میں ہمہ دان ہی تھے جن کے کام کی نوعیت اصلاً بین الشعبہ جاتی ہی تھی۔
مثال کے طور پر محمد بن زکریا الرازی کو ہی لیجئے جسے مضمون نگار نے کیمیا دان کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ عہد وسطیٰ کی مسلم فلسفیانہ روایت کا کونسا طالب علم بدنامِ زمانہ "ملحد” الرازی سے واقف نہیں ہے ؟ کیا اس نے مابعدالطبیعاتی معاملات پر درجنوں رسالے نہیں لکھے؟ کیا اسے اس زمانے کے مذہبی شدت پسندوں نے بدعتی اور ملحد نہیں قراردیا؟
عباس ابن فرناس کو لیجئے جسے مضمون نگار نے غلطی سے مسلم ابن فراس لکھا ہے۔ اس کی شہرت (ممکنہ طور پر) پہلے ہوا باز کی ہے لیکن وہ موسیقار اور طبیب بھی تھا۔ اسی طرح اگر آپ البیرونی کو جیومیٹری کے ماہر کے طور پر متعارف کرواتے ہیں تو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ایک مشہور ہندشناس بھی تھا ۔
اوپر کی بحث کی روشنی میں زیادہ حقیقت پسندانہ اور ممکنہ طور پر درست نتیجہ یہ اخد کیا جا سکتا ہے کہ یہ سارے مفکرین کئی شعبہ ہائے علم پر دسترس رکھنے والے ہمہ دان تھے ۔ مسلم روایت کے غیرجانب دار طلبہ کے طور پر ہمیں چاہیے کہ عہد وسطیٰ کی سی بدعت شناس تصنیفی تحریکوں اور مناظرانہ مشاغل سے اوپر اٹھ کر خود کو ابن سینا ، ابن رشد اور ابن طفیل کی جگہ رکھ کر انہیں یونانی فلسفے کی یلغار سے نبرد آزما ہوتا محسوس کریں۔
یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ تاریخی طور پر سائنس اور فلسفہ ایک ہی شعبۂ علم تھے، مضمون نگار کا آگے چل کر علم کی افادی/ تجربی اور مابعدالطبیعاتی/ فلسفیانہ میں تقسیم پر اصرار غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ان کا یہ دعویٰ تو بالکل بجا ہے کہ غزالی نے فلاسفہ کی صرف ان باتوں پر تنقید کی ہے جو مذہبی سچائی سے متعلق ہیں تاہم مضمون نگار یہ ماننے سے انکاری نظر آتے ہیں کہ متجسس انسانی ذہنوں کیلئے عام طور پر حق کو عامیانہ انداز میں اسکی برتر (فلسفیانہ) اور فروتر افادی جہات میں تقسیم کرکے الگ الگ دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی تقسیم یا تو عوام کرسکتے ہیں یا پھر غزالی جیسے عبقری۔ اسی لیے غزالی کے ناقدوں مثلا ابن رشد کو بھی انکے خیالات کے متنوع دھاروں کو ایک ہی کُل میں پرو کر کر دیکھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ چنانچہ ابن رشد کے غزالی پر مندرجہ ذیل تبصرے کا مقصد صرف اہانت نہیں ہے:
"وہ اشاعرہ کے ساتھ ایک اشعری، صوفیوں کے ساتھ ایک صوفی اور فلسفیوں کے ساتھ ایک فلسفی تھے۔ گویا ان کی حالت اس شخص کی سی تھی جس کا بیان اس شعر میں ہے:
ایک دن تم کسی یمنی سے ملتے ہو تو یمنی بن جاتے ہو
اور پھر تمہاری ملاقات بنو معد کے کسی شخص سے ہوتی ہے تو عدنانی بن جاتے ہو”
مزید برآں، اگر مسلم ثقافت اور تہذیب میں آگے چل کر علم کی الگ الگ خانوں میں تقسیم پر تفاخر کا رویہ پیدا ہوا تو اس کا زیادہ الزام غزالی کو ہی دینا چاہیے۔ تاہم یہ قابلِ بحث امر ہے اور خوش قسمتی سے حالیہ تحقیقات میں یہ بات بڑی حد تک واضح ہوگئی ہے کہ غزالی کے نظام فکر میں اس سے کہیں زیادہ جامعیت ہے جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا رہا ہے۔
فلسفیانہ اور سائنسی نقطہ نظر سے دیکھنے پر بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ قضیۂ غزالی و ابن رشد کا جیسا نو کلاسیکی تجزیہ مضمون نگار نے کیا ہے اس سے غزالی کے نظام فکر میں کسی وحدت کی تلاش کی گنجائش کم ہی رہ جاتی ہے۔ مثال کے طور مضمون نگار کے اس دعوے کو لیجئے کہ غزالی سائنس کا انکار نہیں کررہے۔ کیا ایسا کوئی دعویٰ "سائنس” کی کوئی معروضی تعریف متعین کیے بغیر کیا جاسکتا ہے؟ (یعنی یہ دعویٰ کرتے ہوئے مضمون نگار کے ذہن میں لازما سائنس کی کوئی تعریف ہوئی ہوگی۔ مترجم )۔ اگر نہیں تو پھر کلاسیکی تجزیات میں مشغول مضمون نگاروں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ غزالی پر تنقید کرنے والوں کے ذہن میں بھی سائنس کی اپنی تعریف اور کوئی خاکہ ہوتا ہے کہ کیسے یہ سائنس حقیقت کی بلند تر جہات اور کائنات کی ماہیت اور مبدا و انجام کے بارے میں سوالات کے جوابات دے سکتی ہے۔
قضیہ ٔ غزالی و ابن رشد کے معاملے میں ان نزاکتوں اور پیچیدگیوں کا پوری طرح لحاظ کیے بغیر محض کچھ مفروضہ فلسفیوں اور سائنسدانوں کی تضحیک پر مشتمل جوبھی مناظرانہ تجزیہ کیا جائے گا وہ سائنس پرستانہ اور شدت پسندانہ نوالحادی تجزیات کی طرح ہی تحدیدی اور سطحی ہوگا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی مناسب ہوگا کہ غزالی کا طبیعاتی فلسفہ بھی جتنا ایک کہ وہ تہافت الفلاسہ اور الاقتصاد فی الاعتقاد جیسی کتابوں سے اخذ کیا جاسکتا ہے بظاہر ابن رشد کے مقابلے میں زیادہ ندرت رکھتا ہے کیوں کہ موخرالذکر محض ارسطو کی فکر کا شارح تھا۔ تاہم ایسا کوئی تقابل نامکمل اور غزالی اور ابن رشد دونوں کے ساتھ زیادتی ہی ہوگا جب تک کہ ہم اس قضیے کو ان دونوں کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش نہ کریں۔
اگر اصلاً الٰہیاتی دفاع کے مقام پر کھڑے غزالی کے نزدیک ابن سینا اور الفارابی کو خاص طور پر اپنی تنقید کا ہدف بنانے کا مقصد مذہب کو فلاسفہ کی قیاس آرائیوں سے پاک کرنا تھا تو ابن رشد نے بھی ان مفکروں پر غزالی کی تنقید کو پوری ارسطاطالیسی روایت پر حملہ سمجھتے ہوئے اس کے دفاع کا حق ادا کیا۔
غزالی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ کائنات کے قدیم و ابدی ہونے کا تصور خدا کی صفتِ قدیریت سے متصادم ہے مگر ابن رشد کا یہ کہنا بھی مکمل غلط نہیں کہ ازلی اور موقت عاملوں کے درمیان فرق کیا جانا چاہیے۔ کیا خدا ئی اعمال کے معاملے میں ہم وقت یا اس کی صفات کے بارے میں کچھ کہہ بھی سکتے ہیں؟ خدائی افعال میں وقت کے معنی کا لحاظ کرتے ہوئے کیا یہ کہنا کہ خدا نے کائنات کو "اچانک” تخلیق کیا ہے کوئی معقول بات ہوگی؟ کیا خدا اِس وقت اور اُس وقت میں صفات کے لحاظ سے فرق کرتا ہے؟ خدا کی ذات تو زمانیت کے تصور سے ہی ماوراء ہے ؟
غزالی جب ایسے بھوکے شخص کی مثال دیتے ہیں جسے دو بالکل ایک جیسی کھجوروں میں سے ایک کے انتخاب کا مسئلہ درپیش ہے تو ابن رشد سوال کرتے ہیں کہ اگر دونوں کھجوروں میں صفاتی لحاظ سے کوئی فرق نہیں (کیونکہ اگر کوئی صفاتی فرق ہوتا تو ان دونوں کو ایک جیسا نہیں کہا جاسکتا تھا) تو کیا یہ دو کجھوروں میں سے ایک کھجور کھانے کے انتخاب کا مسئلہ ہے یا کھجور کھانے اور نہ کھانے کے درمیان انتخاب کا؟ غزالی طبیعاتی فلسفے میں خدا کیلئے بطور ایک فعال عامل گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ ابن رشد باربار خدا کے علم اور اس کی مرضی کے درمیان فرق کے مسئلے کی جانب متوجہ کررہے ہیں۔
اسی طرح اگر ہم ان دونوں کےوسیع المعانی اور پیچیدہ متون کو آمنے سامنے رکھ کر دیکھیں تو چشم تصور سے ان کوعاملیت، صوریت، اتفاقیت، علیت، کونیات اور حقیقتِ روح جیسے پیچیدہ مسائل پر مباحثہ کرتا دیکھ سکتے ہیں۔ مکمل منظر کو دیکھنے کیلئے یہ بھی پیش ِ نظر رہے کہ ان دونوں کا یہ مباحثہ صرف ان دو کتب تک محدود نہیں ہے بلکہ ابن رشد اپنی باقی کئی کتابوں میں بھی بار بار غزالی کے حوالے لاتے ہیں۔ کبھی ان پر تنقید کی غرض سے اور کبھی اپنی کسی بات کی تائید میں۔ عصرِ حاضر کے ایک مبصر نے اس صورتِ حال پر نہایت درست تبصرہ کیا ہے کہ غزالی نے فلسفے پر تنقید کرتے کرتے ایک نئے فلسفے کی بنیاد رکھ دی۔
غزالی کے برعکس ابن رشد نے کبھی بھی اپنے نظریات کی صحت کے متعلق بہت زیادہ پراعتماد ہونے کا تاثر نہیں دیا۔ اگر ابن رشد کے سارے کام کا خلاصہ صرف ایک دعوے کی شکل میں کرنا ہو تو وہ دعویٰ ان کا یہ غیر متزلزل یقین ہے کہ وحی (سے حاصل ہونے والے علم) اور تعقل و تفکر کے ذریعے حاصل کیے ہوئے علم کے درمیان کوئی تناقض نہیں ہوسکتا۔
آخری بات کے طور پر، اگر اربابِ مذہب کا مطالبہ سائنس کو کسی "شرعی حد” کا پابند بنانے کا ہے تو میری عاجزانہ رائے میں مذہبی اور عقلی لحاظ سے اس کا کوئی جواز موجود نہیں اور ہر دو لحاظ ( یعنی مذہبی اور عقلی) سے ایسا کوئی مطالبہ قابلِ اعتراض ہی رہے گا تاوقتیکہ کہ متجسس انسانی اذہان کو عہد وسطیٰ کی مسیحیت سے مشابہ کسی پیرشاہی کے سامنے گھنٹے ٹیکنے پر مجبور نہ کردیا جائے۔ قرآن انسان کو بڑی شدت سے آفاق و انفس میں حق کی تلاش کی تاکید کرتا ہے اور جیسا کہ علامہ اقبال نے اپنے مشہور خطبات کے آغاز میں ہی کہا ہے عالم کی ماہیت، اسکا اثبات یا نیستی، اس سے ہمارا تعلق اور ہمارے رویے ایسے اہم سوالات ہیں جو مذہب، فلسفے اور اعلیٰ شاعری تینوں کا موضوع ہیں۔ سائنس کے پاس تو کبھی کبھی مابعدالطبیعات سے اغماض کرلینے یا اسے بھلا دینے کی گنجائش موجود ہے لیکن مذہب کیلئے انسانی تجربے کو اس کے احوال سے مطابق بنائے بغیر چل پانا ناممکن ہے۔
جدیدیت کی آمد کے بعد سے ایسے سوالات کو سائنس کے حوالے کرنے یا کم ازکم ان پر سائنسی نقطۂ نگاہ سے تبصرے کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ اس لحاظ سے پس جدیدیت کے تناظر میں جہاں سائنس پرستی اور نوالحادی نظریات کی طرف جھکاؤ فکری طور پر بلاجواز ہے وہیں الٰہیاتی وجوہات کی بنا پر علم کی الگ الگ خانوں میں زبردستی کی تقسیم کا بھی کوئی جواز نہیں۔
سائنس کی اپنی مابعدالطبیعاتی بنیادیں ہیں اور تحقیق و جستجو کی اسپرٹ میں موجود عزم کی موجودگی میں اس کیلئے ممکن ہی نہیں کہ یہ حقیقت کی بلند ترجہات سے لاتعلق ہو کر خود کو سختی سے افادی پہلووں تک محدود رکھ سکے۔ ابن رشد، غزالی اور دوسرے مسلم مفکرین ہمیں تحقیق و جستجو کی اسپرٹ اور سائنس و فلسفے کی جانب سے ان دیکھی برتر حقیقت کے وجود پر اپنے ایمان کو درپیش چیلنج کے مقابلے کا عزم سکھاتے ہیں۔
مسلم معاشروں کے لبرل اور قدامت پسند دونوں گروہوں کو عہد وسطیٰ کے قضیوں کے بدعت شناسی پہلووں سے اب جان چھڑا کر ان سوالات کی جدید حالات سے ہم آہنگ تشکیل کرنے کی ضرورت ہے۔