ناخلف اولاد یا۔۔۔۔ والدین بھی سوچیں – عظمی خان
پہلا منظر:
بابا پلیز معاف کردیں بابا پلیز۔ “اس” کی چیخوں کی آواز باہر گلی تک آرہی تھی لیکن “بابا” کے ہاتھ اس وقت تک نہیں رکے جب تک کہ ہینگر نہ ٹوٹ گیا۔ مارتے مارتے بابا ہانپ گئے تھے۔ ٹوٹا ہینگر پھنکتے ہوئے چلائے۔ ہزاروں روپے فیس بھرتا ہوں دن رات محنت کرتا ہوں کہ پڑھ لکھ کر کچھ بن جاوُ لیکن نہیں نواب صاحب نے پڑھ کر نہیں دینا۔ لہجہ میں پھنکار تھی۔ اس نے روتے روتے سر اٹھا کر دیکھا۔ بابا جا چکے تھے اور تایا اس کے نزدیک بیٹھے پچکار رہے تھے۔ “بیٹا باپ پے تمہارا۔ یاد رکھو والدین سے بڑھ کر اولاد کا کوئی خیرخواہ نہیں ہوتا۔ انکی بات مانا کرو۔”
دوسرا منظر:
“امی پلیز جانے دیں ناں۔ میری بہترین سہیلی ہے۔ باقی کی سہیلیاں بھی آییں گی۔” ایک گھنٹہ سے جاری منتیں بھی ماں کی ناں کو ہاں میں نہیں بدل سکیں۔ اسکی ماں کو اسکی یہ سہیلی پسند نہیں تھی۔ آزاد خیال اور تھوڑی بے باک ان کے ماحول سے میل نہیں کھاتی تھی سو امی کی طرف سے میل جول پر پابندی عاید تھی۔ وہ روہانسی ہوئی بیٹھی تھی کہ چاچی آ گییں۔ ساری صورتحال سے آگاہ تھیں اس کے پاس بیٹھ کر پیار سے سمجھانے لگیں “دیکھو بیٹی۔ تمہاری ماں ہیں تمہارا برا کبھی نہیں چاہے گی۔ یاد رکھو ماں باپ سے بڑھ کر اولاد کا کوئی خیرخواہ نہیں۔”
تیسرا منظر:
“اماں ابا اتنی پیاری لڑکی ہے، اچھا خاندان، سلیقہ مند اور بالکل ویسی ہی جیسی بیوی میں چاہتا ہوں۔ آخر برائی کیا ہے جو آپ لوگ مان نہیں رہے۔” اس نے جھنجلاتے ہوےُ پوچھا۔ ایک ماہ سے گھر میں اسکی شادی کو لیکر بحث چھڑی تھی۔ اماں ابا اسکی شادی ایک خاندانی عزیز کی بیٹی سے کروانا چاہتے تھے جبکہ وہ اپنی کلاس فیلو سے کرنے پر بضد تھا۔ “دیکھو بیٹا ہم تمہارے والدین ہیں۔ تمہارے لیے کبھی برا نہیں چاہیں گے۔ ہماری پسند سے شادی کرنے میں ہی سکھ ہے۔” ابا نے اپنی خاموشی آخر کار ختم کرتے ہوےُ حکم نما مشورہ دیا۔ اس نے بے بسی سے ماں باپ کو دیکھا، ایک گہری سانس لی اور حکم نمایہ مشورہ مان گیا۔
چوتھا منظر:
“آج فیصلہ کر ہی لو۔ ماں کا حکم مقدم ہے یا بیوی۔ جنت ماں کے قدموں میں ہے بیوی کے نہیں۔” اماں کی اور بیگم کی کبھی نہیں بنی تھی لیکن آج حد ہوگئ تھی اماں بضد تھیں کہ بیگم کو طلاق دو۔ تمہارے لیے لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں۔ سارا خاندان یہی سمجھا رہاتھا کہ ماں سے بڑھ کر کوئ نہیں۔ “دیکھو بیٹا۔ والدین سے بڑھ کر اولاد کا خیر خواہ کوئی نہیں۔ اسکی بات مان لو۔” پھوپھی نے پیار سے سر کو سہلاتے ہوےُ مشورہ دیا۔
پہلا منظر:
“اماں کیا کر رہی ہیں آپ۔ آپ کی شوگر بڑھ جاےُ گی۔” اس نے ماں کے آگے سے کھیر کا پیالہ اٹھا لیا۔ “آپ کے سارے ٹیسٹ خراب آےُ تھے آپ کو سختی سے پرہیز کرنے کو کہا ہے ڈاکٹر نے۔” “کیسی نا خلف اولاد ہے۔ ماں باپ کے کھانے پینے پر بھی نظر ہے اب اگر علاج کرواتا ہے تو کونسا احسان کرتا ہے ماں باپ نے بھی تو پالا پوسا ہے۔” اماں کے شکووں پر بی پڑوسن کا تبصرہ۔ “ہاں بہن آج کل کی اولاد ہے ہی ناخلف۔ اعتبار کے لایق ہی نہیں۔ اللہ چلتا پھرتا اٹھا لے اولاد کا احسان نہ لینا پڑے۔”
دوسرا منظر:
“ابا آج پھر چلے گےُ دوستوں کی طرف۔ یہ نئے دوست صحیح نہیں آپ کے۔ آپ کو پہلے بھی کہا تھا۔ ریٹایرمنٹ کے پیسوں پر نظر ہے جب ہی آئے دن حیلے بہانوں سے آپ سے پیسے مانگتے ہیں۔” اس نے ابا کو سمجھانے کی ایک اور کوشش کی۔ حدہےاب تم میرے باپ بنو گے۔ میاں میں اپنااچھا برا خوب سمجھتا ہوں۔ آج کل کی ناخلف اولاد۔ ماں باپ کی خدمت بھی دولت کے لالچ میں کرتی ہے۔” ابا کی بات سن کر اس نے سر پیٹ لیا۔
تیسرا منظر:
“اماں کو چند دنوں کے لیے نرسنگ ہوم میں داخل کروایا ہے۔ وہاں فزیو تھراپی بھی باقاعدگی سے ہوگی۔” وہ فون پر خالہ کو اماں کی بیماری کی تفصیلات بتا رہا تھا جو فالج کے سبب ہسپتال میں تھیں۔ “میاں یہ خوب تم نے جان چھڑائی بوڑھی ماں سے۔ اسکو ہسپتال میں داخل کرو ادیا اب وہ جانے اور ہسپتال والے جانیں۔ آج کل کی اولاد بھی ناخلف ہے۔ مجال ہے بوڑھے ماں باپ کی تیماداری کرلے۔” خالہ نے غصے میں فون کا ریسیور پٹخ دیا۔
چوتھا منظر:
“اس علاقہ کی آب و ہوا اچھی نہیں۔ آپ لوگ میرے ساتھ چلیں۔ اچھی آب و ہوا ہے صحت پر اچھا اثر پڑے گا۔” اس نے ماں باپ کو سمجھانے کی کوشش کی جو اپنا گھر چھوڑ کر جانے پر تیار نہیں تھے۔ “مطلب اب اس عمر میں تم ہمیں گھر سے بے گھر کرنا چاہ رہے ہو۔” ابا نے غصے سے کہا۔ “ناں بابا ناں۔ اب اس عمر میں اولاد کا زیر بار نہیں ہونا۔ تمہیں یہاں رہنا ہے تو رہو ہم نہیں جا رہے اپنا گھر چھوڑ کر کہیں۔ اولاد تو آج کل کی ویسے ہی ناخلف ہے۔ ہم سمجھیں گے ہماری اولاد بھی ناخلف نافرمان نکلی۔” اماں نے بھی ایک سانس میں فیصلہ سنا دیا۔
یہ چند مناظر ہیں۔ ہم سب ان مناظر کا حصہ بنے ہوں گے یا پھر گواہ بنیں ہوں گے۔ ہمارے معاشرے میں ماں باپ کا مقام بہت مقدم ہے۔ ماں کے قدموں تلے جنت والی حدیث سن کر بڑی ہونے والی نسل نے اولاد کے بارے میں کبھی کوئ حدیث نہیں سنی ہوتی۔ ایسا کیوں؟ کسی کسی نے بیٹا نعمت اور بیٹی رحمت والی ضرور سن رکھی ہوتی ہے۔
اسکول سے لیکر یونیورسٹی تک ہر جگہ حقوق والدین کا سبق نصاب کا حصہ ہوتا ہے لیکن فرائض والدین کا باب غایب ہوتا ہے۔ آخر کیوں؟
ہمارے معاشرہ میں والدین اولاد کے بہترین خیرخواہ مانے جاتے ہیں لیکن اولاد ہمیشہ ناخلف، نافرمان کا ہی ٹایٹل پاتی ہے۔ کیوں بھلا؟
یہ وہ سوالات ہیں جو ہر اولاد کے دماغ میں کھلبلی مچاتے ہیں لیکن ان سوالات کو پوچھنا بھی گستاخی کے زمرے میں آتا ہے۔ بحیثیت قوم ہم اولاد کو “ولن” کا درجہ دیتے ہیں۔ جو والدین کی کبھی خیر خواہ نہیں ہوسکتی۔ وہ والدین جنہوں نے اولاد کو ساری زندگی نیکی، بھلائ، خیرخواہی، قربانی اور صلہ رحمی کا سبق پڑھایا ہوتا ہے وہ بھی آخر عمر میں اولاد کو ناقابل اعتبار مانتے ہیں۔
والدین کے لیے انتہا کا حسن ظن رکھنے والا معاشرہ اولاد سے اتنا عناد کیوں رکھتا ہےآخر؟
اگر یہ تمام۔ سوالات آپ کے ذہن میں بھی آتے ہیں تو بطور والدین اپنے کردار کا جائزہ لیجیے۔ چاہے آپ نےُ بنے والدین ہوں یا جوان ہوتے بچوں کے دادا دادی ہوں۔ وہ اسپیس جو بطور والدین آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہی اسپیس اپنی اولاد کو بھی دیں گے تو معاشرہ کو ٹوٹ پھوٹ سے بچاسکیں گے۔ ہمارے معاشرے میں اولڈ ہومز کا کلچر ابھی عام نہیں ہوا لیکن اگر والدین اور اولاد کے مابین بد اعتمادی اسی طرح قایم رہی تو یہ دن بھی دور نہیں۔ سو اپنے کردار کا جایزہ لیجیے اور اولاد کو “ناخلف” کے ٹایٹل سے نجات دلوایے۔
(Visited 1 times, 1 visits today)