فرانس : نسل پرستانہ سامراجیت کی جاری تاریخ – احمد الیاس

کالعدم ٹی ایل پی کے طرزِ عمل سے قطع نظر، فرانس کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ بے وزن نہیں ہے، صرف اس لیے نہیں کہ فرانس نے اہانتِ اسلام کرنے والوں کو ریاستی سرپرستی فراہم کر رکھی ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ فرانس اسلاموفوبیا، زینو فوبیا اور نسل پرستی کا گڑھ بن چکا ہے۔
فرانس کے ان رویوں کی جڑیں اس کی نوآبادیاتی تاریخ میں بہت گہری ہیں۔ یوں تو پورا مغربی تمدن ہی نسل پرستی، نفرت اور سامراجی استحصال پر کھڑا ہے، لیکن فرانس پر اس کا رنگ چوکھا اور گاڑھا ہے۔ ایک تو یہ کہ اپنے گناہوں کو تسلیم کرنے میں فرانسیسی دیگر مغربی اقوام کی نسبت بہت پیچھے ہیں، حتیٰ کہ فرانسیسی انٹیلیجینشیا میں بھی قومی تفاخر کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ کامیو سے فوکو تک، بڑے بڑے فرینچ دانشورں کا رویہ اپنے ملک اور تمدن کے سامراجی مظالم کے حوالے سے منافقانہ ہی رہا ہے۔
دوسری بات یہ کہ دیگر نوآبادیاتی قوتوں کے برعکس فرانس کی کولونیل ازم اب تک جاری ہے۔ مغربی یورپ کے کئی ملکوں کو فرانس نے آزادی ہی اس شرط پر دی تھی کہ ان کی کرنسی سمیت ان کی ساری اکانومی فرانس کنڑول کرے گا۔ آج بھی فرانس مغربی افریقہ کے ممالک کو اپنی نیم کالونیاں بنائے ہوئے ہے۔

The Cruelty of Crazy French Colonialism
فرانس کی خوشحالی میں جتنا کردار اس کے کولونیل ازم نے ادا کی ہے، اتنا کسی اور ملک کی خوشحالی میں نہیں کیا۔ فرینچ جرمنوں یا انگریزوں کی طرح کوئی ذہین یا محنتی قوم نہیں ہیں۔ فرانسیسیوں کا کلچر ہی انگریزی یا جرمن کلچر کی طرح محنت اور ذہانت کو پروموٹ نہیں کرتا بلکہ آرام اور آسائش کو گلوریفائی کرتا ہے۔ فرانس کا حصہ سائنسی دریافتوں اور ایجادات میں بھی نہ ہونے کے برابر رہا ہے۔ ان کے کمزور کردار کا یہی پہلو جنگوں میں ان کی مسلسل شکستوں سے بھی عیاں ہوتا رہا ہے۔
فرینچ کولونیل ازم برطانوی، ہسپانوی اور پرتگالی کولونیل ازم کے مقابلے میں کہیں زیادہ استحصالی اور ظالمانہ تھی۔ انقلاب فرانس میں آزادی، اخوت اور مساوات کا نعرہ لگانے والے قوم اس انقلاب کے بعد بھی غلاموں کی تجارت، انسانی چڑیا گھروں کی تعمیر اور کھلی ننگی نسل پرستی میں ملوث رہی۔ انقلاب کی لبرل اقدار کو اس کولونیل ازم کو جسٹفائی کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، یہ کہہ کر کہ ہم اس ظالمانہ سامراجیت سے یہ روشن خیالی اور تہذیب ان مفتوحین میں ڈال دیں گے۔
فرانس نے ہیٹی جیسے کئی ملکوں کو آزادی بھاری “ہرجانوں” کے عوض ادا کی۔ ان ہرجانوں کی ادائیگی میں یہ غریب ممالک کئی دہائیوں تک پستے رہے۔ اپنی زبان اور کلچر مسلط کرنے میں بھی فرانس دیگر سامراجی ملکوں سے زیادہ شدید تھا۔ انگریزوں نے تو مقامی زبانوں اور ادب کو بھی پڑھا اور مختلف کولونائزڈ کلچرز کو ترقی دی لیکن فرانسیسیوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ مختلف خطوں کے مقامی کلچرز کو بالکل نیست و نابود کردے۔
/https://public-media.si-cdn.com/filer/c2/1d/c21d753f-9800-43be-807e-9e77996720cc/surviving_herero.jpg?resize=349%2C261&ssl=1)
Images of survivors of the Herero genocide foreshadowed similar scenes from the liberation of Nazi death camps
فرانس کے سابق صدر فرانسس آلیند یہ سب تسلیم کرچکے ہیں لیکن گزشتہ کئی فرانسیسی صدور اپنے ملک کے شرمناک ماضی پر معافی مانگنے سے صاف انکار کرتے چلے آرہے ہیں، موجودہ صدر میکرون کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اپنے گناہوں کو تسلیم کرنے کی بجائے فرانس میں “اسلامی علیحدگی پسندی” اور “سیاہ علیحدگی پسندی” کے خلاف قوانین متعارف کروائے جارہے ہیں جن سے اس نفرت اور امتیازی سلوک کو خود فرانس کے اندر قانونی سرپرستی دی جارہی ہے۔ سیکولرازم کا اتھاریٹیرئین ورژن جو فرانس میں نافذ العمل ہے، اسی نفرت اور امتیاز کو نافذ کرنے کا ایک ذریعہ ہے جو اقلیتوں کو دبا کر رکھنا چاہتا ہے اور سفید فاموں کی نسلی برتری بنائے رکھنے کا خواہاں ہے۔
فرانس کے اس رویے کی جڑیں اس کی تاریخ میں ہیں۔ اسلام کے ساتھ فرانس کی خاص نفرت کی جڑیں صلیبی جنگوں تک جاتی ہیں جن میں فرانس کا کردار سب سے نمایاں تھا، اسی لیے مسلمان سب گوروں کو “فرنگی” کہنے لگے تھے، حالانکہ فرنگی اصل میں فرانسیسیوں کو ہی کہا جاتا تھا۔ صلیبی جنگوں سے بھی پہلے آٹھویں صدی عیسوی میں عربوں کی فتحِ سپین اور فرانس میں مداخلت تک، اسلام اور فرانس کا جھگڑا پرانا ہے۔ فرانس سیکولرائز تو ہوگیا لیکن اس قوم کے رویوں کی شدت کہیں نہیں گئی بلکہ اس شدت پسندی کو بھی فرانسیسیوں نے سیکولرائز کرلیا۔ قوم پرستی اور سیکولرازم میں بھی فرانسیسی ویسے ہی وحشی ہیں جیسے کیتھولسزم میں تھے۔
اگر ہم مسلمان اور تیسری دنیا کی دیگر اقوام اپنی عزت کرتی ہیں تو ایسی وحشی قوم سے تعلقات منقطع کرنا، اسے سزا دینا اور اسے معافی مانگنے پر مجبور کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ فرانس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے، یورپی یونین کا دوسرا اہم ترین ملک ہے اور نیٹو میں بھی اہمیت رکھتا ہے۔ دیگر مغربی اقوام بھی فرانس کو ناپسند تو کرتی ہیں لیکن اس کی پشت پناہی پر مجبور ہیں۔
اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ فرانس نے نوے کی دہائی میں ہولوکاسٹ میں اپنے کردار کو تسلیم کرکہ معافی مانگی۔ اگرچہ یہ معافی بھی بہت دیر سے آئی اور یہودیوں کو کئی دہائیوں تک اس کے لیے جدوجہد کرنی پڑی، لیکن آخر کار فرانس کو معافی مانگنی پڑی اور آج یہودی ہی وہ اقلیت ہیں جو فرانس کی وحشی سیکولرازم اور نسل پرستی سے محفوظ نظر آتے ہیں۔
آخر یہودیوں نے ایسا کیا کیا جس سے وہ فرانس کو جھکا پائے ؟
یہودیوں کا طریقہ مسلسل پروپیگنڈہ اور معاشی و سیاسی دباؤ پر مشتمل ہے۔ وہ میڈیا کے ذریعے مسلسل کسی قوت کے حوالے سے بیزاری پیدا کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے معاشی اور سیاسی اثر و رثوخ سے اسے دباؤ میں لاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ قوت گھبرا کر جھک جاتی ہے۔
مسلمانوں کی تعداد یہود سے سوا سو گنا زیادہ ہے۔ ان کی معاشی قوت بھی اب کم نہیں ہے۔ مسلمان خود فرانس کی آبادی کا پانچ سے دس فیصد ہیں اور فرانس کی ورکنگ کلاس کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ اقوام متحدہ میں ان کے پچاس ووٹ ہیں۔ اب میڈیا میں بھی ان کی آواز ابھر رہی ہے اور الجزیرہ جیسے نیٹ ورکس نے فرانس کی منافقتوں اور وحشی پن کو نمایاں کرنے میں کافی اچھا کام کیا ہے۔ لیکن مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ان کا انتشار ہے۔
اس انتشار کا سبب صرف اور صرف عرب بادشاہتیں اور آمریتیں ہیں۔ یہ بادشاہتیں اور آمریتیں دنیا میں اپنے عوام اور مسلمانوں کے نہیں، بلکہ اپنے ملکوں اور عالم اسلام میں سامراج کے نمائندے ہیں۔ یہ بادشاہ اور ڈکٹیٹر اپنے عوام سے ڈرتے ہیں اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے مغرب کے محتاج ہیں۔ مسلمانوں کے زیادہ تر وسائل پر یہی لوگ قابض ہیں۔ ان سے یہ توقع کرنا بے کار ہے کہ وہ دیگر مسلم اقوام کے ساتھ مل کر فرانس کے خلاف سٹینڈ لیں گے۔
اپنے مفادات کی بات آئے تو قطر جیسے امیر ترین اور اہم ترین ہمسائے اور دیرینہ دوست کے خلاف بھی ان بادشاہتوں نے مکمل محاصرہ اور سفارتی و تجاری بائیکاٹ کیا اور مطالبات کی لسٹ جاری کردی۔ ایسا ہی محاصرہ، سفارتی و تجارتی بائیکاٹ مسلم ممالک مل کر فرانس کا کریں، اور مطالبات کی فہرست جاری کریں جن میں اسلام دشمن سیکولر قوانین کا خاتمہ، نوآبادیاتی مظالم پر معافی مانگنا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز مواد (بشمول توہینِ اسلام) پر پابندی وغیرہ شامل ہوں، تو عالمی سطح پر فرانس شدید دباؤ میں آسکتا ہے۔ امریکہ جیسے ملک بھی فرانس کی پشت پناہی سے کچھ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ لیکن سعودی حکمران اور ان کے دیگر ساتھی ایسا کبھی نہیں کریں گے۔
ان حالات میں قطر کے سوا دیگر عرب قوتوں کو عالمِ اسلام سے خارج تصور کرتے ہوئے ترکی، ایران، پاکستان، ملائشیا اور انڈونیشیا اور قطر جیسے ملکوں کو کو مل کر ہی فرانس بیزار بلاک بنانا ہوگا۔ اس کے لیے مسلسل اور وسیع سفارت کار کی ضرورت ہے جس کے لیے وقت اور حوصلہ درکار ہے، جذباتیت اور جلد بازی نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لپ اسٹک فیمنزم : Lipstick Feminism نسوانی بالادستی کا خواب
(Visited 1 times, 1 visits today)