نظیر اکبرآبادی کی وفات Aug 16, 1830 نظیرؔ اکبرا…
نظیر اکبرآبادی کی وفات
Aug 16, 1830
نظیرؔ اکبرآبادی کا پورا نام ولی محمد تھا۔ اکبرآباد کے ایک شریف گھرانے میں نظیر اکبرآبادی کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان کے والد سیّد محمد فاروق عظیم آباد کے نواب کے مصاحبین میں شمار کئے جاتے تھے۔ باضابطہ کوئی تعلیم حاصل نہیں کی۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، کوئی ملازمت نہیں کی۔ باپ دادا کی دولت موجود تھی۔ البتہ محلہ کے بچوں کو پڑھا کر زندگی گذارتے تھے۔ کچھ روز کے لئے متھرا گئے تو وہاں کے مرہٹہ قلعہ دار نے انھیں اپنا استاد مقرر کیا۔ دوبارہ آگرہ آئے تو محمد علی خاں کے لڑکوں کو درس دینے لگے۔ اسی دوران کھتری سے ملاقات ہوئی۔ رائے کھتری سے ملاقات ہوئی۔ رائے کھتری نے اپنے بچوں کی تربیت میاں نظیر کے سپرد کر دی۔ آخری عمر میں نظیرؔ کا تعلق کاشی کے سربراہ راجہ بلوان سنگھ کی سرکار سے ہوگیا تھا۔ اپنے خاندان اور ماحول کی وجہ سے نظیر نے سپہ گری کے فن میں کمال حاصل کیا تھا۔ فارسی اور عربی جانتے تھے۔ ہندی، پنجابی اور سنسکرت پر عبور حاصل تھا۔ عوام میں اٹھنا بیٹھنا تھا۔ زبان کے عوامی لہجے سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ ایک قلندر مزاج آزاد منش انسان تھے۔ اس کا اندازہ ان کی شاعری سے بھی ہوتا ہے۔ نظیر کے والد سنی تھے لیکن وہ امامیہ مذہب کے قائل تھے۔ عبادتوں کی ادائیگی معمولی طور پر کرتے تھے۔ البتہ تعزیہ داری کے اہتمام پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ ادھیڑ عمر میں ظہورالنساء بیگم بنت عبدالرحمٰن چغتائی سے شادی کی۔ آخری عمر میں گوشہ نشینی اختیار کی۔ نظیر کو اولادیں بھی ہوئیں۔ ۱۸۲۷ء میں فالج کے مرض میں مبتلا ہوئے ۹۸ سال کی عمر میں ۲۵ صفر ۱۲۴۶ھ بمطابق ۱۶ اگست ۱۸۳۰ء کو انتقال کیا۔ نماز جنازہ دو مرتبہ سنی اور امامیہ طریقے سے پڑھائی گئی۔ البتہ تجہیز و تکفین امامیہ طریقہ پر ہوئی۔ ان ہی کے مکان میں موجود نیم کے درخت کے نیچے دفن کئے گئے۔ نظیرؔ کے مزاج کی شوخی، بانکپن، کھیل کود اور میلے ٹھیلوں کے شوق اور تجربے کے اظہار کے لئے نظم ہی ان کو راس آئی۔ ان کا مشاہدہ دنیاوی معاملات کے ساتھ ساتھ زندگی کے پیچ و خم کے متعلق بھی بہت گہرا تھا۔ نظم کی آزادی ان کی آزاد روش سے بڑی مطابقت رکھتی تھی۔ اس لئے وہ نظم نگاری کی طرف مائل ہوئے اور ہر چھوٹے بڑے موضوع پر نظمیں لکھیں۔
نظیر اکبرآبادی کی نظم نگاری
جس دور میں نظیرؔ اکبرآبادی حیات تھے وہ شاعری کا ایک ایسا دور تھا جس میں علم عروض، قافیہ اور ردیف کی پابندی لازمی تھی۔ سارے معاشرے میں شاعری کے لئے مدون کئے ہوئے اصولوں کی پابندی کی جاتی تھی۔ نظیرؔ اکبرآبادی بھی اسی پابند ماحول کے پروردہ تھے۔ اسی لئے ان کی شاعری فنی اصولوں کی پابند رہی۔ ان کی نظموں میں مثلث، مربع، مخمس اور مسدس کے سانچے استعمال ہوئے ہیں۔ جن میں وزن، بحر، قافیہ اور ردیف کی پابندی بھی دکھائی دیتی ہے۔
جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو
یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو
جدا جو ہم کو کرے اس صنم کے کوچہ سے
الٰہی! راہ میں ایسا کوئی رقیب نہ ہو
علاج کیا کریں حکماء تپ جدائی کا
سوائے وصل کے اس کا کوئی طبیب نہ ہو
نظیرؔ اپنا تو معشوق خوب صورت ہے
جو حسن اس میں ہے ایسا کوئی عجیب نہ ہو
دنیا کی نیکی بدی
ولی محمد نظیرؔ اکبرآبادی (۱۷۳۵ء – ۱۸۳۰ء) عوامی شاعر تھے۔ ان کی نظموں میں ہندوستانی مشترکہ تہذیب کی روح اپنی تمام رنگینیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ جس کا لب و لہجہ اور مزاج عوامی ہے۔ نظیرؔ کے یہاں مختلف موضوعات پر نظمیں ملتی ہیں۔ بعض میں ہندوئوں اور مسلمانوں کا ذکر ہے تو بعض میں ہندوستانی موسموں اور ان کی کیفیات کا اور بعض میںاخلاق و تصوف کا۔ وہ نظمیں جو ناصحانہ انداز میں ہیں اور جن میں دنیا اور دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ کھینچا گیا ہے بڑی دلآویز اور اثرانگیز ہیں۔ نظیرؔ اپنے گرد و پیش کے واقعات اور مناظر کو نہایت سادگی اور خلوص کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے یہاں شاعرانہ واقعیت اور بیان کی صداقت پائی جاتی ہے۔ ذیل کی نظم اس خوبی کی آئینہ دار ہے
اس نظم میں شاعر نے انسانی اعمال کے جزا و سزا کے تصور جو مثالوں کے ذریعے واضح کرتے ہوئےبتایا ہے کہ اس دنیا میں بھی انسان کو اس کے عمل کے مطابق جزا یا سزا ملتی ہے۔
ہے دنیا جس کا نانْو یاں یہ اور طرح کی بستی ہے
جو مہنگوں کو تو مہنگی ہے اورسستوں کو سستی ہے
یاں ہر دم جھگڑے اٹھتے ہیں، ہر آن عدالت بستی ہے
گر مست کرے تو مستی ہے اور پست کرے تو پستی ہے
کچھ دیر نہیں، اندھیر نہیں، انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو، اس ہاتھ ملے، یاں سودا دست بدستی ہے
جو اور کسی کا مان رکھے تو اس کو بھی ارمان ملے
جو پان کھلاوے پان ملے، جو روٹی دے تو نان ملے
نقصان کرے نقصان ملے، احسان کرے احسان ملے
جو جیسا جس کے ساتھ کرے پھر ویسا اس کو آن ملے
کچھ دیر نہیں، اندھیر نہیں، انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو، اس ہاتھ ملے، یاں سودا دست بدستی ہے
جو پار اتار دے اوروں کو اس کی بھی نائو اترتی ہے
جو غرق کرے، پھر اس کی بھی یاں، ڈبکوں ڈبکوں کرتی ہے
شمشیر ،تبر، بندوق سناں اور نشتر تیر نہرتی ہے
یاں جیسی جیسی کرتی ہے پھر ویسی ویسی بھرتی ہے
کچھ دیر نہیں، اندھیر نہیں، انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو، اس ہاتھ ملے، یاں سودا دست بدستی ہے
نظیر اکبرآبادی کی انسان دوستی
نظیرؔ کی نظموں میں انسان دوستی کا جذبہ نمایاں ہے۔ وہ پورے احساس کے ساتھ انسان کی قدر اور اس زندگی کی حفاظت کے خیالات کو اپنی شاعری میں پیش کرتے ہیں۔ وہ صرف نادار و مفلس انسان سے ہی محبت نہیں کرتے بلکہ ان کی شاعری میں ہر انسان سے محبت کا جذبہ نمایاں ہوتا ہے۔ ان کی مشہور نظم ’’آدمی نامہ‘‘ اس بات کی دلیل ہےکہ ان کے یہاں انسانیت کا درد ہے۔ روٹی انسان کی زندگی کا اہم مسئلہ ہے۔ ہر ایک روٹی کے لئے در در کی خاک چھانتا ہے۔ بھوکا ہو تو چاند سورج بھی اسے روٹی ہی نظر آتے ہیں۔
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کس لئے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھے نہ سورج ہی جانتے
بابا ہمیں تو سب نظر آتی ہیں روٹیاں
اپنی مشہور نظم ’’مفلسی‘‘ اور ’’آٹے دال‘‘ میں انسان کی بے بسی کو ظاہر کیا ہے۔ نظم ’’مفلسی‘‘ میں لکھتے ہیں۔
مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر
دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر
ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر
جس طرح کتے پڑتے ہیں ایک استخوان پر
ویسا ہی مفلسوں کو لڑاتی ہے مفلسی
نظیرؔ نے مفلسی کے علاوہ آٹے دال، کوڑی نامہ، پیسہ جیسی نظمیں لکھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ سب زندگی کے حقائق ہیں اس کے بغیر دنیا میں انسان کی کوئی اہمیت نہیں ان کی نظم ’’آٹے دال‘‘ کا یہ بند ملاحظہ ہو
گر نہ آٹے دال کا ہوتا قدم یاں درمیاں
منشی و میر و وزیر و بخشی و نواب و خاں
جاگتے دربار میں کیوں آدھی آدھی رات یاں
کیا عجب نقشہ پڑا ہے آن کر کہئے میاں
سب کے دل کو فکر ہے دن رات آٹے دال کی
نظیرؔ اکبرآبادی ایک ایسے حقیقت پسند شاعر ہیں جن کی نظموں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت کی بقاء کے لئے انسان کو جینے کے یکساں وسائل ملنے چاہئیں۔ نظیرؔ نے بعض نظمیں بچوں کے لئے بھی لکھی ہیں۔ جیسے ریچھ کا بچہ، بلی کا بچہ وغیرہ۔ نظیرؔ کے بعض موضوعات تو اتنے دلچسپ اور انوکھے ہیں کہ ان پر آج تک کسی شاعر نے قلم نہیں اٹھایا۔ مثلاً کورا برتن، لکڑی، تل کے لڈو وغیرہ
نظیر اکبرآبادی کی شاعری میں مناظرِ قدرت کی عکاسی
بنیادی طور پر نظیرؔ ایک عوامی شاعر ہیں اس لئے ان کی شاعری میں جہاں قدرتی مناظر کا عکس دکھائی دیتا ہے وہیں عرس، میلوں اور تہواروں کے مناظر بھی پیش کئے گئے ہیں۔ ان کی مشہور نظم ’’برسات کی بہاریں‘‘ قدرتی مناظر کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی نظم ’گرمی‘ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ نظیرؔاکبرآبادی نے قدرتی مناظر کو پورے سلیقے کے ساتھ اپنی شاعری میں شامل کیا۔ نظیرؔ کی نظموں میں مناظر قدرت کی عکاسی لفظوں کے ذریعے نمایاں ہے ان کی نظمیں ’بنجارہ نامہ‘ اور ’آدمی نامہ‘ بھی ایک طرح سے انسان کے مختلف روپ و رنگ کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان نظموں میں بین السطور اخلاقی اقدار بھی سامنے آتے ہیں۔ ان کی ایک مشہور نظم ’کل جگ‘ کے اشعار ملاحظہ ہوں۔
نیکی کا بدلہ نیک ہے بد کر بدی کا ساتھ لے
کانٹا لگا کانٹا پھلیں، پھل پات بو پھل پات لے
کل جگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے ، اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
قدرتی مناظر کے علاوہ نظیر اکبرآبادی ہر نظم کو کسی نہ کسی فطری منظر سے وابستہ کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی نظموں میں نیکی، سچائی اور حقیقت کی بھرپور نمائندگی ہوتی ہے اور اسی خصوصیت کی وجہ سے نظیرؔ اکبرآبادی کی نظموں کے مناظر اپنا اثر دکھاتے ہیں۔ ان کی نظم ’’بلدیو سنگھ کا میلا‘‘ اور ’’عید گاہ اکبرآباد‘‘ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نظیرؔ نے اپنے ماحول کے مناظر کو بھی نظموں میں شامل کر لیا ہے۔
’’ہولی‘‘ نظیرایک شاہکار نظم
نظیرؔ کی نظم ’’ہولی‘‘ کا تعلق ہندوستان کے ایک رنگ رنگیلے تہوار سے ہے۔ جس میں رنگ و پانی کے ساتھ دلوں کی کدورتیں دور ہو جاتی ہیں۔ یہ ۶بند کا مخمس ترکیب بند ہے۔ ہر بند ہولی کا ایک ایک منظر پیش کرتا ہے۔ جس میں زندگی ہی زندگی ہے۔ نظم میں ہر چار مصرعوں کے بعد ایک مصرعے کو ہراتے ہوئے ایک ایک منظر کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس نظم میں طبلے کی تال، ڈھولک اور مردنگ کی تھاپ، رباب اور سارنگی کی آوازوں، تنبوروں کی جھنک اور گھنگھروئوں کی چھنک سے ایک خوشگوار تاثر پیدا ہو جاتا ہے۔ اس نظم میں گلال، رنگ اور پچکاری کا ذکر کر کے اس تہوار میں کی جانے والی دھینگا مستی، کھینچا تانی اور کیچڑ پانی کے مناظر پیش کئے گئے ہیں۔ رنگ چھڑکنے، راگ راگنی کی محفلوں، شراب کے جام چھلکنے اور کھیل کود کی کیفیت کو مناسب حال الفاظ کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔ نظیرؔ نے اس نظم میں فارسی و ہندی الفاظ کو بھرپور استعمال کیا ہے۔ اس سے نظیرؔ کے گہرے مشاہدے کا اندازہ ہوتا ہے۔ پانچ پانچ مصرعوں پر مشتمل ۶ بند کی اس نظم ہولی کی مختلف کیفیتوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ پہلے بند میں نظیرؔاکبرآبادی نے اس حقیقت کی نمائندگی کی ہے کہ ہولی کے آنے کی وجہ سے عیش و عشرت کا موقعہ فراہم ہو گیا ہے اور ہر طرف خوشی کی دھوم مچی ہے۔ نظم کے دوسرے بند میں نظیرؔ اکبرآبادی نے اپنے دور میں استعمال ہونے والے باجوں اور سازوں کی تفصیل پیش کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ طبلے کی تال کھٹک رہی ہے۔ ڈھولک اور مردنگ بج رہے ہیں۔ ربابوں، سارنگی اور چنگ کی آوازیں پھیلتی جا رہی ہیں۔ تنبورے کے تار جھنک رہے ہیں اور گھنگھروئوں کی آواز پر لوگ دھوم مچارہے ہیں۔ غرض ناچنے گانے کا یہ سلسلہ ہولی کی دولت ہے۔نظم کے تیسرے بند میں وہ لکھتے ہیں کہ تھالوں میں گلال پیش ہو رہے ہیں اور پچکاری سے رنگ چھڑکے جا رہے ہیں۔ عبیر چھڑکا جا رہا ہے۔ لوگوں کی خوشیوں کا ذکر کرتے ہوئے نظیرؔ نے یہ لکھا ہے کہ رنگ بھری پچکاری سے لوگوں کے منہ اور جسم گلنار ہو رہے ہیں۔ اور جسم رنگ میں تر بتر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تمام انداز ہولی کی وجہ سے دکھائی دے رہے ہیں۔ نظیرؔ اکبرآبادی نے نظم کے چوتھے بند میں رنگ کھیلتے ہوئے خوشی میں کی جانے والی دھینگا مشتی اور کیچڑ پانی میں تربتر ہونے کے منظر کی عکس بندی کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ خوشحالی کا جوش ہولی کی وجہ سے چاروں طرف نمایاں ہے۔ نظم کے پانچویں بند میں ہنس ہنس کر دیا ہے اور بتایا کہ لوگ ہنستے کھیلتے کس طرح خوش ہیں۔ کبھی وہ سوانگ بھرتے ہیں اور کبھی موج مستی کی باتیں کرتے ہوئے ہولی کی وجہ سے خوش ہو رہے ہیں۔ کچھ گانے میں مصروف ہیں تو کچھ ناچنے اور سوانگ بھرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ غرض خوشی کا یہ سامان ہولی کی وجہ سے میسر آیا ہے۔
نظیرؔ نے نظم ہولی کے ذریعے ایک ہندوستانی تہوار میں منائی جانے والی خوشیوں کو بڑے دلچسپ انداز میں نظم کر دیا ہے۔ اس نظم میں سادہ زبان اور عوامی الفاظ کے استعمال کی وجہ سے نظم کا لطف دوبالاہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم بھی ہولی کے تہوار میں شریک ہیں۔
آجھمکے عیش و طرب کیا کیا، جب حسن دکھایا ہولی نے
ہر آن خوشی کی دھوم ہوئی، یوں لطف جتایا ہولی نے
ہر خاطر کو خورسند کیا، ہر دل کو لبھایا ہولی نے
دفِ رنگین نقش سنہری کا، جس وقت بجایا ہولی نے
بازار، گلی اور کوچوں میں، غل شور مچایا ہولی کا
نظیر اکبرآبادی کی نظم ’’مفلسی‘‘ کا تجزیہ
نظیرؔ اکبرآبادی اردو نظم کے ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے فطری موضوعات کے علاوہ سماجی، معاشی اور معاشرتی موضوعات پر بھی نظمیں لکھیں۔ ایسی ہی نظموں میں نظیرؔ کی نظم ’’مفلسی‘‘ کا شمار ہوتا ہے۔ یہ نظم نظیرؔ کے مزاج کے عین مطابق ہے۔ اس نظم کو انھوں نے پانچ مصرعوں کے بند یعنی مخمس میں تحریر کیا ہے۔ یہ ایک طویل نظم ہے، جس میں سماجیاتی مطالعہ کے ساتھ نظیرؔ نے ان حقائق کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ جن کی وجہ سے مفلسی اور بدحالی کے پھیلنے کا امکان بڑھتا جا رہا ہے۔ ۱۹بند پر مشتمل نظم ’مفلسی‘ بنیادی طور پر وضاحتی انداز کی نظم ہے۔ اس نظم میں نظیرؔ نے اپنے مشاہدے کی گہرائی اور تشبیہ اور تلمیح کے استعمال اور محاورے کی گرمی سے ایسا ماحول تیار کر دیا ہے کہ یہ نظم مفلسی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتی ہے۔
نظم کے پہلے بند میں نظیرؔ اکبرآبادی نے بتایا ہے کہ جب آدمی پر مفلسی کا حملہ ہوتا ہے تووہ مختلف طریقوں سے انسان کو پریشان کرتی ہے۔ کبھی وہ رات بھر بھوکا سلاتی ہے اور کبھی پیاسا رہنے پر مجبور کردیتی ہے۔ جس پر بھی مفلسی آتی ہے اسے ہر قسم کے دکھ اٹھانے پڑتے ہیں۔ حکیم جو بیماریوں کا علاج کرتا ہے اور جس کی عزت بڑے بڑے نواب اور پٹھان بھی کرتے ہیں۔ لیکن وہ بھی غریب ہو جائے تو اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ حد یہ ہے کہ لقمان سے بڑا طبیب اور عیسیٰ جیسا مسیحا بھی موجود ہو لیکن وہ غریب ہو تو اس کی تمام تر حکمت غریبی میں ڈوب جاتی ہے۔
نظیرؔ نے نظم کے تیسرے بند میں بتایا ہے کہ اہل علم و فضل بھی ہوں اور ان کو مفلسی گھیرے تو وہ غریبی کی وجہ سے کلمہ تک بھول جانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بھوکے سے کوئی الف کے بارے میں پوچھے تو وہ اسے ب بتاتا ہے۔ غریب کے بچوں کو پڑھانے والا سدا مفلس ہی رہتا ہے اور اگر کوئی غریب کے گھر مفلسی آتی ہے تو وہ عمر بھر جا نہیں سکتی۔ اگر مفلس کسی مجلس کے درمیان اپنا حال بیان کرتا ہے تو لوگ یہی تصور کرتے ہیں کہ اس نے روزگار حاصل کرنے کے لئے یہ جال پھیلادیا ہے۔ غریب کے پاس لاکھوں علم و کمال ہوں لیکن وہ مفلس ہو تو ہزار سنبھال لینے کے باوجود اس سے لغزش ہو جاتی ہے۔ اس طرح مفلسی انسان کی تمام صلاحیتوںکو خاک میں ملا دیتی ہے۔
نظم مفلسی کے پانچویں بند میں نظیرؔ اکبرآبادی نے بتایا ہے کہ جب انسان مفلس بن جاتا ہے تو اسے اپنی عزت سے زیادہ روٹی یا نان پیاری ہوتی ہے۔ اور وہ ایک ایک روٹی پر جان دینے کے لئے مجبور ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ جہاں بھی روٹی اورکھانے کا خوان دیکھتا ہے اس پر بھوکے کتے کی طرح ٹوٹ پڑتا ہے۔ اس طرح مفلسی نہ صرف روٹی کے لئے جھگڑا کراتی ہے بلکہ حددرجہ ذلیل بھی کرواتی ہے۔ مفلسی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حیا کی بنیاد پر جن کاموں سے انسان خود کو بچائے رکھتا ہے وہ سب کام کرنے پر وہ مجبور ہو جاتا ہے اور اس میں حلال و حرام کی بھی تمیز باقی نہیں رہتی۔ غرض جسے شرم و حیا کہتے مفلسی کی وجہ سے وہ انسان سے رخصت ہو جاتی ہے۔
نظم کے ذریعے نظیرؔ اکبرآبادی نے ساتویں بند میں بتایا ہے کہ اگرچہ انسان پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں اور وہ شور و غل مچائے تو لوگ گوارا کر لیتے ہیں۔ لیکن مفلس کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ غم کے بغیر ہی ہائے ہائے کرتا ہے اور اس کے واویلا مچانے کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ مفلسی کی وجہ سے اس میں اس قدر ذلت آجاتی ہے کہ اگر کوئی مرجائے تو لاش اٹھانے کے لئے اس کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا۔ لاش کو بے کفن دفن کرنا پڑتا ہے۔ مفلسی کی وجہ سے نہ تو چولھے پر توا رکھا جا سکتا ہے اور نہ مٹکے میں پانی بھرا جا سکتا ہے۔ مفلسی کھانے پینے اوراس کے لئے رکابی حاصل کرنے کو بھی محتاج کر دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے مفلس بے غیرت بن جاتا ہے اور غریب کی بیوی کی عزت بھی ہر ایک کے دل سے ختم ہوجاتی ہے۔ انسان کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو اگر مفلسی اسے گھیر لے تو اس کے طفیل انسان کی قابلیت گھٹ جاتی ہے اور اسے لوگ گدھے اور بیل کا درجہ دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ افلاس کے مارے پھٹے کپڑوں اور بکھرے بالوں کے ساتھ جسم، منہ اور بدن کی پاکی پر توجہ نہیں دے سکتا۔ افلاس کی وجہ سے انسان کی شکل قیدیوں جیسی ہو جاتی ہے۔
مفلسی کا اثر کیا ہوتا ہے اس کا جائزہ لیتے ہوئے نظیرؔ اکبرآبادی یہ بتاتے ہیں کہ جب کسی پر مفلسی آتی ہے تو اس کی وجہ سے دوستوں میں عزت گھٹ جاتی ہے۔ اور چاہنے والوں کی محبت میں کمی آتی ہے۔ اپنے اور غیر میں فرق بڑھاتی ہے اور اسی کے ساتھ شرم و حیا کے علاوہ عزت اور حرمت میں بھی مفلسی کی وجہ سے کمی آتی ہے۔ بہرحال انسان پر مفلسی آجائے تو اس کی بدولت جسم کی صفائی نہ ہونے سے بال اور ناخن بڑھ جاتے ہیں اور انسان صفائی کی خصوصیات کھو دیتا ہے۔
ظیرؔ اکبرآبادی نے بتایا ہے کہ مفلسی کی وجہ سے شرافت کا خاتمہ ہوجاتا ہے انسانی عزت باقی نہیں رہتی۔ عزت کے خاتمے کے ساتھ تعظیم اور تواضع ختم ہوجاتی ہے۔ اور انسان اس قدر ذلیل ہوتا ہے کہ اسے محفلوں میں جوتوں کے قریب بیٹھنا پڑتا ہے۔ غرض مفلسی ایک ایسی حقیقت ہے جو عزت کو خاک میں ملانے، محبت کا خاتمہ کرے اور انسان کو چوری کی طرف راغب کرنے کا کام انجام دیتی ہے۔ اور اسی مفلسی کی وجہ سے انسان بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ نظم کے آخری بند میں نظیرؔ اکبرآبادی کہتے ہیں کہ دنیا میں خدا کسی بادشاہ یا فقیر کو کبھی مفلسی میں گرفتار نہ کرے کیونکہ مفلسی ہی شریف انسان کو حقیر بناتی ہے۔ اس کی خرابیاں کہاں تک بیان کی جائیں بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ خدا ہر انسان کو مفلسی سے محفوظ رکھے کیوں کہ مفلسی انسان کے دل کو جلاتی ہے۔ نظیرؔ اپنی اس نظم کو دعائیہ کلمات پر ختم کرتے ہیں۔
نظیرؔ اکبرآبادی کی نظم مفلسی میں بے شمار محاورے، تشبیہات اور استعارے استعمال ہوئے ہیں۔ ان کی نظم میں تلمیحات کی بھی کمی نہیں ہے۔ وہ حضرت لقمان اور حضرت عیسیٰ کا تلمیحی اشارہ اپنی نظم میں استعمال کرتے ہیں۔ نظیرؔ نے نئی لفظیات کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کو بھی اس نظم میں جگہ دی ہے۔ چنانچہ بی بی کا نتھ، لڑکوں کے ہاتھ کے کپڑے، چھٹ کی کڑیاں، دروازے کی زنجیر، چولھا، توا، رکابی اور کھانے پینے کی تمام چیزیں اس نظم میں شامل ہیں۔ ان کی تشبیہات اور استعارے اس حقیقت کا اشارہ کرتے ہیں کہ نظیرؔ اکبرآبادی نے مفلسی کو ایک جرم کی حیثیت دی ہے چنانچہ وہ انسان کو مفلسی کے دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ مفلسی کی وجہ سے شرافت اور عزت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
جب آدمی کے حال پہ آتی ہےمفلسی
کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی
پیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مفلسی
بھوکا تمام رات سلاتی ہے مفلسی
یہ دکھ وہ جانے کہ جس پہ آتی ہے مفلسی
کہیے تو اب حکیم کی سب سے بڑی ہے شان
تعظیم جس کی کرتے ہیں نواب اور خان
مفلس ہوئے تو حضرت لقمان کیا ہیں یاں
عیسیٰ بھی ہو تو کوئی نہیں پوچھتا میاں
حکمت حکیم کی بھی ڈوباتی ہے مفلسی
جو اہل فضل عالم و فاضل کہاتے ہیں
مفلس ہوئے تو کلمہ تلک بھول جاتے ہیں
پوچھے کوئی الف تو اسے بے بتاتے ہیں
وہ جو غریب غربا کے لڑکے پڑھاتے ہیں
ان کی تو عمر بھر نہیں جاتی ہے مفلسی
…..