تحسین فراقی کا شاندار ترجمہ daanish.pk
The Barbarism of Specialization۔ Author: Jose Ortega Y Gassett
آرتیگا ۔ ای۔ گاست ترجمہ: تحسین فراقی
میرا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ انیسویں صدی کے تمدن نے خود بہ خود بے چہرہ ازدحامی انسان Mass Man کو جنم دیا ہے۔ بہتر یہ رہے گا کہ کسی خاص صورت حال کے حوالے سے اس تمدن کی پیداوار (بے چہرہ اجتماعی انسان) کی میکانکیت کی عمومی تشریح کے ساتھ ہی ساتھ اس کا تجزیہ بھی پیش کیا جائے۔ اس طرح مقرون اور واضح صورت اختیار کر لینے کے نتیجے میں مرکزی نکتے میں ترغیبی قوت پیدا ہو جاتی ہے۔
انیسویں صدی کی تہذیب کا خلاصہ میرے خیال میں دو بڑے ابعاد کی صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے: روادار جمہوریت اور تکنیکیت۔ آیئے پہلے مئوخرالذکر پر غور کریں۔ جدید تکنیکیت نے سرمایہ داری اور تجربی سائنس کے باہم اختلاط سے جنم لیا ہے لیکن واضح رہے کہ تمام تکنیکیت سائنسی نہیں۔ جس شخص نے شیلین عہد (Chelian) میں پتھر کا کلہاڑا بنایا تھا وہ سائنس سے ناواقف تھا لیکن اس کے باوجود اس نے ایک تکنیک کو ضرور جنم دے ڈالا۔ چین تکنیکیت کے معراج پر پہنچ گیا تھا لیکن اسے اس گمان کا شائبہ تک نہ تھا کہ طبیعات وجود رکھتی ہے۔ جدید یورپی تکنیک کی ایک سائنسی بنیاد ہے اور اسی اساس نے اسے ایک مخصوص مزاج عطا کیا ہے۔ بے حساب ترقی کے امکانات۔ اسکے علاوہ تمام دیگر تکنیکیں مثلاًـ عراقی، مصری، یونانی، رومی اور مشرقی ارتقاء کےا یک نقطے پر پہنچ جاتی ہیں اور اس کے بعد ان کا سانس پھولنے لگتا ہے اور اس نقطے تک پہنچنے کے فوراً بعد ہی ان کا رجعت قہقہری کا افسوس ناک سفر شروع ہو جاتا ہے۔
یہ معجز آثار مغربی تکنیکیت یورپی نسل کی بے پناہ افزائش اور وسعت کا باعث بنی ہے۔ اس نکتے کو ذہن میں لایئے جہاں سے اس مضمون نے نئی جہت اختیار کی تھی اور جو جیسا کہ میں نے کہا، اپنی اصل میں زیر بحث تمام سوچ و بچار کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ چھٹی صدی عیسوی سے اٹھارویں صدی تک یورپ کی آبادی کبھی اٹھارہ کروڑ سے تجاوز نہ کر سکی۔ اٹھارویں صدی سے ۱۹۱۴ تک یہی آبادی چھیالیس کروڑ سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔ ہماری تاریخ میں اتنی بڑی جست کی پہلے کہیں مثال نہیں ملتی۔ اس میں شک وشبے کی کوئی گنجائش نہیں یہ صرف تکنیکیت کا فیضان ہے جس نے روادار جمہوریت سے آمیخت ہو کر مقداری معنوں میں ازدحامی آدمی کو جنم دیا ہے لیکن ان صفحات میں یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی کہ یہی تکنیکیت ازدحامی آدمی کے قابل نفرت اصطلاحی وجود کا موجب بھی بنی ہے!
ازدحام سے جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، خاص طور پر صرف محنت کش ہی مراد نہ لئے جائیں۔ یہ اصطلاح کسی سماجی گروہ کے اظہار کے لئےو ضع نہیں کی گئی بلکہ ایک ایسے انسان کے لئے ڈھالی گئی ہے جو جدید عہد کی تمام معاشرتی جماعتوں میں ملتا ہے اور جو نتیجتاً ہمارے عہد کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہمارا عہد جس پر آج وہ ایک مقتدر قوت کے طور پر چھایا ہوا ہے۔ آیئے اس مفروضے کے لئے اب ہم کافی و شافی شواہد کی تلاش کریں۔
آخر کون ہے وہ جس کے ہاتھ میں آج کل سماجی اقتدار کی عنان ہے؟ کون ہے جو اپنے ذہنی تصرفات و اخترافات کو وقت پر ٹھونستا ہے؟ اسکا جواب بغیر کسی شک وشبے کے یہ ہے کہ یہ متوسط طبقے کا فرد! اب سوال یہ ہے کہ خود متوسط طبقے کے اندر وہ کونسا گروہ ہے جسے برتر گروہ یا عہد موجود کی اشرافیہ کہا جا سکتا ہے؟ بغیر کسی شک و ریب کے اہلِ تکنیک میں انجینئر، ڈاکٹر، سرمایہ کار اور معلم وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ خود اہلِ تکنیک میں سے کون ہے وہ فرد جو اس گروہ کی بہترین اور خالص ترین نمائندگی کرتا ہے؟ اس کا جواب بھی یہی ہےکہ سائنس کا آدمی۔ اگر کسی سیارے کی مخلوق کو آج یورپ کی سیر کا موقع مل جائے اور اس کے متعلق رائے قائم کرنے کے لئے وہ یہ پوچھ بیٹھے کہ افراد کی کونسی ٹائپ کو یورپ اپنی اطمینان بخش نمائندگی کے لئے پیش کرے گا تو لاریب اپنے لئے مفید رائے کے حصول کے لئےیورپ اپنے سائنس کے آدمیوں کی طرف اشارہ کرے گا۔ یقین واثق ہے کہ ہمارایہ سیاروی مہمان فطین اور نابغہ افراد کے متعلق نہیں پوچھے گا بلکہ سائنس کے اس عمومی آدمی کے متعلق استفسار کرے گا جو آج یورپ کی انسانیت کا نقطہء معراج متصور ہوتا ہے۔ گویا اب یہ کھلا کہ یہ نرا کھرا سائنس کا آدمی اصل میں آج کے ازدحامی آدمی ہی کی حقیقی قسم ہے۔ یہ صورت حال کسی اتفاق محض کا نتیجہ نہیں اور نہ ہی یہ سائنس کے کسی مخصوص آدمی کی انفرادی ناکامیوں کے باعث ہے بلکہ یہ سب کچھ سائنس کا کیا دھرا ہے۔ جو ہماری تہذیبِ حاضر کی اساس ہے۔ اور جو خود بخود سائنس کے آدمی کو ایک ازدحامی فرد میں تبدیل کر دیتی ہے۔ عہدِ عتیق کے غیر مہذب فرد میں۔ ایک جدید بربر میں۔ یہ حقیقت بڑی عام ہےاور یہ اپنے آپ کو بار بار دہرا چکی ہے لیکن اسکے باوجود اسکی اصل معنویت اور واضح سنجیدگی بہ تمام و کمال اس وقت اجاگر ہوتی ہے جب اسے اس کےآج کے مرکزی نقطے سے باہم مربوط کیا جائے۔
تجربی سائنس کا آغاز سولھویں صدی کے اختتام کے قریب قریب ہوا (گلیلیو) سترھویں صدی کے آخر میں اسکے حدود واضح طور پر متعین ہو گئے (نیوٹن) اور اٹھارویں صدی کے وسط میں اس کے ارتقا کا آغاز ہوا۔ کسی چیز کی ترقی اور اسکی تشکیل میں فرق ہوتا ہے۔ یہ بات مختلف تاملات کی محتاج ہے۔ چنانچہ طبیعیات کی تشکیل نو نےتو۔۔۔ جو تمام تجربی علوم کا مشترکہ نام ہے۔۔۔ ارتباط و اتفاق کی کوشش کو لازمی قرار دے دیا۔ نیوٹن اور اسکے عہد کے دوسرے لوگوں کی کوششیں اسی ذیل میں آتی ہیں۔ لیکن طبیعیات کی ترقی نے تطبیق و توفیق کے بر عکس ایک نئی جہت دکھائی۔ ترقی کرنے کے لئے اب سائنس نے اختصاص کا مطالبہ کر ڈالا اور یہ تخصیص خود سائنس کے اندر نہیں بلکہ سائنس دانوں کے مابین لازمی قرار پائی۔ سائنس کبھی متخصص نہیں ہوا کرتی۔ اگر ایسا ہوتا تو اس حقیقت کی روشنی میں سائنس باطل ٹہرتی۔ اور تو اور تجربی سائنس بھی اپنی سالمیت اور وحدت کے حوالے سے ریاضیات، منطق اور فلسفے سے الگ ہوکرسراسر باطل ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس سائنسی کام لازماً تخصیص کا مطالبہ کرتا ہے۔
یہ امر اگرچہ پہلی نظر میں شاید اتنا مفید معلوم نہ ہو مگر فی الاصل باعث دلچسپی بھی ہوگا اور مفید بھی کہ طبیعیاتی اور حیاتیاتی علوم کی باقاعدہ تاریخ مرتب کی جائے اور محققین کے بڑھتے ہوئے تخصیصی رجحانات کا جائزہ لیا جائے۔ تب جا کر ہی یہ معلوم ہوگا کہ نسلاً بعد نسل سائنس دان بتدریج ذہنی مشغولیوں کے تنگ سے تنگ دوائر میں محدود ہوتا جارہا ہے۔ لیکن مذکورہ بالا تاریخ کا یہ نکتہ زیادہ اہم نہیں ہوگا بلکہ اس کی معکوس صورت احوال یعنی یہ کہ کس طرح ہر عہد میں سائنس دان اپنے دائرہ کار کو محدود کرتے ہوئے سائنس کی دوسری فروع سے اور کائنات کی اس مہتم بالشان توجہیہ و تعبیر سے جو تنہا سائنس، کلچر اور یورپی تمدن جیسے ناموں کی سزاوار ہے، بتدریج دور ہوتا چلاگیا۔
اختصاص کا آغاز بے کم و کاست اس سے دور ہوتا ہے جس نے مہذب انسان کو ہمہ جہت عالم کا خطاب دیا۔ انیسویں صدی کے سفر کا آغاز ان شخصیتوں کی راہنمائی میں شروع ہوا جنھوں نے علم کی تمام جہات میں زندگی بسر کی، اگرچہ ان کے نتائج کار میں کہیں کہیں تخصیص بھی نظر آتی ہے۔ اگلی نسل کے آتے ہی یہ توازن بگڑ گیا اور اختصاص نے کلچر کو خودبخود مکتفی سائنس دان سے الگ کرنا شروع کیا۔ جب ۱۸۹۰ کے لگ بھگ ایک تیسری نسل یورپ کی فکری قیادت ہاتھ میں لیتی ہے تو ہمارا سابقہ ایک ایسے سائنس دان سے پڑتا ہے جسکی نظیر پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ ایک ایسی شخصیت ہےجو صرف ایک علم ہی سے واقف ہے حالانکہ صاحب الرائے ہونے کے لئے وسیع ذخیرہء علوم میں سے معقول حد تک کا علم بہت ضروری ہے۔ پھر وہ یہ کہ اس علم کے بھی صرف ایک حقیر کونے کھدرے سے شناسائی رکھتا ہے جس کا وہ پُرجوش محقق ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ اس امر کا اعلان بھی اپنی پارسائی طور پر کرتا ہے کہ وہ اپنے نہایت محدود دائرہ کار سے باہر کی کسی چیز کا نوٹس تک نہیں لیتا اور علم کی عمومی تدبیر کاری میں کسی قسم کی دلچسپی دکھانے کو عطائی پن سے تعبیر کرتا ہے۔
اب ہوتا یہ کہ اپنے فکری میدان کے تنگ حدود میں محصور و محدود ہو کر بھی وہ نئے حقائق کی دریافت اور اس علم کو مزید ترقی دینے میں یقیناً کامیاب ہو جاتا ہے جسے وہ جانتا تک نہیں اور ساتھ ہی ساتھ حادثتہً فکر کے اس دائرہ المعارف کو بھی ترقی دینے میں جس سے وہ’’اصولی طو رپر‘‘ بے خبر رہتا ہے۔ یہ باس کس طرح ممکن رہی ہے اور اب بھی ہے؟ اس لیے کہ اس غیر معمولی مگر ناقابل تردید حقیقت پر اصرار کرنا ضروری ہے کہ خیر سے تجربی سائنس کا ارتقا بہت حد تک ایسے افراد کا مرہونِ احسان رہا ہے جو حیران کن حد تک اوسط قابلیت کے حامل تھے اور بعض صورتوں میں تو اوسط سے بھی کم درجہ! مطلب یہ کہ جدید سائنس جو ہمارے تمدن کی اصل و علامت کا حکم رکھتی ہے ذہنی طور پر اوسط قابلیت کے لوگوں کے لئے جگہ نکالتی ہے اور وہاں انھیں کامیابی سے بر سرِ کار رہنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس کا سبب وہ شے ہے جسے میکانکیت سے موسوم کیا جاتا ہے اور جو بیک وقت آج کی جدید سائنس اور اس اس تہذیب کے لیے جس کی رہنمائی اور نمائندگی کی یہ ضامن ہے، بے حد استفادے کا باعث بھی ہے اور شدید ترین خطرے کا بھی! طبیعیات یا حیاتیات کی بیش تر مقدار ایسے ذہنی کام پر مشتمل ہے جو سراسر میکانکی ہےاور جسے کم و بیش ہر کوئی انجام دے سکتا ہے۔ بے شمار تحقیقات کرنے کے لئے سائنس کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں بانٹ دینا اور خود کو ان میں سے کسی ایک میں مامور و محصور کر لینا اور باقی تمام ذہن کو بدر کر دینا کوئی مشکل کام نہیں۔
جدید سائنس جو ہمارے تمدن کی اصل و علامت کا حکم رکھتی ہے. ذہنی طور پر اوسط قابلیت کے لوگوں کے لئے جگہ نکالتی ہےاور وہاں انھیں کامیابی سے بر سرِ کار رہنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
اب طریقہ ہائے کار کی درست روی اور ٹھوس پن علم کی اس عارضی مگر خاصی حقیقی نامیاتی علیحدگی کی اجازت دے دیتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک طریقے کے استعمال سے کام بڑے میکانکی انداز میں مکمل ہوجاتا ہے اور وافر نتائج کے حصول کے لئے ان کے اصول و معانی جاننے کی جانکاہ کوشش اور فکر بھی ضروری نہیں ہوتی۔ جس طرح شہد کی مکھی چھتے کے کسی خلیے میں محصور ہوتی ہے یا کباب بھوننے کی میخوں کو بدلنے والے پہیئے پر مامور چھوٹا سا کتا، اسی طرح ہمارے اکثر سائنس دان اپنے معمل میں محصور و مقید رہ کر سائنس کی عمومی ترقی کا باعث بنتے ہیں!
لیکن اس کے نتیجے میں ایک غیر معمولی طور پر عجیب و غریب فرد جنم لیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک ایسا محقق جس نے فطرت کی ایک نئی جہت کا کھوج لگایا ہو، لازماً قوت و قدرت اوراعتماد ذات کے احساسات کا تجربہ کرتا ہے۔ چنانچہ اپنے آپ سے ایک کھلا اور واضح انصاف کرتے ہوئے وہ خود کو ایک ایسے شخص کے روپ میں دیکھتا ہے جو علیم ہے! حالانکہ امر واقعہ ہے کہ اسکے اندر ایک عظیم شے کا صرف ایک جز موجود ہے جسے بعض ایسے دیگر اجزاء سے مربوط و منضبط کر کے ہی جو ایک شخص کے باطن میں موجود نہیں ہیں، حقیقی علم وجود میں لایا جا سکتا ہے۔ یہ ہے ایک متخصص کی سچی باطنی تصویر جو اس صدی کے پہلے چند سالوں میں مبالغے اور غلو کی انتہائی وحشت تک پہنچ گیا ہے۔ یہ متخصص اپنی کائنات کے ایک نہایت ننھے گوشے سے تو بخوبی واقف ہے لیکن باقی تمام جہات اور ابعاد سے یکسر بے خبر!
یہاں اس جدید عجیب و غریب انسان کی جامع مثال دی جاتی ہے جسے میں نے اس کے دونوں باہم متناقض رویوں کےحوالے سے واضح کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ میں بتا چکا ہوں کہ یہ وہ انسانی پیداوار ہے جسکی تاریخ عالم میں مثال نہیں ملتی۔ اس جدید نسل کی نمائندگی کے لئے ہم متخصص کو ایک جامع اور نہایت مقرون مثال کے طور پر پیش کر سکتے ہیں جس جس سے ہم پر جدت اور جدیدیت کی اساسی نوعیت بھی واضح ہو جاتی ہے۔ یہ اس لیے کہ اس سے پہلے ہم افراد کو آسانی سے علما اور جہلا میں تقسیم کر سکتے تھے۔ جن میں سے کم و بیش کچھ کا ایک گروہ اور کچھ کا دوسرے سے تعلق ہوتا تھا لیکن تمھارے اس متخصص کو ان گروہوں میں سے کسی ایک کے تحت میں نہیں لایا جا سکتا۔ وہ عالم نہیں اس لئے کہ وہ اپنے تخصیصی میدان سے باہر کی ہر چیز سے بے خبر ہے لیکن وہ جاہل بھی نہیں اس لئے کہ وہ ’’سائنس دان‘‘ ہے اور کائنات کے متعلق اپنے نہایت چھوٹے سے حصے کا بخوبی ’’علم‘‘ رکھتا ہے۔ ہمیں یہ کہنا پڑے گاکہ وہ’’عالم جاہل‘‘ ہے۔ اور ایسا ہونا باعث تشویش ہے کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جاہل ہے مگر آدمی کے طرز پر نہیں بلکہ اس شخص کے طرز پر جو اپنے خاص میدان کا عالمِ تنک مایہ ہوتا ہے۔
حقیقت میں ایک متخصص کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ادب، سیاست، سماجی برتاؤ اور دوسرے علوم کی ذیل میں اسکا رویہ ایک قدیم وحشی اور جاہل کا سا ہوگا لیکن وہ انھیں جبراً بخود کفایتی انداز اپنا لے گا۔ اور اگر قول محال کی اجازت دی جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ معاملات اور میدانوں میں کسی دوسرے متخصص کا دخل ہر گز بر داشت نہیں کرے گا۔ تمدن نے اسے متخصص کر کے عہدِ وسطیٰ کے توہمات سے قریب کر دیا ہے اور اسے اپنے تنگ حدود میں خود اطمینانی دے ڈالی ہے لیکن برتری اور قدروقیمت کا یہی باطنی احساس اسے صورت حال کا بھی، یعنی انسان کی بیش تر صلاحیتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے بحوالہ اپنی تخصیص کے جس کا ایک ازدحامی انسان سخت مخالف ہے، نتیجہ یہ نکلے گا کہ زندگی کے تمام میدانوں میں اس کا رویہ ایک ان پڑھ ازدحامی آدمی کا سایہ ہو گا۔
اسے صرف ایک بے پر کی بات پر محمول نہ کیا جائے جو صاحب بھی اس کی تصدیق چاہتے ہیں وہ فکر، رائے اور عمل کی اس حماقت کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں جو آجکل سیاست، فنون، مذہب اور زندگی کے عام مسائل میں اور اہل سائنس اور ان کے اتباع میں ڈاکٹروں، انجینئروں، سرمایہ کاروں، معلموں اور بعض دیگر افراد میں پائی جاتی ہے۔ میں بارہا بیان کر چکا ہوں کہ سُنی اَن سُنی کرنے اور اپیل کی اعلیٰ عدالتوں سے رجوع نہ لانے کا رجحان ازدحامی انسان کی غالب خصوصیات ان جزوی سند یافتہ اصحاب (جن کا ابھی ذکر ہواہے) کے یہاں اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں۔ یہی لوگ عامتہ الناس کی حقیقی مملکت محروسہ کی نمائندگی کرتے ہیں اور بہت حد تک اسکی تشکیل کے ذمہ دار ہیں۔ ان لوگوں کی بربریت یورپ کے اخلاقی انحطاط کی فوری وجہ بنی ہے۔ مزید برآں یہ لوگ اس امر کا بھی واضح اور انکشاف انگیز ثبوت مہیا کرتے ہیں کہ گذشتہ صدی کا تمدن کس طرح اپنے ہی ہاتھوں وحشی پن اور بربریت کے نئےجنم کاباعث بنا ہے۔
اس غیر متوازن اختصاص کا فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج جب کہ پہلے سے کہیں زیادہ سائنس دان موجود ہیں، یہ حقیقت بڑی تلخ ہے کہ ۱۷۵۰ کے زمانے کے مقابلےمیں ’’مہذب انسان‘‘ خال خال ملتے ہیں اور بد ترین واقعہ یہ ہے کہ سائنس کے یہ جزوی اور بے خبر خدمتگار خود سائنس کی حقیقی ترقی کی کوئی ضمانت مہیا نہیں کرتے۔ یہ اس لئے کہ سائنس اپنی ترقی کے لئے وقتاً فوقتاً ایک ضروری ضابطہ کار (ریگولیٹر) کے طور پر تشکیل نو کی کٹھانیوں کا تقاضا کرتی ہے اور جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ کام ارتباط و انضباط کا مطالبہ کرتاہے، جو مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ اس کام میں علم کی دنیا کے وسیع سےوسیع تر ہوتے ہوئے منطقوں کا شمال ضروری ہے۔ نیوٹن اس قابل تھا کہ فلسفے وسیع علم نہ رکھنے کے باوجود طبیعات کے ایک نظام کار (system) کی بنیاد رکھ سکے لیکن آئن سٹائن کے لئے از بس لازمی تھا کہ اپنے متوازن امتزاج تک پہنچنے سے پہلے کانٹ اور ماخ (Mach) کی فتوحات علمی کا بالا ستیعاب مطالعہ کرے۔
کانٹ اور ماخ، یہ نام تو اس عظیم فلسفیانہ اور نفسیاتی فکر کی دو علامتیں ہیں جنھوں نے آئن سٹائن پر خاصا اثر ڈالا۔ اس کے ذہن کو آزادی سے ہمکنار کیا اور اسکی ایجاد و ابداع کے لئے راستہ نکالا لیکن صرف آئن سٹائن ہی کافی نہیں۔ طبیعات اپنی تاریخ کے نہایت نازک دور میں داخل ہو رہی ہے جسے بچانے کے لئے کہیں زیادہ منظم’’جدید تبحرِ علمی‘‘ کی ضرورت ہے۔
پس اختصاص جس نے ایک صدی کے دوران تجربی سائنس کو ممکن بنایا ہے، اب ایک ایسے رخ پر پہنچ رہا ہے جہاں یہ اس وقت تک مزید پیش قدمی نہیں کر سکتا جب تک کہ ایک نئی نسل اس کے لئے زیادہ قوی اور مؤثر خدمتگار مہیا کرنے کی ضمانت نہ دے دے۔
لیکن اگر متخصص اپنی مخصوص سائنس کے باطنی فلسفے سے آگاہ نہیں تو وہ اس کے تسلسل لے لئے مطلوب تاریخی شرائط سے اس سے بھی زیادہ غافل ہوگا یعنی اسے علم نہ ہوگا کہ کس طرح معاشرے اور قلب انسانی کو باہم منظم کیا جائے کہ محققین کا تسلسل قائم رہ سکے۔
گذشتہ چند سالوں سے سائنس کے میدانوں میں محسوس کی جانے والی کمی، جس کا میں نے پہلے کہیں حوالہ دیا ہے، اس شخص کے لئے پریشان کن علامت ہے جسے صاف طور پر معلوم ہوکہ تمدن کیا ہوتا ہے اور جس کے واضح خدوخال سے ہمارا زیر بحث سائنس دان عموماً ناواقف رہتا ہے حالانکہ یہ سائنس دان ہمارے موجودہ تمدن کا نقطئہ معراج ہے۔ یہ اس بات کا بھی یقین کر بیٹھا ہے کہ تمدن بھی اس طرح وجود رکھتا ہے جس طرح قشر ِارض یا پھر جنگل کا قدیم غیر مہذب باسی!