انوکھا لاڈلا: دستوفسکی کے ناول روپوش آدمی سے – عزیز ابن الحسن
(آج کا ”مہذب انسان”۔۔ دوستوئفسکی اور ڈی ایچ لارنس کے حوالے سے)
یہ تحریر دوستوئفسکی کے ایک ناولٹ روپوش آدمی کی یاداشتیں کے حصہ اول باب ہفتم کی ایک صورت ہے۔ میں اسے ترجمہ قصداً نہیں کہہ رہا کہ کسی حرف پر انگشت نہ رکھی جائے ۔ اس ناولٹ میں دوستوئفسکی کے بعد کے جہان کی جھلکیاں تو ہیں ہی، مگر اس کی امتیازی خصوصیت کا سراغ فلسفہء وجودیت والوں نے لگایا ہے۔ (۱) لیکن فی الحال اس مسئلے سے بحث نہیں۔ راقم نے اس باب کو ایک اور پس منظر میں دیکھا ہے؛ انسان: کہ تہذیب و اخلاق جسکا کچھ نہ بگاڑسکے۔ جدید انسان ،مہذب انسان، امریکی انسان ۔ جو ۲۱ صدی میں اپنی امتیازی خصوصیت ۔۔۔ جو چاہوں سو کروں۔۔۔ کی بنا پر سب سے نمایاں ہے، جو کھیلن کو مانگے چاند۔!!
یہ محض سنہرے سپنے ہیں۔ معلوم نہیں وہ کون سادہ لوح تھا جس نے پہلے پہل یہ کہاکہ انسان شر کی طرف صرف اس لیے مائل ہوتاہے کہ اسے اپنے مفادات کی تمیز نہیں ہوتی، اور یہ کہ اگر اسے روشن فکر بنا دیا جائے یا اس کے سامنے اگر اس کے حقیقی مفادات عیاں کر دیے جائیں تویہ شر کی طرف لپکنا چھوڑ کر ایک دم اچھا انسان بن جائے گا۔ کیونکہ روشن فکری آجانے اور اپنے حقیقی مفادات کو جان لینے کے بعد انسان صرف اچھائی ہی میں عافیت جانے گا۔ ۔۔۔۔ واہ رے بھولے، معصوم بالک! خوب ہے تیرا نظریہ۔

عزیز ابن الحسن
کیوں؟ کیا ان گزرے ہزاروں برسوںکے دوران انسان نے صرف اپنے مفادات ہی کے لیے سب کیا ہے؟ ان ہزاروں لاکھوں شہادتوں کا کیا کریں جو یہ دکھاتی ہیں کہ انسان نے اکثر ارادتاً، جانتے بوجھتے ہوے اور اپنے مفادات کے پورے شعور کے ساتھ انہیں پس پشت ڈالا، اور ایک اور ہی راستے پر چلا، ان جانے جو کھم والے راستے پر، جس پر اسے کسی نے باندھ کر نہیں ڈالا تھا۔ کیوں؟ محض پٹے ہو ئے راستوں کو چھوڑنے کی خاطر، اس نے ارادتاً ایک مشکل، اور مہمل ڈگر اختیار کی ہے۔ یہ اکثر ظلمت ہی کی راہ چلا ہے۔ کیا اس سے یہ نہیں ظاہر ہوتا کہ ان کٹھن راستوں کا ارادی انتخاب اس کے لیے ہر مفاد سے زیادہ پر کشش ہے؟
مفاد! بے شک، لیکن آخر یہ مفاد ہے کیا شے؟ اے بھلے لوگو! کیا تم انسان کے مفاد کی ایک درست اور صحیح ترین تعریف وضع کرنے کی ذمہ داری قبول کرو گے؟ اور اس وقت کیا ہوگا جب کوئی انسان اپنا مفا د نہ صرف خیر میں نہیں بلکہ صریحا ً شر میں تلاش کرتا ہے!! اگر ایسا ہے تو پھر’سب کچھ مفا د کے مطا بق کرنے‘ کا عظیم الشان اصول خاک میں ملا سمجھو۔ مسکرا کر بات نہ ٹالو، جواب دو۔ کیا انسا نی مفادات کی کبھی کوئی مکمل فہرست بنائی جاسکی یا سکتی ہے؟ کیا کچھ مفادات ہمیشہ اس فہرست سازی اور جماعت بندی سے باہر نہیں رہ جائیں گے؟ سیاسی سماجی فارمولوں اور شماریاتی اوسط سے بنائے گئے انسانی مفادات کے سارے دفتر اٹھا کے دیکھ لو۔ تمہارے حسابوں انسانی مفاد مشتمل ہے صرف خوشحالی، دولت، آزادی اور امن و سکون وغیرہ وغیرہ پر۔ اور جو آدمی اس فہرستِ مفادات سے کھلے بندوں اور جانتے بوجھتے ہوئے اختلاف کرے وہ تمھارے تردیک (اور میرے نز دیک بھی) پاگل اور غیر روشن خیال ہوگا۔ ہوگا ناں؟ لیکن حیرت کی بات یہ ہے، اور ایسا کیوں ہے، کہ یہ تمام ماہرین اعداد و شمار، یہ علم وعقل والے، یہ انسانیت کے عاشق، ایک ــ’’ خاص مفاد‘‘ کو ہمیشہ نظر انداز کئے رہتے ہیں۔ یہ خاص مفاد کبھی کسی فہرست سازی میں اس طرح داخل نہیں ہو پاتا جیسا کہ ہونا چاہیے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ کسی زمرے، مد، یا درجہ بندی میں اس مفاد کی چولیں صحیح نہیں بیٹھتیں۔ اس کا کوئی عنوان، کوئی اچھا سا نام نہیں بنتا۔
میرا ایک دوست ہے۔۔۔ ایسا ایک دوست تمھارا بھی ہے، اور سب کا ہو تا ہے۔۔۔ تو یہ دوست جب کوئی کام کرنے لگتا ہے تو یہ بڑی وضاحت اور تفصیل سے آپ کو بتائے گا کہ یہ سب کچھ کس طرح قانونِ عقل کے عین مطابق ہے۔ مزید یہ کہ وہ بڑے جوش وجذبے سے آپ کو انسان کے نارمل مفادات کی نوعیت بھی بتائے گا؛ اور اُن لوگوں کی ناسمجھی اور کوتاہ اندیشی کے ذکر پر اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ بھی ہوگی جو خود اپنا مفاد بھی نہیں جانتے یا نیکی و خیر کے صحیح مفہوم سے بہرۂ وافر نہیں رکھتے۔ لیکن پھر اچانک بغیر کسی ظاہری وجہ کے، محض اندر کی کسی شے کے کہنے میں آکر، جو اس کے ہر مفاد سے زیادہ زور دار ہوگی، خود اپنے کہے کی، قانونِ عقل کی، غرض کہ ہر شے کی مخالف راہ پر چل پڑے گا۔۔۔ میں تمہیں تنبیہ کرتا ہوںکہ میرا یہ دوست جو ایک مرکب شخصیت ہے، ایک ٹائپ ہے۔ لہٰذا بطور فرد اسکوموردِ الزام ٹھہرانا مشکل ہے۔
کیا یہ وہی شے نہیں جو انسان کے لئے اس کے تمام مفادات سے زیادہ عزیز ہے؟ یا، منطقی ربط سے تجاوز نہ کرتے ہوے میں کہتا ہوں کہ، کیا کوئی ایسا عظیم مفادوں کا مفاد نہیں ہو سکتا جو دوسرے تمام مفادات سے زیادہ جاذب اور زیادہ پر کشش ہو، جس کے لئے انسان ہر قانون سے بھڑ جائے، جس کے لئے وہ عقل عامہ، وقار، خوش حالی امن و سکون اور مختصر یہ کہ، اس ابتدائی ازلی مفاد کی خاطر، کرہ ارض پر ملنے والی ہر شے سے دستبرادار ہونے کو تیار ہو جائے؟ لیکن اے شریف لوگو! یہ لفاظی کی بات نہیں۔ میں ایک انتہائی قابل توجہ مفاد کا ذکر کر رہا ہوں جو ہر طرح کی درجہ بندی سے ماوراہے۔ یہ ہر اس سسٹم کو توڑ پھوڑ دیتا ہے جو انسا نیت کے عاشقوں نے اس نسل کی بہتری کے لیے بنایا ہے۔ یہ مفاد ہر شے کے اندر ایک عمومی کنفیوژن پیدا کیے رکھتا ہے۔ اس مفاد کو بیان کرنے سے پہلے میں عرض کر تا ہوں کہ انسانیت کو اس کے سچے اور صحیح مفادات سمجھانے والے یہ تمام اعلیٰ نظام اور منصوبے بیش از بیش جدلیاتی ہیں، جی ہاں، جدلیاتی!۔۔ جن کا مقصد یہ بتانا ہے کہ تہذیب کی ترقی کے ساتھ انسان میں نرم خوئی آجاتی ہے۔ اسکی خون ریزی کی عادت کم ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ سب منطقی مشقیں ہیں، وہی جدلیت۔ حضرت ــــ انسان نظاموں اور مجرد استخراجات کا اس قدر دلداد ہ واقع ہوا ہے کہ محض اپنی منطق کو جواز دینے کی خاطر یہ جان بوجھ کر سچ کو جھٹلاتا اور اپنے حواس کی گواہی کو رد کرتا رہتا ہے۔ ذرا اپنے اردگرد دنیا میں نظردوڑاو۔ تمھیں ہر طرف خون کی ندیاں بہتی نظر آئیں گی، گویا محفل میں شراب بہہ رہی ہے۔ یہ ا نیسویں صدی ہی کو دیکھو، ذرا اس نپولین کو دیکھو، جدید نپولین اعظم! ذرا شمالی امریکہ کو دیکھو، اسکی پائیدار یونین کے ساتھ!
تہذ یب نے ہمارے سینوں میں آخر کون سی شائستگی کو جنم دیا ہے؟ انسا نیت کو تہذ یب نے جو واحد شے عطا کی ہے وہ متنوع ارتساما ت اور سنسنی خیزی کی وسیع گنجائش ہے۔ اس کے علاوہ تہذیب نے اور کچھ نہیں دیا۔ اس گنجا ئش نے آ گے چل کر انسان کو خو ن خرابے میں لذت کوشی کا عادی بنایا ہے۔ تم نے د یکھا ہو گا کہ دنیا میں غارت گری کا بازار گرم کرنے والے اکثر بہت ’’مہذ ب‘‘ لوگ تھے۔ اتنے مہذب کہ روم پر حملہ کرنے والے ہنوں کے سردار اٹیلا اور کیتھرائین عظمیٰ کے باغی استینکارازین (Stenka Razins) جیسے وحشی ان کے جوتوں کے تسمے کھولنے کے قابل بھی نھیں تھے۔ بس فرق یہ ہے کہ ا ٹیلا جیسے لوگ بدنام زیادہ ہو گئے ہیں۔ تو میں کہ رہا تھا کہ تہذیب نے انسان کو پہلے سے زیادہ قتل و غارت کا عادی ہی نہیں بلکہ نفرت انگیز طور پر خون کا پیاسا بنا دیا ہے۔ اگلے زمانے میں انسان خون ریزی کو انصاف کے حصول کیلئے ضروری خیال کرتا تھا اور فسادیوں کو کیفرکردار تک پہچا کر مطمئن ضمیر کے ساتھ سوتا تھا۔ لیکن آج کا مہذب انسان تو خون ریزی کو گھناؤنا جرم سمجھتا ہے، مگر پہلے سے زیادہ شدومد کے ساتھ اس جرم میں شریک رہتا ہے۔ اب زیا دہ براکون ہوا، تم ہی بتاو؟

Dostoevsky
کہا جاتا ہے کہ قلوپطرہ اپنی لونڈیوں کے نوخیز سینوں میں سوئیاں چبھو کران کی چیخوں سے لذ ت اندوز ہوا کرتی تھی۔ ممکن ہے، تم کہو کہ وہ تو بربریت کا دور تھا۔ لیکن اگرغور کرو تو آج بھی بربریت ہی کا دور دورہ ہے۔ لوگوں کے سینوں میں سوئیاں آج بھی چبھوئی جارہی ہیں۔ تمھارا خیال تھا کہ انسان جب چند پرانی بری عادات سے چھٹکا را پالے گا اور سائنس اور فکر کو طبع سلیم کے مطابق عمل پزیر ہونے کا موقع دے گا تو یہ ضرور سمجھدار ہو جائے گا، تمھارا کہنا ہے کہ تب انسا ن ”نیت” ــــ کی خرابیوں پر قابو پالے گا اور ارادے کو اپنے نارمل مفادات کے خلا ف نہیں ہونے دے گا۔ یہی نہیں بلکہ تمہارا یہ بھی مان ہے کہ سائنس انسان کو یہ بھی باور کرا دے گی کہ اسکے اندر اپنے ارادے یا ”نیت” نام کی کوئی شے نہیں۔ انسان تو کسی پیانو کی گھُنڈی یا ساز کے مضراب کی طرح ہے اور پھر قوانین فطرت کا بھی ایک کردار ہے جو کسی ہونی کو متعین کرتے ہیں۔ انسانی ارادے سے کچھ نہیں ہوتا، بلکہ فطرت اپنی راہ خود بناتی ہے۔ سب کچھ ان قوانین کے مطابق ہوتا ہے۔ تب انسان کو اپنے کئے کی جواب دہی نہیں کرنی ہوگی۔ اس پر صرف ان قوانین کو واضح کردینا کافی ہوگا۔ تب انسان کے اندر سے ارادے ولہٰذا سرسے ذمہ داری کا بوجھ اتر جائے گا۔ پھرزندگی بہت سہانی اورسکھی ہوجائے گی۔ تمھارا کہنا ہے ( اور میں اسے عیاشی سمجھتا ہوں!) کہ تب تمام انسا نی اعما ل قوانین فطرت کے مطابق ڈھل جائیں گے۔ لوگرتھم کے درجوں کی طرح ان کی بھی جدولیں نکال لی جا ئیں گی، بلکہ ان جدولوں کے بڑی احتیاط سے کیلنڈر بنالئے جائیں گے جن کے، جدید انسائکلو پیڈیاز کی طرح کے، نئے نئے ایڈیشن چھپا کریں گے، جو ہرصورت حال کی بڑی وضاحت سے پیش بینی کرسکیں گے۔ یہاں تک کہ دنیا ہرقسم کے ظلم و تعد ی، حوادث اور طالع آ زمائی کو بھول جائے گی، تب نئے سماجی رشتے وجود میں آئیں گے (یہ بھی تمھارا خیال ہے!)، سب کے سب ریڈی میڈ اور ریاضیاتی صحت کے ساتھ منصوبہ بند قسم کے تمام سوالات ایک جھماکے سے حل ہوا کریں گے، کیونکہ گھڑے گھڑائے جوابات زنبیل میں رکھے ہوئے ہونگے۔ پھر داستا نوں کا سنہرا محل تعمیر ہو جائے گا۔ تب، جی ہاں تب، نئی ہزاری ( میلنیم) کا آغاز ہوگا!!
اس شے کی البتہ (اب یہ میرا تبصر ہ ہے) کوئی ضما نت نہیں کہ اس وقت معاملات انتہا ئی اکتا دینے والے نہیں ہو جائیں گے کیونکہ جب ہر بات پہلے سے ہی متعین ہوچکی ہوگی تو ہم انسا نوں کے پاس تو کرنے کا کچھ رہے گا نہیں۔ سب کچھ انتہا ئی عقلی انداز میں ہوا کرے گا۔ مگر یہ بو ریت، یہ ا کتا ہٹ؟؟ یہی وہ شے ہے جو انسان سے بہت کچھ کرواتی ہے۔ یہ اکتا ہٹ ہی ہے جو انسا نوں کو لوگوں کے سینوں میں سنہری سوئیاں چبھونے پر اکسایا کرتی ہے۔ مگر یہ کوئی بری بات نہیں، بلکہ اس وقت لوگ سنہری سوئیوں کے ممنون ہوں گے کہ ان کے پاس کر نے کو کچھ تو ہے۔ ہا ں! انسا ن وحشی ہے، چوپایہ ہے بلکہ اس سے بھی بدتر۔ با ت یہ ہے کہ یہ نا شکرا ہے۔ اتنا ناشکرا کہ کا ئنات کی اور کوئی مخلوق اس صفت میں اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتی۔ مجھے ذرا حیرت نہیں ہوگی اگر اس خوشحالی اور طے شدہ مستقبل کے سہانے خوابوں کے پیچ سے کسی روز اچانک کوئی رذیل، باغی اور کلبی مزاج سرپھرا نکلے اور کولہوں پر ہا تھ رکھ کے پوچھے :
’’حضرات کیا خیال ہے؟ ان سارے تماشوں اورعقلی گدوں کو اٹھا کر اگر ہم با ہر گلی میں پھینک دیں، ان ریاضیا تی جدولوں کو شیطان کے سپرد کردیں اور ایک دفعہ پھر اپنے اس پیارے احمق ادارے کے سہارے زندگی گزارنے لگیں تو کیسا رہے گا‘‘؟
اگر ایسا ہوا تو یہ کوئی اچنبھے کی با ت نہیں ہوگی، بلکہ مزے کی با ت تو یہ ہوگی کہ اس من چلے کو چند دیوانے پیروکار بھی مل جائیں گے۔ تو یہ ہے انسان کا مزاج۔
’’امریکیوں کا عمدی شعور، بہت سہانا اور نرم گفتار مگر تحت شعور ابلیسی ہے۔ تباہ کرو! تباہ کرو! تباہ کرو! تحت شعور گنگناتا ہے۔ پیار کرو اور پیش کرو! پیار کرو اور پیش کرو! بالائی شعور قہقہہ لگاتا ہے۔ اور دنیا صرف پیار کرو اور پیش کرو سنتی ہے، تباہی کی گنگنا ہٹ سننے سے انکارکرتی ہے۔ یہاں تک کہ پھر اسے سننا ہی پڑتا ہے‘‘۔
کبھی سوچا ہے اس کا سبب کیا ہے؟ صرف ایک سبب ہے، اتنا معمولی اور حُمق بھرا کہ اس کا ذکر کرنا بھی عموما پسند نہیں کیا جا تا۔ وہ یہ کہ انسان جو بھی ہو، جہاں بھی ہو، اور جس زمانے کا بھی ہو، ہمیشہ وہ کچھ کرتا ہے جو وہ کرنا چاہے، نہ کہ وہ جو عقل اور اسکے مفاد کا تقا ضہ ہے۔ یہ ہے وہ تمام مفادوں کا مفاد جو کسی درجہ بندی، کسی فہرست سازی اور کسی دفتر میں جگہ نہیں پا تا۔ ا نتخا ب، اختیار، بے محابا اختیار! ہرنظریہ اور ہر منصوبہ اسکے آگے دھواں ہے۔ انسا ن بس ایک آزاد، خودمختاراورغیر پابند مرضی چاہتا ہے۔ یہی اس کا اصول عمل ہے یہی امتیاز۔ جو میاں کی مرضی!۔۔۔ انو کھا لاڈ لا کھیلن کو ما نگے چا ند!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے پہلے پہل جب روپوش آدمی کی یادداشتیں پڑھا تو اُس وقت انوکھا لاڈلا۔۔۔ تمام تمدنوں اور تہذیبوں سے زیادہ مہذب اور تمام علوم و فنون کا پروردہ۔۔۔۔ امریکی انسان، سائنس اور ٹیکنالوجی کی بر کات کو لئے افغا نستان کے عوام کو آزاد کرانے اور دنیا کو ’’د ہشت گردی‘‘ سے محفوظ کرنے کے لئے ہمارا ہمسایہ بن رہا تھا۔ کاسترو یا کسی ایسے ہی ستم ظریف کا قو ل ہے کہ ’’امریکہ ہر کمزور ملک کا پڑوسی ہے‘‘، جو ہمارے محاورے ’’غر یب کی جورو سب کی بھابھی‘‘ کی ایک جدید اور سیاسی صورت ہے۔ پھر اس نے عربوں کا گھر جنوائی بننے کی ٹھان لی۔ آغاز عراق سے تھا۔
گفتم کہ ابتدا کنم از بوسہ، گفت ’’ نے‘‘
ساری دنیا نہ نہ کہتی رہی مگر طاقت نے چاند کے عقرب سے نکلنے کا انتظار نہ کیا اور یوں بوسئہ مرگ (Kiss of Death) کا آغاز ہوگیا۔
ریت پر چڑھ رہی ہے ریت کی تہہ
بابل و مصر و نینوا تو نہیں
لارنس نے اپنی بے مثل کتا ب کلا سیکی ا مر یکی ا دب کے مطا لعا ت پر اک آدھ صفحے کا دیباچہ بھی اتنا ہی بصیر ت آمیز لکھا ہے۔ اس میں سے چند ملاحظات پیش ہیں۔ یاد رہے یہ با تیں لارنس ۱۹۲۰ میں لکھ رہا تھا:
’’ر یا ست ہا ئے متحدہ کی لن ترا نیا ں سنو :۔۔۔۔ و قت آگیا ہے، امریکی اب امریکی ہوں گے۔ یو ایس اے پرفنکارانہ جوانی آگئی ہے۔ اب ہمیں یورپ کا حاشیہ بردار بن کر نہیں رہنا، اب ہمیں اسکول کے اچھے بچے بن کر بھی نہیں رہنا؛ آو یورپ کے اسکول ماسٹروں سے اپنا پلا چھڑالو‘‘۔ (۳)
’’سچے امریکی کہلانے والےاس نئے پر ندے ‘‘، ’’جدید عہد کے بونے ‘‘ اور ’’ آنے والے دور کی گم شدہ کڑی ‘‘ کوامریکی جھاڑیوں (”Bushes”) میں تلاش کرتے ہوئے لارنس کہتا ہے:
’’خدا ہی جانتا ہے کہ حقیقت سے ہماری مراد کیا ہے۔ ٹیلی فون، ڈبہ بندگوشت، چارلی چپلن، پانی کی ٹونٹیاں اور نجات عالم، شاید؟ بعضے نل سازی پر زور دیتے ہیں اور بعض دنیا کو نجات دلانے پر۔ یہ ہیں دو بڑے امریکی اختصاصات‘‘!(۴)
مگر اے بونے! پہلے پیدا تو ہو لو۔ اس کے لئے لارنس دایہ کا کردار ادا کرنے کو بھی تیار تھا۔ اس نے یہ تنبیہ بھی کر دی تھی کہ دنیا کو اس بونے سے پھر ڈرنا پڑے گا۔
واقعی، افغانستان اور پھر عراق میں امریکہ نے افغانیوں اور عربوں کی نجات ہی کے لئے تو سب کچھ کیا ہے۔ بادشاہوں اور تیل کے کنوئوں سے نجات۔ پھر اس کوشش نجات سے جنم لینے والے لاکھوں نیم مردہ انسانوں کے لئے وہ خوراک، رہائش کے خیمے، اسپتال اور پینے کے لئے پانی کی ٹونٹیاں بھی لگاتا ہے۔ یہی تو ہے نل سازی اور نجات عالم کا نیو ورلڈ آرڈر!! اس سے ڈرنا ہی بہتر ہے۔
’’یہ جفائے غم کاچارا وہ نجات دل کا عالم
نہ ہوا کہ مر مٹیں ہم نہ ہوا کہ جی اٹھیں ہم‘‘ (۵)
دیباچے کے آخری پیرے میں لارنس نے امریکی اور روسی ادیبوں کے فنی پیرائیہ اظہار کا تقابل کرتے ہوئے امریکیوں کے عمومی مزاج کی قلعی بھی کھو ل دی ہے:
’’انتہائی روسیوں اور انتہائی امریکیوں میں اہم ترین فرق یہ ہے کہ روسی دوٹوک بات کرتے ہیں، سخن طرازی اور علامت کا روگ نہیں پالتے۔ وہ اسے چال بازی اور بہانہ سازی گردانتے ہیں۔ اس کے بر عکس امریکی ہر واضح شے کو چھپاتے ہیں اور ہمیشہ بات پر دہرے مفہوم کا پردہ ڈالے رکھتے ہیں۔ پہلوتہی اور سخن سازی کی آڑ میں کھل کھیلتے ہیں۔ ‘‘(۶)
ہاتھورن کے ناول حرفِ سرخ۔۔ جسے اس نے ’’جہنمی معنویت کی ارضی کہانی‘‘ قرار دیا۔۔ کے مطالعے میں لارنس کہتا ہے کہ امریکی فن اور فنی شعور میں ایک دراڑ ہے۔ لازم ہے کہ آپ امریکی فن کی ظاہری سطح سے آگے دیکھیں تاکہ آپ کو اس کی علامتی معنویت کی باطنی ابلیسیت نظر آجائے۔ اگر یہی نہ کیا تو باقی سب بچپنا ہے، کیونکہ:
’’امریکیوں کا عمدی شعور، بہت سہانا اور نرم گفتار مگر تحت شعور ابلیسی ہے۔ تباہ کرو! تباہ کرو! تباہ کرو! تحت شعور گنگناتا ہے۔ پیار کرو اور پیش کرو! پیار کرو اور پیش کرو! بالائی شعور قہقہہ لگاتا ہے۔ اور دنیا صرف پیار کرو اور پیش کرو سنتی ہے، تباہی کی گنگنا ہٹ سننے سے انکارکرتی ہے۔ یہاں تک کہ پھر اسے سننا ہی پڑتا ہے‘‘۔(۷)
لارنس نے تواپنی تنقیدی کارگزاری کی معجز آفرینی کی بدولت امریکہ کے سیاسی مزاج کا سراغ بھی کلاسیکی امریکی ا دب کے مطالعے میں پا لیا تھا، مگر ہم سب کچھ دیکھتے بھوگتے ہوئے بھی تباہ کرو!تباہ کرو! تباہ کرو! کے نقارے نہیں سن رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد حسن عسکری باتوں کی پھلجھڑیاں خوب چھوڑا کرتے تھے، اسی لئے بعض اساتذ ہ ادب کو بھی ان کی تنقید محض جملے بازی نظر آ تی ہے۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ادب کسی شے کے ممکنا ت کی طر ف سو سال پہلے اشارے کر دیتا ہے۔(۸) اس جملے کی تفسیر لارنس کی مذکورہ کتاب بھی خاصی فراہم کر دیتی ہے۔ عسکری صاحب سوویت روس اور ترقی پسندوں کی مخالفت کے لئے بہت بدنام تھے مگر انہوں اپنی اس مخالفت کے باوجود امریکی سیاست گردی اور نظریہ با زی کی طرف کبھی کوئی جھکاو نہیں دکھایا، بلکہ گاہے گاہے امریکی زرپرستی اور تنقید بازی کے پول کھولتے رہے۔ انہوں نے بڑے تواتر کے ساتھ اس طرف اشارے کئے ہیں اورکہا کہ امر یکہ ایشیا اور افریقہ کے قدرتی ذخائر اور تجارتی منڈیوں پر قبضے کے ذریعے سب سے بڑا استعمار بننے والا ہے۔ ان کی ۵۰ کے عشرے میں لکھی گئی بعض تحریوں کو آج بھی پڑھا جائے تو اتنی ہی بروقت محسوس ہوتی ہیں، بلکہ مسلم ممالک کے بارے میں امریکہ کی آئندہ پالیسیوں کی حیرت انگیز پیش بینی کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کے ایک مضمون ’’ ۱۹۵۷ء کا غدر‘‘ کے یہ الفاظ دیکھئے جس میں ۱۸۵۷ء کے سانحے کا تقابل ۱۹۵۷ء میں مسلمان ممالک کی صورتحال سے کیا گیا ہے :
’’ امریکہ والوں کی خوشحالی کا انحصار اس بات ہر ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے قدرتی ذخائر اور تجارتی منڈیاں ان کے قبضے میں ہوں۔ ( یہ میں) آئزن ہاور کی تقریر کا ترجمہ کر رہا ہوں۔ ابھی جنوری ہی میں آئزن ہاور نے۔۔ ۔کہا ہے کہ امریکہ کی خوشحالی کا انحصار دوسرے ملکوں کو مالی امداد دینے پرہے۔۔۔ امریکہ کا معاشی نظام اس منزل پر آ پہنچا ہے کہ یا تو پھیلے اور بڑھے یا پھر اندرونی زور سے پھٹ کر برباد ہوجائے۔ چنانچہ امریکی طرز زندگی کی منطق نے امریکہ کو استعماری طاقت بننے پر مجبور کر دیا ہے۔ اردن کے ہنگاموں نے تو بات با لکل ہی صاف کردی۔ بیروت میں اپنی فوجیں بھیج کر امریکہ نے ثابت کردیا کہ وہ ہر ملک سے اپنی بات ہایڈروجن بم کے زور سے منوائے گا اور کسی ملک کو یہ اجازت نہیں دے گا کہ وہ خودار انسانوں کی طرح اپنی زندگی کی تشکیل اپنی مرضی سے کرسکے۔۔۔‘‘
آخر میں امریکی امداد اور لائف اسٹایل کا ذکر کرکے کہتے ہیں کہ ’’لیکن اگر’معیار زندگی‘ کا جادو ہم پر اس حد تک چل چکا ہے کہ ہم کوکا کولا پینے کے لئے مشرق وسطٰی کا مستقبل تک بیچ سکتے ہیں تو پھر تاریخ کی اٹل منطق سے کسی رعایت کی امید رکھنی فضول ہے ــ‘‘۔(۹) ا یک مضمون میں عسکری نے امریکہ میں فرائڈ کی تحلیل نفسی کے طریق کار کی مخالفت کا جائزہ لیتے ہوے لکھا ہے کہ امریکی اعصابی بے چینی اور ذہنی بیماریوں کا علاج خود آگاہی اور تحلیل نفسی کی بجائے سکون آور ادویات کے ذریعے کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ آ گے عسکری کی جملے بازی :’’یہ دوا کھانے سے مرغیاں بھی ا تنی بردبار ہو جاتی ہیں کہ ڈربے میں پانچ کے بجائے دس بھر دی جا ئیں تو چو ں بھی نہیں کر تیں۔ چنانچہ یہ دوائیں انسا نوں کو بھی بردبار بنا سکتی ہیں۔ ’’لا ئف‘‘ کے ایک مضمون نگار نے تو یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے لوگ بہت گڑبڑ کرتے ہیں۔ یہ دوائیں وہاں کے کھیتوں میں چھڑکی جائے‘‘۔(۱۰) لگتا ہے کہ اس تجویز پر’’مہذب انسان‘‘ نے یقینا عمل کیا ہوگا؛ جبھی توصدام حسین کے بڑے پیما نے پر تباہی پھیلانے والے آلات اور کیمیائی ہتھیاروں سے امن عالم کی حفاظت کی خاطر انکل سام عراق کو کھود ڈالتا ہے، اسرائیل کے ذریعے فلسطینیوں کو اپنے گھر میں پناہ گیر بنا دیتا ہے، ہمارے حکمرانوں کو بندے بیچنے پر مجبور کردیتا ہے، حقوق نسواں کے نعروں کے ساتھ لال مسجد کو لال تر کردیتا ہے، اور ہماری آبادیوں پر ہماری ہی سرزمین سے ڈرون حملے کرکے اس ’’سمبلزم‘‘ کی تشریح بھی ہمارے ذمے لگا دیتا ہے۔ اور جواباً ہماری قومی اسمبلی سمیت سارا عالم اسلام مذمتی قراردادیں پاس کر کے یہ حق خوب ادا کیا کرتا ہے! آہ بردبار مرغیاں!
(۱) دوستو ئفسکی اور وجودیت کے لیے دیکھے Kaufmann, Walter, Existentialism- from Dostoevsky to Sartre, Meridian Books, N.Y., 1957
(۲) اس سے یہ مراد نہیں کہ لارنس نے یہ باتیں دوستو ئفسکی کے اس ناولٹ کے بارے میں لکھی ہیں۔ لارنس نے دوستو ئفسکی اور خاص طور پر اس کے ناول کرامازوف برادران کے معروف کردار ’’محتسبِــ اعظم‘‘ پر ایک کڑی تنقید لکھی ہے جو کلاسیکی شاہکار ہو نے کے باو جود کچھ ناانصافی پر مبنی ہے۔ وہ محتسبِ ــ اعظم کو ایک’’ کلبیت زدہ شیطنت‘‘ بھی کہتا ہے اور مسیح پر ناقابلِ جواب تنقید بھی۔ دیکھیے “The Grand Inquistor” in Lawrence, D.H., Selected Literary Criticism, ed., Anthony Beal, London, Mercury Books, 1961.
لارنس دوستو ئفسکی کو عموماً پسند نہیں کرتا۔ رو پوش آ دمی کی یا دا شتیں پرلارنس کے حوالے سے یہ تبصرہ میرا اپنا اطلاق ہے۔
(۳) Lawrence, D.H., Studies in Classic American Literature, London, Penguin Books, 1971, p3.
(۴) Lawrence, D.H., Studies in Classic American Literature, London, Penguin Books, 1971, p4.
(۵) فیض کی غزل کے دو مختلف مصرعے ضرورتاً اکھٹے کئے گئے ہیں۔
(۶) Lawrence, D.H., Studies in Classic American Literature, London, Penguin Books, 1971, p4.
(۷) Lawrence, D.H., Studies in Classic American Literature, London, Penguin Books, 1971, p89-90.
(۸) عسکری، محمد حسن، انسان اور آدمی، علی گڑھ، علی گڑھ بک ڈپو،۱۹۷۶ء، ص ۴۵۔عسکری نے یہ جملہ روسی تصور انسان کے پس منظر میں لکھتے ہوے کہا تھا کہ ’’ روسی تہذیب کے بارے میں ہمیں وہاں کے ادب سے کئی مفید مطلب باتیں معلوم ہو سکتی ہیں ‘‘
(۹) عسکری، محمد حسن، مقالات محمد حسن عسکری، مرتبہ شیما مجید، لاہور، علم و عرفان پبلشرز، ۲۰۰۱ء ج ۲، ص ۸۱، ۸۳؛ امریکہ کے بارے میں عسکری کی تحریریں اور منٹو کے ’’چچا سام کے نام خطوط ‘‘ تقابلی مطالعے کا ایک اچھا موضوع بن سکتے ہیں۔
(۱۰) عسکری، محمد حسن، تخلیقی عمل اور اسلوب، مرتبہ محمد سہیل عمر، کراچی، نفیس اکیڈمی، ۱۹۸۹ء، ص ۳۸۵