ٹوٹے۔۔عطا الحق قاسمی – مکالمہمکالمہ
ناقابلِ انتقال
بسوں اور لاریوں کی ٹکٹوں پر جلی حروف میں’’ناقابلِ انتقال‘‘ لکھا نظر آتا ہے۔ مجھے اس دعوے پر کوئی اعتراض نہیں۔ البتہ ارباب اختیار سے اتنی گزارش ضرور ہے کہ وہ صرف ٹکٹوں کے سلسلے ہی میں’’ناقابلِ انتقال‘‘ کی گارنٹی نہ دیں بلکہ اس فہرست میں بیچارے مسافروں کو بھی شامل کریں جو سفر کے دوران’’ناقابلِ انتقال‘‘ والی ٹکٹ جیب میں رکھنے کے باوجود آئے روز انتقال کرجاتے ہیں اور یہ لوگ اس بہانے اگلے روز اپنی تصویریں اخباروں میں شائع کراتے ہیں۔
بے نیازی
بانو بازار میں انگوٹھیاں، جوتیاں اور چاٹ سبھی کچھ ملتا ہے لیکن گزشتہ دنوں ہم نے یہاں اونٹ فروخت ہوتے بھی دیکھا ہے اور حیرت سے آنکھیں ملی ہیں۔ یہ بات میں بطور لطیفہ نہیں کہہ رہا بلکہ درحقیقت بانو بازار کے نکڑ پر سائیکل اسٹینڈ کے قریب یہ عجیب الخلقت مخلوق رنگ برنگی ریشمی چادروں میں لپٹی کھڑی تھی اور اس کے قریب کھدر کے میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ساربان تھا۔ اردگرد سے گزرنے والی خواتین بڑے اشتیاق سے اونٹ کو دیکھتی تھیں اور وہ ان سب سے بےنیاز بیزاری کے عالم میں تھوتھنی آسمان کی طرف اٹھائے کھڑا تھا۔ اگر اونٹ کی عمر طویل ہوتی ہے تو جان لیں کہ اس کی طوالت عمری کی وجہ خواتین سے یہی بے نیازی ہے۔
کیپ لیفٹ
ضیاء الحق کے دور میں اگر کوئی ’’لیفٹ‘‘ کی بات کرتا تو اس پر پولیس کا اہلکار ہونے کا گمان گزرتا کیونکہ ان دنوں صرف پولیس والے’’کیپ لیفٹ‘‘ کی تلقین کرتے نظر آتے تھے۔
برقع پوش خطوط
پردے کی کئی قسمیں ہیں ایک قسم وہ ہے جس کے مطابق بعض بزرگ خطوط میں بھی بیبیوں کو برقع اوڑھا دیتے ہیں، تاہم گزشتہ روز اس نوع کا ایک خط مجھ ایسے ’’نامحرم‘‘ کے ہاتھ لگ گیا جس کی عبارت کچھ یوں تھی کہ ’’عزیزہ پ ، ر سے کہنا کہ وہ غ، ل کے پاس جائے اور اس سے پوچھے کے ر ، ن نے ابھی تک خ، ل سے مل کر س، ر سے ش، ہ کا کام کروایا ہے یا نہیں؟بعد از خرابی بسیار ہماری تحقیق کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ یہ عزیزہ پ ر دراصل پروین ہے جس سے کہا گیا ہے کہ وہ غ، ل یعنی غزالہ کے پاس جائے اور اس سے پوچھے کہ ر، ن یعنی رخسانہ نے ابھی تک خ، ل یعنی خالدہ سے مل کر س، ریعنی سرفراز سے ش، ہ یعنی شہناز کا کام کروایا یا نہیں؟
طوالت ِعمر
اخبارات میں اس نوع کی خبریں آئے دن شائع ہوتی رہتی ہیں جن میں بتایا گیا ہوتا ہے کہ دنیا کے فلاں ملک میں ایک شخص سوا سو یا ڈیڑھ سو سال کی عمر پاکر گزشتہ روز اس دار فانی سے کوچ کرگیا۔ خبر کے ساتھ عموماً بزرگ کی اس طوالت ِعمر کی وجہ بھی بتائی ہوتی ہے، مثلاً کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ موصوف نے پیدائش کے دس منٹ بعد ہی ’’ایکسکیوزمی‘‘ کہہ کر دائی سے اجازت طلب کی تھی اور چھڑی پکڑ کر واک کو نکل گئے تھے۔ اس کے بعد ساری عمر ان کا یہی معمول رہا کہ صبح شام پانچ چھ میل کی ’’چہل قدمی‘‘ ضرور کرتے تھے۔ طوالت ِعمری کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ موصوف ہر کام وقت پر کرنے کے عادی تھے۔ سوتے وقت پر تھے، جاگتے وقت پر تھے اور کھانا وقت پر کھاتے تھے، حتیٰ کہ موصوف کسی سیاسی جماعت میں بھی ٹھیک وقت پر شریک ہوتے تھے اور ٹھیک وقت پر اس سے علیحدگی کا اعلان کرتے تھے۔
لنڈا جیوے
لنڈے بازار کا ایک پھیرا لگانے سے ایک روز مجھ پر منکشف ہوا کہ صرف کپڑے لتے ہی پرانے ہو کر اس بازار میں نہیں پہنچتے بلکہ تحریکیں اور سلوگن بھی اپنی وقعت کھو بیٹھیں تو وہ بھی بالآخر لنڈا ہی پہنچتے ہیں۔ مثلاً ’’جیوے جیوے بھٹو جیوے‘‘ والے نعرے نے یہاں اپنی ایک نئی معنویت دریافت کی ہے۔ چنانچہ بازار میں داخل ہوتے ہی دکانوں سے پہلے قطار اندر قطار بچھی ہوئی چارپائیوں پر سجی دکانیں نظر آئیں جن کے قریب کسی بلند جگہ پر کھڑے ہنکارے ’’جیوے جیوے لنڈا جیوے‘‘ کے نعرے لگاتے تھے اور بھنگڑا ڈالتے تھے اور چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے ’’بیچیں گے جی بیچیں گے، ستر روپے میں بیچیں گے، ذرا زور سے بولو، بیچیں گے، ہم مال پرانا بیچیں گے‘‘۔ اگلی چارپائی پر کھڑا ہنکارا غالباً فریقین کی ’’ہنگامہ آرائی‘‘ سے بے حال ہو چکا تھا وہ اپنی پانچوں انگلیاں خاموشی سے فضا میں بلند کرتا اور تھکے تھکے لہجے میں ہولے ہولے کہتا تھا ’’پچاس روپے، پچاس روپے‘‘!
گھڑی گھڑی
لاہور یےکسی مخالف سیاسی جماعت کے جلسے میں اتنی زیادہ تعداد میں پہنچ جاتے ہیں کہ وہاں اپنا ہجوم دیکھ کر خود ہی پریشان ہونے لگتے ہیں۔یہ دراصل مقرر کی تقریر کم سنتے ہیں، اس تقریر سے’’ صحیح وقت‘‘ کا اندازہ لگاتے ہیں۔ ادھر لاہور کے مقرر بھی ایسے ہیں کہ تقریر کم کرتے ہیں اور ٹائم زیادہ بتاتے ہیں، مثلاً ان جلسوں میں یہ شعر بہت پڑھا جاتا ہے؎
یہ’’گھڑی‘‘ محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر ناداں اگر کوئی عمل دفتر میں ہے
چھوٹا مقرر اگر ’’گھڑی‘‘ کا ذکر کرتا ہے تو بڑا مقرر ’’گھڑیال‘‘ کا حوالہ درمیان میں لے آتا ہے؎
غافل تجھے ’’گھڑیال‘‘ یہ دیتا ہے منادی
جو مقرر گھڑی یا گھڑیال کا براہ راست ذکر نہیں کرتا وہ بالواسطہ طور پر وقت کی دہائی دینے میں لگا رہتا ہے مثلاً یہ کہ’’حضرات! میرے پاس تقریر کے لئے’’وقت‘‘ بہت کم رہ گیا ہے مجھے آپ سے صرف یہ کہنا ہے کہ قربانیاں دینے کا’’وقت‘‘ آگیا ہے، آپ اس کے لئے ’’ہمہ وقت‘‘ تیار رہیں۔
Advertisements
( بشکریہ : روزنامہ جنگ )
Related