عالمی ادب
اولادِ نرینہ اور انکے معاشقے Sons And Lovers By (D…

اولادِ نرینہ اور انکے معاشقے
Sons And Lovers
By
(D.H.Lawrence (1885-1930
United Kingdom
ترجمہ، تلخیص و تحلیل نفسی: پروفیسر غلام محی الدین
کتاب کا نام: سنز اینڈ لوورز
پبلشر: پنگون بکس
صفحات: 496
ناول کا پس منظر
ناول ’اولاد نرینہ اور ان کے معاشقے‘ ڈی۔ ایچ۔لارنس نے 1908میں لکھنا شروع کیا اور 1911میں ختم کیا۔ یہ وہ عرصہ ہے جو اس نے اپنی ماں کے ساتھ اسکی شدید بیماری میں گزارا۔یہ کتاب اسکی سوانعمری شمار کی جاتی ہے۔ اس میں بنیادی کردار اسکی ماں، وہ اور اسکی دو محبو بائیں مریم اور شادی شدہ خاتون کلارا ہیں۔اسے ا پنی ماں کی ناکام خانگی زندگی کا بہت افسوس تھا۔اسکی ماں نے کسی کمزور لمحے میں ایسے شخص سے شادی کی جو اس کے لائق نہ تھا۔ علم، عقل، رتبے، نفاست میں اس سے کمتر تھا۔ لارنس نے اپنی زندگی میں جس طرح کے واقعات اپنے گھر میں دیکھے وہ اسکے لئے اذیت ناک تھے۔ اس کا ذکر اس نے ناول کے پہلے آدھے حصے میں بیان کیا ہے۔
اس ناول میں جس دور کا ذکر کیا گیا ہے وہ 1850سے 1930کے عرصے کاہے۔یہ دور برطانیہ کی صنعتی ترقی کا دور تھا۔ سخت، خطرناک، آلودہ،غیر محفوظ مقام، قلیل مزدوری اور فوائد کے فقدان کی بدولت مزدوروں میں بے چینی روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔اس کے متوازی خواتین کی بہتری کی تنظیمیں بھی مردوں کے مساوی حقوق کے لئے لئے سرگرم ہوگئی تھیں۔دوسری طرف سرمایہ دار بھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کیونکہ ان کی آمدن یقینی نہ تھی۔ مصنوعات اور کوئلے کی قیمتوں میں طلب اور رسد میں کمی بیشی کی بدولت حتمی اندازہ نہیں لگا پارہے تھے ۔ لیبراور انتظامیہ کے درمیان تنازعات روز بروز شدت اختیار کر رہے تھے۔تمام تر اونچ نیچ کے باوجودمالکان اور مزدوروں کی آمدن میں تفاوت روز بروز بڑھ رہا تھا۔ امیر امیر تر اور غریب کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے تھے۔لارنس کا باپ اس ناول میں والٹر موریل کے نام سے بیان کیا گیا ہے،وہ دس برس کی عمر سے ہی کام پر لگ گیا تھا۔ وہ ہفتے میں چھ دن بارہ بارہ گھنٹے کام کرتا تھا۔سال میں اسے دو چھٹیاں تنخواہ کے ساتھ ملتی تھیں۔ غربت سے نجات صرف تعلیم کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی تھی۔1890سے پہلے برطانیہ میں تعلیم نجی اوربہت مہنگی تھی۔ صرف امراء ہی اسکا خرچہ برداشت کر سکتے تھے۔ اسی سال قانون سازی کے تحت میونسپل کمیٹیوں کو اجازت دے دی گئی تھی کہ وہ تعلیمی ٹیکس لگا کر اخراجات کے لئے تعلیمی بورڈ کو رقم ادا کریں۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ پرائمری تک تعلیم مفت کر دی گئی جبکہ ا س سے اوپر کی تعلیم بہت مہنگی تھی لیکن اگر کوئی بچہ پرائمری سکول میں عمدہ کارکردگی دکھاتا تو اسے اگلے گریڈ کے لئے وظیفہ مل جاتا اور وہ مفت تعلیم حاصل کر سکتا تھا۔ اس کے باپ کے دور میں یہ سہولت موجود نہیں تھی اسلئے وہ ان پڑھ رہا اور اسے تعلیم کی اہمیت کا شعور حاصل نہ ہو سکا۔اس نے ان عوامل کو جو اسکی زندگی میں پیش آئے تحریری شکل میں بیان کرنے کا ارادہ کیا۔اسلئے تمام ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ ناول کا زیادہ تر حصہ اسکی سوانعمری پر مشتمل ہے۔اس ناول کو چھپوانے کے لئے اسے کافی مشکلات سہنا پڑیں۔
ناول کا خلاصہ
اس ناول میں ڈی۔ایچ۔ لارنس ایک ایسے خاندان کی سوانعمر ی بیان کرتا ہے جو بیسٹ وڈ محلے میں رہتاہے۔ یہ جگہ نوٹنگھم شائر قصبے میں ہے جو ایسٹ وڈ کاؤنٹی میں واقع ہے جہاں کوئلے کی کانیں ہیں اور کوئلہ نکالنے کے لئے کھدائی کا کام جاری ہے۔ ڈائنامئیٹ سے کوئلے کی چٹا نیں اڑائی جا تی ہیں۔ تہہ در تہہ سرنگیں، ٹیلے، گڑھے، کھائیاں اس طرح کھودی جاتی ہیں کہ کان کن ایک محدود جگہ پر رہ کر چٹانوں کو کاٹتے ہیں اور کوئلے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ پھر وہاں سے انہیں رہڑیوں میں لاد کر ریل کی پٹڑی تک پہنچاتے ہیں تا کہ وہاں سے ٹرین کی بوگھیوں میں لاد کر وسیع و عریض علاقوں تک روانہ کیا جا سکے۔ہر مزدور کوروزانہ ٹارگٹ دیا جاتا ہے۔ حالاتِ کار انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔گھٹاٹوپ اندھیرے میں انہیں کام کرنا پڑتا ہے۔آس پاس یا اپنے کام کی جگہ دیکھنے کے لئے انکے ہیٹ پر کا ن کنی والی مخصوص لالٹین لگائی گئی ہوتی ہے۔کوئلے کی کھدائی کرتے وقت بعض دفعہ زمین کے اندر کی گیس خارج ہوتی ہے جس سے کار کن دم گھٹ کر مر بھی جاتے ہیں۔ حادثات کی تعداد بہت زیادہ ہے ان کی روک تھام کا خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے۔ شدید حادثات کی صورت میں قریبی ہسپتال لے جایا جاتا ہے جہاں چند ہفتوں کی مزدوری کے بعد بغیر فوائد کے انہیں فارغ کر نے کا رواج ہے۔ اگر کوئی صحت یاب ہو جائے تو واپس ملازمت پر رکھ لیا جاتاہے۔ قسمت ظریفی یہ ہے کہ ان کانوں میں اس دور میں ایمبولینس کی سہولت بھی نہیں ہے۔ زخمی کو چھکڑے میں لاد کر چیونٹی کی رفتار سے ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔ قریب ترین ہسپتال بھی دس میل کی دوری پر ہے۔کھدائی زمین کے نیچے میلوں تک پھیلی ہوئی ہے جو کوئلہ نکالنے کے ساتھ ساتھ اور بھی گہری ہوتی جا رہی ہے۔ اسلئے کان کنوں کو نچلے مقامات تک لانے لے جانے کے لئے زنجیروں کی مدد سے ہاتھ سے اوپر نیچے کھینچنے کے لئے لفٹیں بنائی گئی ہیں۔کانوں میں مزدوری کے لئے دس سال کے بچوں کو زیادہ سے زیادہ دس شلنگ فی ہفتہ اجرت پر بھرتی کیاجاتا ہے جو زندگی بھروہاں حقیر مزدوری پر کام کرتے رہتے ہیں۔ بالغوں کو اجرت گھنٹوں کے حساب سے ملتی ہے۔ مزدوروں کے لئے کمپنی نے تنگ سے گھر تعمیر کئے ہیں جن کی شکل باہر سے قدرے خوبصورت ہے۔ہر گھر کے باہر ایک چھوٹا سا باغیچہ ہے اور گیٹ لگایا گیا ہے لیکن اندرونی جگہ بہت محدود ہے جس میں کچن، انگیٹھی، تھوڑی سی بیٹھنے کی جگہ اور اوپر والی منزل پر دو چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں۔ یہ گھربلاک کی صورت میں بنے ہوئے ہیں۔ ایک بلاک میں بارہ گھر ہیں اور ہر مقام پر چھ چھ کا سیٹ ہے۔ کرایہ ہر ہفتے کی مزدوری سے براہ راست کاٹ لیا جاتا ہے اور دیگر واجبات وصول کرنے کے بعد باقی ماندہ اجرت اسے دے دی جاتی ہے۔ مزدور اس میں سے گھر کے خرچہ کے لئے رقم بیوی کو دے دیتا ہے۔ گھر والوں کو علم نہیں ہوتا کہ اس نے اس ہفتے کتنی کمائی کی ہے۔ مزدوری اتنی کم ہے کہ بڑی تنگدستی سے گزارا ہوتا ہے۔
وادی کے نچلے حصے کا نام' دی باٹمز' ہے۔ اس میں کوئلے کی چٹانیں ہیں اور علاقہ جگہ جگہ کھدا ہوا ہے۔اسکے چند میل دور بروک سائڈ کا ہموار اور کھلا علاقہ ہے جس میں ہرے بھرے کھیت کھلیان اور جھاڑیوں سے بھری جگہ ہے۔ اسے گرین ویل لین کہتے ہیں جو آبشاروں، ندی نالوں، بید کے درختوں سے اٹی ہوئی ہے۔ اس سے ملحقہ’ہیل ر و‘ کا محلہ ہے۔ یہ تمام علاقے کان کنوں کی رہائش گاہوں کے طور پر کرائے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ان میں میونسپل کمیٹی کی مارکیٹ اور شاپنگ پلازہ بھی ہے جہاں ضرورت کی ہر شئے مل جاتی ہے۔ اس مال میں تفریحی مقامات، ڈانس کلب، شراب خانے بھی ہیں۔۔ کبھی کبھار وہاں واکس کے میلے اور تفریحی پروگرام بھی منعقد کئے جاتے ہیں جسے مکین بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ چونکہ یہ علاقے کوئلے کی کانوں سے زیادہ دور نہیں اسلئے سردیوں، گرمیوں، سورج،بادل، بارش، برفباری میں تمام مزدوراپنے بھاری سیفٹی بوٹوں، کان کنوں والی بھاری وردی اور مضبوط ہیلمٹ کے ساتھ مٹی،دھوڑ، دلدل میں پیدل لفٹوں تک پہنچتے اور اپنی اپنی جگہوں پر ڈیوٹیاں نبھا کر اسی طرح واپس آتے ہیں۔ کچھ مزدور دیگر مقامات سے بھی آتے ہیں جو تقریباً دو میل دور قریبی ریلوے سٹیشن جاکر ٹرین سے آتے جاتے ہیں۔
یہ قصہ والٹر موریل کے خاندان کا ہے جو بچپن سے ہی ایک کان کن مزدورہے۔ وہ ان پڑھ ہے۔ عقل و دانش سے پیدل ہے۔اسکی دلچسپی کان کنی اور ڈانس تک ہی محدود ہے۔کھانے پینے، شراب نوشی سے رغبت ہے۔ لیکن وہ ایک خوبصورت گبھرو جوان ہے جو ڈانس میں ماہر ہے، فارغ اوقات میں کمیونٹی میں ڈانس سکھاتا ہے۔ بہت چنچل ہے اور چھوٹی بڑی تقریبات کی جان شمار کیا جاتا ہے۔ تہواروں میں ہر کس و عام کو شمولیت پر آمادہ کر کے تہوار میں سماں باندھ دیتا ہے۔ کرسمس کے موقعے پر وہ کمیونٹی ہال میں لوگوں سے بھرے ہال میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے جہاں دور دور سے لوگ شرکت کرتے ہیں۔
مس گرٹروڈ کوپرڈ ایک نزدیکی علاقے سے کرسمس پارٹی دیکھنے کے لئے آئی ہے۔اسکا والد ایک انجینئر جارج کوپرڈ اور والدہ لنڈاپڑھی لکھی اور متمول خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اسکی ماں کی ذاتی جائیداد بھی ہے جو اس نے کرائے پر دے رکھی ہے۔ اسکا باپ سخت گیر ہے اور اسکی ماں سے بد سلوکی کرتا رہتا ہے۔گھر میں ہر دم افسردگی اور سنجیدگی کا سماں رہتا ہےجس وجہ سے وہ بھی کم گو ہو گئی ہے۔وہ تعلیم یافتہ خاندان کی پڑھی لکھی سلجھی ہوئی سنجیدہ خاتون ہے۔ وہ اپنے گھریلو تناؤ زدہ ماحول سے بیزار ہے۔آئے روز کے جھگڑوں کی وجہ سے وہ حساس اور خاموش طبع ہوگئی ہے۔ اسے اپنی مادہ صنف پسند نہیں کیونکہ خواتین اپنی مرضی کا کام نہیں کر سکتیں۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ مذہبی خدمات سر انجام دے لیکن خاتون ہونے کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکتی۔شادی سے پہلے اس کی جان پہنچان ایک پادری جان فیلڈ سے ہو جاتی ہے جس نے اسے بائیبل کا تحفہ دیااور وہ مقدس کتاب آج بھی اس کے پاس ہے۔
پارٹی کے ہلہ گلہ میں جوشیلے،حس مزاح رکھنے وا لے ستائیس سالہ والٹر موریل کی وجاہت، خوبصورتی ، چنچل پن اور ڈانس پر قدرت اسے متائثر کر تی ہے۔ وہ ایک ادنیٰ سماجی و معاشی حیثیت رکھنے والا مخصوص انگریز ہے۔ قدکاٹھ اچھا ہے۔۔ مردانہ وجاہت رکھتاہے۔ بے حد ہینڈسم ہے۔ ڈانس بہت عمدہ کرتا ہے جس وجہ سے وہ کمیونٹی تقریبات میں رنگ بھر دیتا ہے اور ان لمحات میں لوگ اسکے دلدادہ ہوجاتے ہیں۔ تماشائیوں میں گرٹروڈ منفرد ہے۔ یہ باوقار اور بہت خوبصورت خاتون اسکی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔ وہ نہایت انہماک سے اسکی چابکدستی اور مہارت کو سراہ رہی ہوتی ہے۔ اس کے حلیے سے وہ کان کنوں کے قبیلے سے نہیں لگتی۔ والٹر کا اس پر دل آجاتا ہے۔ وہ اس کی طرف کھنچا چلا آتا ہے اوراس سے ڈانس فلور پر آنے کی درخواست کرتا ہے۔وہ اسے منع کر دیتی ہے۔وہ اصرار کرتا ہے تووہ اسے بتاتی ہے کہ اسے ڈانس نہیں آتا لیکن والٹر اسے مجبور کر دیتا ہے۔دونوں کے مزاج سراپا مختلف ہوتے ہیں۔یہاں دو متضاد شخصیات ایک دوسرے کی طرف کھنچی چلی آتی ہیں،بات تیزی سے آگے بڑھتی ہے اور آناً فاناً شادی ہو جاتی ہے۔ مسز گرٹووڈ موریل بننے کے بعداسکے اپنے پہلے نام کی بجائے مسز موریل کے نام سے پکاری جانے لگتی ہے۔والٹر اس سے محبت کرتا ہے۔ یہ اس پر جان چھڑکتی ہے۔ کم وسائل کے باوجود اسکی زندگی بہترین گزرنے لگتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس نے اس دنیا میں ہی جنت پا لی ہے۔ یہ اس کی زندگی کا بہترین دور ہے۔شادی کے ساتویں ماہ بعد وہ بڑے شوق سے اپنے میاں کے شادی والے کوٹ کو برش کر رہی ہوتی ہے تو اس کی جیب سے ایک کاغذ نکلتا ہے۔ وہ اسے پڑھتی ہے تو وہ اس فرنیچر کا بل ہے جو اس نے شادی پرخر یدا تھا۔وہ رقم واجب الادا تھی۔رات کووالٹر گھر آیتا ہے تو وہ اس سے اس بل کے بارے میں پوچھتی ہے کہ دکاندار نے غلطی سے اسکی شادی کے فرنیچر کا بل دوبارہ بھیج دیا ہے۔اس کی رقم تو اسی وقت ادا کر دی گئی تھی۔اس پر والٹر نے جواب دیا کہاکہ اسے رقم ادا کرنے کاموقعہ نہیں ملا۔ بیوی نے کہا کہ اسے اپنے بنک کی پاس بک دے تاکہ وہ بنک سے رقم نکلوا کر ادائیگی کر دے۔جب اس نے اس کا اکاؤنٹ کھنگالا تو بینک بیلنس صفر ہے۔وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے پھر اسے شدید غصہ آتا ہے اسے کچھ نہیں کہتی اور اس بات کی تصدیق کے لئے کہ ماں نے شادی پر فرنیچر کی رقم دی تھی یا نہیں معلوم کرنے کے لئے ماں کے گھر چلی جاتی ہے۔ وہ اپنی ماں سے پوچھتی ہے کہ کیا اسکی شادی پر والٹر کو فرنیچر خریدنے کے پیسے نہیں دیے گئےتھے تو ماں جواب دیتی ہے کہ ہاں بالکل دئے گئے تھے۔ فرنیچر کی پوری رقم والٹر کو دے دی تھی۔ مسز والٹر موریل نے جب ماں کو بتایا کہ اس نے وہ رقم دکاندار کو ادا نہیں کی تو اسکی ماں کو تعجب بھی ہوا اور افسوس بھی۔اس نے مزید انکشاف کیا کہ والٹر نے اس سے نقد رقم بطور ادھار بھی لی تھی جو اس نے ابھی تک واپس نہیں کی۔ علاوہ شادی کے اخراجات کے لئے ہم نے اسے جو رقم دی تھی، مکمل ادائیگی کے بعدآدھی رقم بچ گئی تھی،وہ بھی اس نے واپس نہیں کی۔ اس کے ذمے اس کے پچھلے مکان کا کئی ماہ کاکرایہ بھی ابھی باقی ہے جسے ادا کرنے کی ذمہ داری ہم نے لی ہوئی ہے۔ ماں کی باتیں سن کر مسز موریل کا اپنے میاں کے بارے میں اعتماد چکنا چور ہو جاتا ہے۔وہ ان باتوں سے بے خبر ہوتی ہے۔اسکے فراڈ سن کر وہ اس سے بدظن ہوجاتی ہے۔ اپنے خاوند کو تو کچھ نہیں کہتی لیکن اس پر یقین ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے۔ وہ اس سے نفرت کرنے لگتی ہے۔ان کے تعلقات واجبی رہ جاتے ہیں۔نہایت ضروری معاملات پر گفتگو یا رات اکٹھے سونے تک محدود رہ جاتے ہیں۔شادی کے تیسرے کرسمس ایک بیٹا پیدا ہوتا ہے جس کا نام ولیم رکھا جاتا ہے۔اس دوران وہ بیمار پڑ جاتی ہے۔ والٹر اسکی بیماری کی پرواہ نہیں کرتا۔ اسکویکسر نظرانداز کرتا رہتا ہے۔اس علاقے کا پادری مسٹر ہیٹن اس کے پاس روز آ کر اسکا حوصلہ بڑھاتا ہے۔ ولیم کے بال سنہرے اور گھنگریالے ہیں۔ بہت خوبصورت ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد مسز موریل کی مصروفیا ت بدل جاتی ہیں۔ وہ اسکی پرورش میں دن رات ایک کر دیتی ہے۔ اسے والہانہ پیار کرتی ہے۔اسکے وجود میں گم ہو جاتی ہے۔اپنا ہوش کھو دیتی ہے۔ اس ومبالغہ آمیز حد تک چاہتی ہے۔ والٹر اس بات سے نالاں ہے اور غصے سے ولیم کے خوبصورت بال کاٹ کر خراب کر دیتا ہے جس سے اسکی اپنے میاں سے نفرت اور بڑھ جاتی ہے۔یہاں لارنس نے اس بات کو علامتی انداز میں فرائیڈ کے تصور اوڈیپس کمپلیکس کے رنگ میں پیش کیا ہے۔وہ اسے لاشعوری طور پر اپنے عاشق کے روپ میں لینے لگتی ہے اور حد سے زیادہ اس میں کھو جاتی ہے۔
اس کے غیر مناسب رویے کا شاید والٹر کا بھی ا تنا قصور نہیں کیونکہ اسکی تربیت ہی ایسی ہوئی ہے۔ اس نے اس طرح کے ماحول میں زندگی گزاری ہے۔وہ ان پڑھ اور اجڈشخص ہے، لکیر کا فقیر ہے، بور ہے،بے ایمان ہے،جواری اور شرابی ہے، اپنی فیملی کی بجائے اپنا خیال زیادہ رکھتا ہے۔۔دس سال کی عمر میں کان کن بن کر ایک مزدور کی حیثیت سے کام کر رہا ہے اور کان کن ہی رہنا چاہتا ہے۔ ترقی پانے کی کوئی خواہش نہیں۔ نوکری کوصرف پیٹ کے دوزخ کی آگ بھرنے کا ذریعہ ہی سمجھتا ہے۔ اپنے سپروائزر اور دیگر مزدوروں سے بدتمیزی کرتاہے اسلئے کام میں اسے کم گھنٹے دئے جاتے ہیں جس کی بدولت کم محنتانہ ملتاہے۔پو پھٹے جاگتا، اپنے کام کے کپڑے خود تیار کرتا، ناشتہ بنا تا، دوپہر کے لئے بیوی کا تیار کردہ کھانا ٹفن میں ڈالتا، دن بھر کوئلے کے زیر زمین گڑھوں پر کھدائی کرتا، کام کے دوران سپروائزر اور ساتھیوں سے لڑتاجھگڑتارہتا، چھٹی سے واپسی پر گھٹیا مے خانے سے پیگ چڑھاتااور رات گئے گھر آکر اکیلے کھانا کھاتا، بیوی کو برا بھلا کہتا اور اسکے ساتھ سوجاتا، اس کی روٹین ہے۔ا گر کسی کام میں دلچسپی ہے تو گھر کے کاٹھ کباڑ کی مرمت سے ہے اور اس دوران اپنی کان کنی کے دوران پیش آنے والے قصے ہیں۔ اسے اپنے پھٹے پرانے کپڑے مرمت کرنا بھی اچھے لگتے ہیں۔پورے خاندان سے بدزبانی اور جسمانی بدسلوکی کرتا ہے۔اس کو چوری کی بھی عادت ہے۔جب اسے شراب نوشی یا جوئے کے لئے پیسے کی تنگی ہوتی ہے تو وہ اپنی بیوی کے پرس سے پیسے چرا لیتا ہے جس پر وہ بہت کڑھتی ہے۔
ناکام شادی مسز موریل کو علیحدگی پسند بنا دیتی ہے۔وہ بنیادی طور پر رومانوی طبیعت کی مالکہ ہے۔ کتب بینی کی دلدادہ ہے، باغبانی کا شوق ہے اوراپنے باغیچے کو نت نئے رنگوں کے پھولوں سے سجاتی ہے، انہیں سونگھ کر نہال ہوتی ہے۔قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ ولیم کے لندن جانے کے بعد ایک نیا گھر کرائے پر لے لیا ہے جسے وہ اس لئے پسند کرتی ہے کہ اس کے باہر موٹے تنے والا سایہ دار برگد کا درخت ہے۔ جب وہ ہوا سے جھومتا ہے تو اس کی سرسراہٹ سن کر وہ جھوم اٹھتی ہے۔گھر کو صاف ستھرا رکھتی ہے، کم گو ہے، اڑوس پڑوس کی خواتین سے کم میل ملاقات رکھتی ہے کیونکہ ان کے مزاج اور دلچسپیاں اس سے بیر کھاتی ہیں۔ہمسائیاں گنوار ہیں، بات کرنے کا سلیقہ نہیں، فضول بحث و مباحثہ میں پڑی رہتی ہیں۔دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اسے یہ پتہ نہیں کہ ان میں کون قابل اعتبار ہے۔وہ دال روٹی کے چکر میں گھر بیٹھ کر گھٹنوں تک لمبی اونی جرابیں سیتی یا کاڑھتی رہتی ہیں۔ ہر ہفتے پھیری والا آتا ہے تو ایک یا دو شلنگ کے عوض بیچ دیتی ہیں اور اس طرز زندگی سے خوش ہیں۔ مسز موریل کو اسلئے یہ کام پسند نہیں کیونکہ مزدوری نہ ہونے کے برابر ہے۔کام کاج سے فراغت کے بعدخاوند کے آنے تک مطالعہ کرتی ہے۔
ولیم کی پیدائش کے دوسال بعد ایک بیٹی بھی پیدا ہوتی ہے جس کا نام عینی رکھا جاتا ہے۔ وہ بھی خوبصورت ہے۔پر سکون ہے۔ ماں کو تنگ نہیں کرتی اور اپنے بھائی ولیم کو پسند کرتی ہے۔ مسز موریل اپنا تمام وقت ان کے ساتھ گزارتی ہے اور بچوں کو اپنے خاوند کے قہر سے بچانے کے لئے بچوں کی ڈھال بنتی رہتی ہے۔
ولیم جب سات سال کا ہوتا ہے تو مسز موریل اکتیس برس کی ہو چکی ہوتی ہے۔ عینی اس وقت پانچ سال کی ہوتی ہے۔اس وقت وہ تیسرے بچے کی توقع کر رہی ہوتی ہے۔ واکس میں میلہ لگا ہوتاہے۔ والٹر اپنے ایک دوست جیری پرڈی جسے والٹر بڑا پسند کرتا ہے کیونکہ وہ اس پر پیسے خرچ کرتا ہے، کے ساتھ میلہ دیکھنے کا پروگرام بناتا ہے۔ جیری کی طوطے جیسی ناک اور لومڑی جیسا چہرہ ہے، اپنی بیوی بچوں کو گھر کا خرچہ نہیں دیتا۔ اس کے بچے زیادہ تر بھوکے رہتے ہیں۔اسکی بیوی بیمار ہو کر مر گئی ہے۔ وہ اپنی بیوی کی بیماری پر لا پرواہ رہا۔ مسز موریل جیری سے اسکے اپنے خاندان سے مکار رویے کی وجہ سے اتنی نفرت کرتی ہے کہ اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔وہ تحکم پسند،خود غرض اور لالچی ہے۔ اسکی پندرہ سالہ بیٹی اپنی دو چھوٹی بہنوں کی پرورش کر رہی ہے اور وہ اسکا ہاتھ نہیں بٹاتا۔ ولیم اور عینی بھی اس میلے پر جانے کے لئے پرجوش ہیں۔ والٹر علی الصبح میلے پر روانہ ہو جاتا ہے۔ولیم ناشتے کے بعد ضد کرتا ہے کہ اس کی ماں بھی اس کے ساتھ چلے لیکن مسز موریل عینی کو کسی کے پاس چھوڑ کر نہیں جا نا چاہتی۔ وہ ولیم سے وعدہ کرتی ہے کہ دوپہر کے کھانے کے بعد وہ میلے پر آجائے گی۔ ولیم دوپہر کے کھانے پر آ تا ہے اور کھانا کھا کر ماں سے آنے کا وعدہ لے کر چلا جاتا ہے۔ سہ پہرکو وہ پانچ سالہ عینی کو ساتھ لے کر باڑ کے ساتھ اوپرچڑھتی میلے کی طرف چل دیتی ہے۔ میلے میں طرح طرح کے کرتب دکھائے جا رہے ہوتے ہیں۔ وہ ولیم کو اس شیر کے پنجرے کے باہر دیکھتی ہے جس نے دو حبشیوں کو زخمی کیا تھا۔ ولیم اپنی ماں کو دیکھتا ہے تو بھاگتے ہوئے اس کے پاس آتا ہے۔ وہ ایک کھیل میں اپنی ماں کے لئے کئی انعام جیت چکا ہوتاہے۔ وہ بڑے فخرسے ماں کی طرف دیکھتا ہے اور انعام اس کی جھولی میں ڈال دیتا ہے۔مسز موریل اسے ایسے قبول کرتی ہے جیسے ایک محبوبہ اپنے عاشق کا تحفہ۔ جب وہ ولیم سے کہتی ہے کہ وہ واپس جا رہی ہے توولیم کا چہرہ مرجھا جاتا ہے۔وہ شام گئے واپس آتا ہے تو ماں اس سے اسکے باپ کا پوچھتی ہے کہ وہ کہاں ہے ؟ تو وہ جواب دیتا ہے کہ وہ آستانیں چڑھائے مے خانے میں نوکری کر رہا ہے تاکہ وہ اپنی شراب کیلئے پیسے جمع کر سکے۔
ولیم موریل اس گھر کا ابھرتا ہوا ستارہ ہے جو اپنی ماں کا جان و جگر تو ہے ہی لیکن وہ کمیونٹی میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہا ہے۔اس کے اند ر ترقی کرنے کی خواہش ہے جو وہ محنت اور ذہانت سے طے کر رہا ہے۔ اس کی ماں کے ساتھ انتہائی گہری جذباتی وابستگی ہے ۔
ایک روزجیری پرڈی اور والٹر آوارہ گردی کے لئے دس میل دورنوٹنگھم پیدل جاتے ہیں۔آدھی رات کے بعد والٹر نشے میں بد مست آتا ہے اور ان میں جھگڑا ہو جاتا ہے۔ والٹر اسے گھر سے باہر نکال کر دروازہ بند کر دیتا ہے۔ علاقہ سنسان پڑا ہے۔مکین گہری نیند کے مزے لے رہے ہیں۔اسے سمجھ نہیں آتی کہ وہ رات کے پچھلے پہرکیا کرے۔ اس وقت وہ کہیں نہیں جا سکتی۔وہ کافی دیر انتظار کرتی رہتی ہے۔ عجیب صورت حال ہے۔سوچ سوچ کر وہ فیصلہ کرتی ہے کہ گھر کے اندر جانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ وہ کھڑکی سے جھانکتی ہے تو دیکھتی ہے کہ والٹر اپنا سر میز پر رکھ کر بے سدھ سویا ہے۔ ا سے دنیا مافہیا کا کچھ ہوش نہیں۔وہ کھڑکی کھٹکھٹاتی ہے تو اس پر کوئی اثر نہیں ہوتاوہ بار بار کھڑکی کھٹکھٹانے لگتی ہے۔ اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بچے بھی گہری نیند سے نہیں جاگتے۔ وہ وقفے وقفے سے کھڑکی بجانے لگتی ہے۔ کافی دیر بعد والٹرکی آنکھ کھلتی ہے اور وہ دروازہ کھولتا ہے۔ یہ اندر داخل ہوتی ہے تو وہ بنا کچھ کہے سونے چلا جاتا ہے۔ مسز موریل معاملہ آگے نہیں بڑھاتی اور معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے اور عورت ہونے کی خاطر اسی طرح کام کرتی رہتی ہے۔
عینی کے دو سال بعد لڑکا پیدا ہوتا ہے جس کا نام وہ پال رکھتی ہے۔وہ اپنے تیسرے بچے پال کی پیدائش پر خوش نہیں ہے کیونکہ محد ود وسائل میں پرورش کی ذمہ داری سوا ہو جانی ہوتی ہے۔ وہ ایک نازک اندام خوبصورت لڑکا ہے جو اکثر بیمار رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی ماں کی توجہ کا خواہاں ہوتا ہے۔ولیم کی موجودگی میں ماں کے لئے اس کی اہمیت کم ہے۔ پال ماں کی دلجوئی کے لئے اسکی چھوٹی سے چھوٹی باتوں کو اہمیت دیتا ہے لیکن ولیم جیسا پیار اس کو مل نہیں پاتا۔ایک دفعہ والٹر اس کے پرس سے اپنی شراب کے لئے رقم چرا لیتا ہے۔ میاں بیوی میں شدید جھڑپ ہو جاتی ہے۔ والٹر غصے سے ضروری سامان رکھ کر بیگ اٹھا کر گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔مسز موریل اور بچے بہت پریشان ہو جاتے ہیں کہ اب ان کا کیا بنے گا۔گھر کی آمدنی کا واحد ذریعہ تو وہی تھا۔وہ دن بھر پریشان رہتی ہے۔ بے چینی دور کرنے کے لئے وہ باغیچے میں جاتی ہے تو بیرونی دروازے کے ایک کونے میں اسے وہ بیگ پڑا ہوا نظر آتا ہے تو اس کی جان میں جان آتی ہے۔
وہ پوری کوشش کرتی ہے کہ اسکے بچے مزدوروں کی صف سے باہر نکل آئیں اور اس میں کامیاب رہتی ہے۔ بچوں میں اسکی پہلی چاہت ولیم ہوتی ہے۔ولیم ایک منصوبے کے تحت ترقی کی منازل طے کررہاہے۔ وہ اس سے خوش ہوتی ہے۔ آخر تک اسکی محبوباؤں پرکڑی نظر رکھتی ہے ا ور کوشش کرتی ہے کہ وہ اسے ان سے بچا لے۔ اس کے بعد وہ اپنے دوسرے بیٹے پال موریل کی بیماری پر پوری دیکھ بھال کرتی ہے۔پال بھی اسکی چاہت کا بھرپور ساتھ دیتا ہے۔وہ اپنی ماں کا اس حد تک گرویدہ ہو جاتا ہے کہ کوئی لڑکی اسکے معیار پر پورا نہیں اترتی۔ وہ لاشعوری طور پرہر لڑکی میں اپنی ماں کی خصوصیات تلاش کرتا رہتا ہے اور بالآخر خلاؤں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔مسز موریل کو قطعاً اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ اسکی جذباتی زندگی کس حد تک پال کی زندگی پر اثر انداز ہورہی ہے۔
ولیم موریل ترتیب ولادت چار بچوں میں پہلے نمبر پر ہے۔ اپنی ماں کا تارا ہے۔ اسکی اہمیت اپنی ماں کی نظر میں سب سے زیادہ ہے۔ وہ لمحہ بہ لمحہ اسکی بہبود کا خیال رکھتی ہے۔ ولیم بھی اس سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔مسز موریل اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود ولیم اس کی ذات کا محور رہتا ہے۔ وہ بھی اپنی ماں سے بے حد مانوس ہے اور اسے اپنی آنکھوں سے ایک پل کے لئے بھی اوجھل نہیں ہونے دیتا۔ وہ باپ کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ یہاں لارنس نے ولیم میں بھی اوڈیپس کمپلیکس دکھایا ہے۔ ولیم ایک ہونہار بچہ ہے۔ اسکی ماں اسکی بہترین تربیت کرنا چاہتی ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ تعلیم دلوانا چاہتی ہے۔ اس زمانے میں تعلیم نہ تو عام تھی اور نہ ہی پرائمری کے بعد مفت۔ ان کے علاقے میں پرائمری سکول تھا۔ مڈل قریبی قصبے میں تھا جس میں اس علاقے کے غریب لوگوں کے بچے اگر اعلیٰ کارکردگی دکھاتے تو ہی ان کووظیفے پر تعلیم نصیب ہوتی تھی۔
ایک دفعہ والٹر کے دماغ میں سوزش ہو گئی تو وہ کام پر نہ جا سکا۔اس دوران اسکی بیوی اس کی خدمت گزاری کرتی رہی اور محلے والے اس دوران انکی مالی اور اناج وغیرہ بھیج کرمدد کرتے رہے۔یہ وہ مختصر عرصہ تھا جس میں اس نے والٹر سے کچھ لطیف جذبات محسوس کئے۔
پال کے سترہ ماہ بعد آرتھر پیدا ہو تا ہے۔ وہ والٹر کی طرف زیادہ متوجہ رہتا ہے۔ والٹر بھی اسکو پیار کرتا اور چومتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ والٹر کے فیملی سے بدسلوکی کی بنا پر وہ بھی اس سے متنفر ہونے لگتا ہے۔
ولیم بڑا ہو رہا ہے۔ اسکے اساتذ ہ اس سے بہت خوش ہیں۔ وہ لائق فائق ہے۔اس کے بارے میں اچھی امیدیں باندھی جا رہی ہیں۔ ولیم روز بروز جسمانی طور پر بھی مضبوط ہو رہا ہے۔مسز موریل کے پاس ایک پڑوسن مسز ایتھنی ولیم کی شکایت لے کر آتی ہے کہ ولیم نے اس کے بیٹے کی قمیص کا کالر پھاڑ دیا ہے۔ مسز موریل نے کہا کہ وہ دونوں ہم عمر ہیں، کھیل میں اتقاقیہ یہ حادثہ ہو گیا ہو گا۔ اینتھنی نے کہا کہ اگر وہ ہمجولی ہیں تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس کو مارے۔ اس پر مسز موریل نے ولیم سے پوچھا کہ ماجرا کیا ہے تو ولیم نے کہا کہ اس نے ویلی کو نہیں مارا۔ وہ کھیل رہے تھے، ویلی بھاگ رہا تھا اور وہ اس کو پکڑ رہاتھا۔ وہ جھکائی دینے لگا تو اس کی قمیص کا کالر اس کے ہاتھ میں آگیا۔ کالر پھٹا پرانا تھاا، وہ پہلے ہی پھٹا ہوا تھا۔مسز موریل نے مسز اینتھینی سے کہا کہ اس نے جان بوجھ کر نہیں کیا بلکہ یہ حادثہ تھا۔مسز اینتھنی نے کہا کہ اگر یہ حادثہ ہوتا تو در گزر کیا جا سکتا تھا لیکن اس نے یہ جان بوجھ کر کیا ہے۔اس پر مسز موریل نے کہا کہ میرا بیٹا جھوٹ نہیں بولتا۔ ولیم کو سرزنش کی کہ کچھ بھی ہو، آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔وہ محلے داروں سے بگاڑنا نہیں چاہتی تھی، اس نے سوچا کہ وہ اس کے گھر جا کر اس سے معافی مانگ لے گی اور معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔ مسز اینتھنی ناک پھلاتی ہوئی غصے سے چلی گئی۔والٹر کام سے واپس گھر آیا تو اس نے آتے ہی ولیم کا پوچھا۔
مسز موریل نے کہا کہ ولیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
والٹر نے کہا کہ اسی کو بتاؤں گا۔
کیا تمہیں مسز اینتھنی نے بھڑکایا ہے؟
میں اسے آج سبق سکھاؤں گا کہ کیسے ہاتھا پائی کی جاتی ہے؟
تم ایسا کچھ نہیں کرو گے، مسز موریل بولی۔
وہ غلطی کرے اور میں اسے چھوڑوں، ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا، والٹر نے کہا۔
اتنے میں ولیم باہر سے آیا اور ماں سے کہا کہ کیا اسے چائے مل سکتی ہے۔
والٹر غصے سے بولا کہ تجھے آج بہت کچھ کھانے کو ملے گا۔ولیم یہ سن کر گھبرا گیا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ ماجرا کیا ہے۔ موریل مارنے کے لئے ولیم کی طرف بڑھنے لگا تو مسز موریل نے اسے کہا کہ بھاگ جائے۔ مسز موریل سینہ تان کر درمیان میں کھڑی ہو گئی اور دھمکی دی کہ اگر تم آگے بڑھے تو پچھتاؤ گے۔ والٹر اسکے لہجے کی سختی دیکھ کر رک گیا اور سونے چلاگیا۔
مسز موریل انجمن بہبود خواتین کی رکن بن جاتی ہے جو خواتین کی بہتری کے لئے منصوبے بناتی ہے۔ اسکا ا یک دفتر قائم کر لیا جاتا ہے۔جب ولیم تیرہ سال کا ہوتا ہے تو اسے امداد باہمی کے دفتر میں کلرک رکھوا دیتی ہے۔وہ ایک محنتی،سمارٹ، دانشمند، بہادر اور بیباک لڑکا ہے۔وہ شام کو ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ سیکھنا شروع کر دیتا ہے۔اسکی محنت اور عمدہ کارکردگی کی وجہ سے اس کی ترقی ہو جاتی ہے اور وہ چھ شلنگ فی ہفتہ سے بارہ شلنگ فی ہفتہ لینے لگتا ہے ۔جبکہ اس عمر کے لڑکے دس سال کی عمر میں دس سینٹ سے شروع ہوتے اور سالہا سال تک دس سینٹ پر ہی کام کرتے رہتے ہیں۔ اس کی ماں اسکی تنخواہ میں ہر ہفتے دو سینٹ واپس کر دیتی ہے۔وہ شراب نہیں پیتا۔ وہ ڈانس اورمصوری کی کلاسوں میں داخلہ لے لیتا ہے اور کلب میں بلیرڈ اور کمیونٹی کی تمام کھیلوں میں حصہ لینے لگتا ہے۔خوبصورت تو ہے ہی، بہت جلد لڑکیوں میں بے حد مقبول ہو جاتا ہے۔وہ با سلیقہ ہے۔ اچھے کپڑے پہنتا ہے،لڑکیاں اس کے گھر آنے لگتی ہیں۔ جسے اسکی ماں پسند نہیں کرتی۔لڑکیاں خوشبو لگا کر اسے خطوط لکھتی ہیں اور وہ انہیں دیوار پر سجا دیتا ہے۔ ایک دن وہ بتاتا ہے کہ کمیونٹی میں ایک بہت بڑا ڈانس مقابلہ ہے اور اس نے کرائے کے لئے ایک سوٹ بک کرایا ہے۔ سوٹ آتا ہے تو اسکی ماں بغیر دیکھے رکھ لیتی ہے۔ ولیم گھر آکر پہن کر دیکھتا ہے تووہ اس پر خوب جچتا ہے۔ وہ ماں کو مقابلہ دیکھنے کی دعوت دیتا ہے لیکن وہ منع کردیتی ہے۔ وہ اسے باپ کے نقش قدم پر چلنے نہیں دینا چاہتی۔ اب وہ مزید ترقی کرتا ہے اور اسکی تنخواہ سولہ شلنگ فی ہفتہ ہو جاتی ہے۔ جب اسکی عمرانیس سال ہوتی ہے تواسکو نوٹنگھم میں نوکری کی پیشکش ہوتی ہے اورجب وہ نوکری چھوڑ نے کی اطلاع ماں کو دیتا ہے تو وہ حیران ہوجاتی ہے کہ اتنی اچھی نوکری پر کیوں لات مار رہاہے۔ اس پر وہ اسے اصل بات بتاتا ہے کہ اسے نوٹنگھم میں تیس سینٹ فی ہفتہ کی نوکری مل گئی ہے اور وہ وہاں سے روز گھر آ جا سکتا ہے تو ماں خوشی سے مان جاتی ہے۔ نوٹنگھم جا کر وہ نوکری کے ساتھ ساتھ فرانسیسی اور جرمن زبانیں سیکھ لیتا ہے۔ اسکی ماں ولیم کی ترقی اورآمدن سے خوش ہو تی ہے کیونکہ ایک تو وہ روز گھر آجاتا ہے اور دوسرا یہ کہ اسکی معقول آمدنی سے وہ اپنے دیگر تین بچوں کو بھی تعلیم دلوا سکتی ہے۔ وہ وہاں ایک سال کام کرتا ہے تو ماں کو اطلاع دیتا ہے کہ وہ یہ نوکری چھوڑ رہا ہے۔اسے لندن میں نوکری کی پیشکش ہوئی ہے جس میں اس کی تنخواہ ایک سو بیس پاؤنڈ سالانہ ہے اور مستقبل روشن ہے کیونکہ وہاں ترقی کے مواقع بہت وسیع ہیں۔وہ ماں کو وعدہ کرتا ہے کہ ہر سال اسے بیس پونڈ بھجوایا کرے گا۔اور وہ دولت میں کھیلنے لگے گی۔ اسکی ماں دل تھام کر بیٹھ جاتی ہے۔وہ اس سے جدائی کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اس پر افسردگی کا دورہ پڑتا ہے۔ وہ اسے خود سے جدا نہیں کرنا چاہتی۔ اسکے لئے وہی گھر کا مرد ہے لیکن بادل نخواستہ اسکی بہتری کی خاطر اسے اجازت دینا پڑتی ہے۔وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتی ہے کہ اس کے بغیر وہ کیسے ر ہ پائے گی۔وہ اسکی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا بلا کہے بڑی چاہت سے مکمل خیال رکھا کرتی رہی ہے۔ اسکے جانے کے بعد وہ یہ سب نہیں کر پائے گی۔اس رات ولیم نے لڑکیوں کے خط کھولے۔ وہ ایک خط کھولتا، اونچی آواز میں پڑھتا اور پھاڑ دیتا ۔ایک خط فرانسیسی میں بھی آیا ہے جوایک امیر زادی کا ہے اس میں اس نے لکھا ہے۔۔
میں نے تجھے معاف کر دیا ہے اور میں نے اپنی ماں کو تمہارے بارے میں بتایا ہے۔تم اپنے والدین کو اتوار کو لے کر ہمارے گھر آجاؤ۔ ابھی ماں نے تمہارے بارے میں ابو کو نہیں بتایا لیکن میں سنجیدگی سے سمجھتی ہوں کہ وہ اجاز ت دے دے گا۔ اس ملاقات کا حتمی نتیجہ کیا نکلتا ہے، بعد میں آگاہ کر دوں گی۔ جب ولیم یہ خط پڑھتا ہے تو خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ وہ اسے پسند کرتا ہے لیکن آج سے پہلے اس لڑکی نے ہمیشہ اس کے ساتھ سرد مہری دکھائی ہے۔ جس پر اس کی ماں اسے ٹوکتی ہے کہ یہ تمام لڑکیاں بہت عقلمند ہیں۔ انہیں تمہاری کامیابی کا یقین سو فیصدہے اسلئے وہ تمہارے پیچھے پڑگئی ہیں۔ اسکی ماں اس پروپوزل کو ردکر دیتی ہے اور قوی امید دلاتی ہے کہ یقیناً ایک دن اسے سچی محبت کرنے والی لڑکی ضرور ملے گی۔
وقت کے تقاضوں کے تحت اپنا گھر بار چھوڑ کر بیس سالہ ولیم کو لندن منتقل ہونا پڑتا ہے جہاں وہ تعلیمی اور پیشہ ورانہ ترقی کی سیڑھیاں کامیابی سے طے کرنے لگتا ہے۔ لندن میں اسکا تجربہ اور روابط روز بروزبڑھنے لگتے ہیں۔ وہ لاء فرم میں کام کر رہا ہوتاہے۔ اسکے وکلاء، بنکوں کے منیجروں سے مراسم بن جاتے ہیں۔ وہ کلبوں اورتھیٹروں میں جانا شروع کر دیتا ہے تو اشرافیہ کے ساتھ اسکے تعلقات قائم ہو جاتے ہیں۔ لندن جانے کے بعد جب وہ پہلی بار کرسمس پر آتا ہے تو گھر کے تمام افراد کے لئے ڈھیروں تحائف لاتا ہے۔ واپس لندن جانے کے بعد وہ پیشہ ورانہ طور پر مزید ترقی کرنے لگتا ہے۔ کلب کی ایک ڈانس پارٹی میں اسکی دوستی اعلیٰ خاندان کی ایک نہایت خوبصورت مگر اتھلی، سطحی اورمادیت پرست خاتون سے ہو جاتی ہے۔ وہ اس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے لگتا ہے۔ اسکی نئی سوسائٹی کافی خرچیلی ہے اسلئے وہ اپنی ماں کی مدد نہیں کر پاتا۔ وہ ماں کو مجبور کرتا ہے کی اسکی گرل فرینڈ لوئیس للی ڈینیز ویسٹرن کو قبول کرلے۔وہ اس پرپوری آمدن خرچ کر دیتا ہے۔ اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔وہ اس سے منگنی کر لیتا ہے۔اس کو پوری طرح آگاہی ہے کہ وہ اس کے ساتھ مخلص نہیں اور اسکے وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے لیکن وہ اس کے ساتھ اس لئے رہتا ہے کہ وہ اچھے خاندان سے ہے، بہت خوبصورت ہے، اسکے پیچھے لڑکوں کی لائن لگی رہتی ہے اور ان اشرافیہ کو چھوڑ کر اس نے اسے منتخب کیا ہے۔ وہ اس کو لے کر جب کلبوں میں جاتا ہے تو لوگ اسے رشک سے دیکھتے ہیں۔ ماں کے منع کرنے پر بھی وہ اس لئے اسے نہیں چھوڑسکتا کہ اسکی محبت میں وہ بہت آگے جا چکا ہے۔۔ وہ اسے دو بار اپنے خاندان سے ملوانے کے لئے لاتا ہے۔اس کے رویے سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس کے خاندان کو کمتر سمجھتی ہے۔ گھر میں اسے کوئی پسند نہیں کرتا۔ولیم کو یہ یقین ہے کہ اسکی منگیتر اسکے ساتھ مخلص نہیں لیکن اس کے مطابق اس کے تعلقات حد سے بہت آگے جا چکے ہوتے ہیں۔ جب وہ تئیس سال کا ہوتا ہے تو اسے شدید نمونیا ہو جاتا ہے اور مر جاتا ہے۔ا گر ان کی شادی ہو جاتی تو وہ بھی ایک ناکام شادی ہوتی۔ اسکی موت کے دو مہینوں بعد للی ولیم کو بھول کر نیا شکار تلاش کر لیتی ہے لیکن اسکی موت نے مسز موریل کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ وہ دنیا و مافیہا سے بیزار ہو گئی۔ اس وقت عینی اکیس، پال سولہ اور آرتھرتقریباً ساڑھے چودہ سال کا ہوتا ہے۔
ترتیب ولادت میں عینی دوسرے نمبر پر ہے۔ وہ ولیم سے دوسال چھوٹی ہے۔ وہ ماہی منڈا ٹائپ ہے۔ تمام وقت لڑکوں میں کھیلتی رہتی ہے۔ پڑھائی میں اچھی ہے۔ بھائیوں سے اچھے مراسم ہیں اور ان سے پیار کرتی ہے۔ اس نے بھی بڑے بھائی ولیم کی طرح تعلیمی کارکردگی اچھی دکھائی ہے اور وظیفے پر پڑھ رہی ہے۔ اسکا مقصدٹیچر بننا ہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ پال کے ساتھ دوستی ہے، پال کھیل میں ہمیشہ اسکا پیچھا کرتا ہے۔ اسکا ایک بوائے فرینڈ لیونارڈ ہے۔ وہ اس سے شادی کرکے دوسرے شہر منتقل ہو جاتی ہے۔۔
پال موریل والٹر اورگرٹرووڈ کا دوسرا بیٹا ہے۔ وہ ولیم سے سات سال اور عینی سے پانچ سال چھوٹا ہے۔ اسکا پہلے نام جوزف رکھا گیا لیکن ماں نے اسے پال کا نام دیا۔بچوں کی ترتیب ولادت میں اسکا تیسرا نمبر ہے۔منحنی، بھورے بال اور ذہین آنکھوں کا مالک ہے۔ قوت مشاہدہ بہت گہری ہے۔ ہر شئے کو غور سے دیکھ کر چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کو ذہن نشین کر لیتا ہے۔اپنی عمر سے زیادہ ہوشمند ہے۔باتوں کی گہرائی تک جلد پہنچ جاتا ہے۔اسکے ہونٹ دلکش ہیں اور بھیڑ میں منفرد لگتا ہے۔اسکا گلا ہر وقت خراب رہتا ہے۔نزلہ، زکام اور بخا ر کی شکایت عام رہتی ہے۔اسکی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسکی ماں اسکے باپ کی بجائے اسکے ساتھ سوئے۔چونکہ اس کی صحت اکثر خراب رہتی ہے اسلئے بعض اوقات جب وہ دیر تک سویا رہتا ہے تو اسکی ماں کو یہ ڈرلگا رہتا ہے کہ کہیں وہ مر تو نہیں گیا۔ ماں کی باتیں غور سے سن کر عمل کرتا ہے۔ولیم کے سامنے زیادہ کھل کر باتیں نہیں کرتا۔ ماں کا دم چھلا بنا رہتا ہے۔ اسکی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی ماں اس پر ویسی ہی توجہ دے جیسے وہ ولیم پر دیتی ہے۔اپنے سے پانچ سال بڑی بہن عینی کے بہت قریب ہے۔وہ بھی پال کو اپنا دوست سمجھتی ہے۔ وہ جب محلے کے لڑکوں کے ساتھ کھیلتی ہے تو یہ اس سے چپکا رہتا ہے۔ بذات خود تو کوئی نیا کھیل نہیں کھیلتا لیکن عینی جو کھیل کھیلتی، وہی اسکا کھیل بن جاتا ہے۔اسے اپنے باپ سے شدید نفرت ہے۔اسکی بد مستی اور ڈانٹ ڈپٹ اسے نا پسند ہے۔وہ غل غپاڑ ے سے گھر کا ماحول خراب کرتا رہتاہے۔ جب وہ رات گئے گھر نہ پہنچتا تو یہ دعا کرتا کہ خدا کرے وہ مر گیا ہو۔جب وہ ولیم کے مرنے کے بعدنئے مکان میں شفٹ ہوتے ہیں تو عینی، سب سے چھوٹے بھائی آرتھراور اسے برگد کے درخت سے خوف آنے لگتا ہے۔ اسکے جھومنے سے جو آواز نکلتی ہے وہ انہیں شیطانی آواز محسوس ہوتی ہے۔رات کو تو وہ آواز اسے خوابوں میں بھی ڈراتی ہے۔ عینی، آرتھر اور وہ مل کر کھیتوں میں کھمبیاں اور بلیو بیری چنتے اور اکٹھے کر کے ماں کو دیتے ہیں توانہیں بہت خوشی ہوتی ہے۔ کان کنی بڑاخطرناک پیشہ ہے۔اس میں مرنے یا زخمی ہونے کا ہر وقت اندیشہ رہتا ہے۔پال بڑی شدت سے خواہش کرتا ہے کہ اسکا باپ مر جائے تاکہ اسکی ماں سکھ کا سانس لے سکے لیکن اسکی ماں کی سوچ پال سے مختلف ہے کیونکہ اسکے مرنے کے بعد اسکی مالی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا۔
آرتھر جوں جوں بڑا ہو رہا ہے، گھر سے باغی ہو رہا ہے۔ وہ باپ کی عادات سے نالاں ہے اسلئے وہ باپ کو ناپسند کرنے لگتا ہے اور گھر سے دور بھاگنے لگتا ہے۔ اسکی صحبت صحیح نہیں۔ وہ ان لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگتا ہے جنہیں خاندان پسند نہیں کرتا۔ وہ جان بوجھ کر ایسے کام کرتا ہے جو اسکے خاندان کو پسند نہیں ہوتے۔ وہ ان خبروں کو جان بوجھ کر اپنے گھر والوں تک پہنچاتا ہے۔
آرتھر نے باغیانہ رویے اور عینی نے ٹیچنگ سکول کے بہانے گھر والوں سے الگ زندگی گزارنی شروع کر دی ہے۔ والٹر کا گھر میں ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ ولیم فوت ہو چکا ہے۔ اب گھر میں پال اور مسز موریل ہی رہ گئے ہیں اور ولیم کی موت کے بعد ماں اب تک سکتے میں ہے۔ اسے کوئی ہوش نہیں ہے۔ پال ماں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کی کو شش کرتا رہتا ہے لیکن کامیابی نہیں ہوتی۔ وہ پڑھائی میں نام کمارہا ہے۔اسکی ماں اسے ایک دفتر میں نوکر کراویتی ہے اور کچھ عرصہ بعد اسے شدید نمونیہ ہو جاتا ہے تو ماں سکتے سے باہر آتی ہے۔ وہ اپنے دوسرے بیٹے کو بھی کھونا نہیں چاہتی۔ اس کی تیمار داری میں دن رات ایک کر دیتی ہے اور اسے موت کے منہ سے نکال لاتی ہے۔اس کے بعد وہ ولیم کی جگہ لے لیتا ہے اور وہی پیار بٹورنے لگتا ہے جو کبھی ولیم کے حصے میں آتا تھا۔اب ماں اس کی اور وہ ماں کا ہے اور اس نئی دوستی میں میں مست ہے۔وہ آپس میں چھیڑ خوانی کرتے رہتے ہیں۔انکے تعلقات بظاہرپریمیوں کی طرح کے لگنے لگتے ہیں۔پال ماں کی کھل کر تعریف کرتا رہتا ہے۔ وہ اسکے ساتھ باہر گھومنے جاتی ہے تو وہ اسے گلاب کاپھول پیش کرتا ہے، اسکے حسن کی تعریف کرتا ہے، اسکے بالوں میں پھول لگاتاہے اور وہ نہ صرف محبوبانہ انداز سے اسے قبول کرتی ہے بلکہ دلربا ادائیں بھی دکھاتی ہے۔
جب ولیم نوٹنگھم چلا گیا تھا اور عینی بھی سکول کی غرض سے گھر سے چلی جاتی تھی تو پال کی یہ ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے کہ وہ اپنے باپ کی ہفتہ وار مزدوری مارکیٹ سے وصول کیا کرے۔ اسے کلرک کے طنزیہ رویہ سے خفت ہوتی ہے۔ ایک روز والٹر موریل گھر لوٹتا ہے تواسکی ٹانگ کی ہڈیاں چٹان گرنے سے ٹوٹ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر اسے ہسپتال لے جا نے کا مشورہ دیتا ہے لیکن وہ گھر آجاتا ہے۔ ذرائع آمدورفت محدود ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ ایمبولینس تک بھی نہیں ہے۔ نزدیک ترین ہسپتال دس میل دور نوٹنگھم میں ہے۔ بڑی مشکل سے اسے لے جایا جاتا ہے۔اور کئی ہفتے اسے تکلیف میں گزارنا پڑتے ہیں۔اس دوران محلے دار اور محکمے والے تھوڑی بہت مالی مدد کرتے ہیں۔صحت یاب ہو کر وہ دوبارہ کام پر چلا جاتا ہے۔ مسز موریل کی خواہش ہے کہ پال ولیم کی طرح اسے چھوڑ کر نہ چلا جائے اور اس کے ساتھ ہی رہے۔ وہ پیدائشی فنکار ہے۔ اسے مصوری کا شوق ہے۔ پال فطری اشیاء میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔
والٹر اپنے کام میں لاپرواہ ہے۔کئی بار بار اس کی شفٹ سے پہلے ہی اسے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔وہ کئی بار زخمی ہوا ہے۔ایک روزایک لڑکا آیا اور اطلاع دی کہ والٹر زخمی ہوگیا ہے اور اسے ہسپتال لے جایا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی اسکا بڑا حادثہ ہوا تھا جس میں اسکی ٹانگ کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں لیکن وہ گھر آگیا تھا اور یہاں سے گھر والے ہسپتال لے جایا گیا تھا لیکن اس بار اسے حادثے کے بعد سیدھا ہسپتال لے جایا گیا تو اسکا مطلب یہ تھا کہ اس دفعہ حادثے کی نوعیت بہت سنگین تھی۔ اسکی ٹانگ کی ہڈیاں کرچی کرچی ہو گئی تھیں اور وہ تکلیف سے بلبلا رہاتھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ یہ اذیت سہہ نہیں پائے گا۔ مسز موریل روزانہ ہسپتال جاتی رہی۔ رات کو گھر آ جاتی۔ولیم اور عینی دوسرے شہروں میں نوکری کر رہے تھے۔ ماں روزانہ صبح ہسپتال چلی جاتی اور رات گئے واپس آتی اسلئے اسکی عدم موجودگی میں گھر کی ذمہ داری پال نے سنبھال لی اور غیر رسمی طور پر سربراہ خانہ کے فرائض سر انجام دینے لگا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا باپ تندرست ہو کر گھر واپس آئے۔ باپ کی صحت یابی کے بعد اس نے نوکری حاصل کرنے کا سوچا۔ اسے مصوری کے علاوہ کچھ بھی نہیں آتا تھا اس سے روزی روٹی کا بندوبست نہیں ہو سکتا تھا۔اس وقت پال کی عمر تیرہ سال ہو گئی ہے۔ماں کی عدم موجودگی میں گھر کا سارا کام سنبھال لیتاہے۔ اب اسکی صحت اچھی ہو رہی ہے۔اور اس نے فرانسیسی زبان سیکھ لی ہے، یہ اسکا مثبت پہلو ہے جو اسے نوکری دلا سکتا ہے۔ وہ اس وصف کی بنا پر نوکری حاصل کرنے کی سوچتا ہے اور فرانسیسی زبان آنے کی وجہ سے اسے ایک فیکٹری میں نوکری مل جاتی ہے۔
نوٹنگھم میں مصنوعی اعضاء بنانے والی ایک فیکٹری جسکا نام جورڈنز ہے میں پال کی نوکری لگ جاتی ہے۔ ا سکا کام آرڈرز رجسٹر پر لکھ کر فیکٹری کے متعلقہ شعبوں تک پہنچانا، ہر شعبے کی کارکردگی پر نظر رکھنا ہے۔ تیار شدہ اعضاء کو تفصیلاً جانچنا کہ وہ صحیح طور پر بنے ہیں اور انہیں پیک کرکے ایڈریس وغیرہ لکھ کرڈسپیچر کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ ا سکی نوکری صبح ساڑھے آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک ہوتی ہے۔ اسکی ٹرین صبح سوا سات بجے نوٹنگھم کے لئے چھوٹتی ہے جسکے لئے اسے صبح چھ بجے اٹھنا پڑتا ہے۔ وہ کام پر وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے پہنچ جاتا ہے جبکہ واپسی کی ٹرین کے لئے اسے تین گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ درمیان میں ایک گھنٹے کی لنچ بریک ہوتی ہے۔ان وقفوں میں وہ اپنی مصوری کا شوق پورا کرتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ مصوری اور ڈیزائن کی تربیت بھی حاصل کرتا رہتا ہے۔اس فیکٹری میں کئی درجن لڑکیاں بھی کام کرتی ہیں اسکے تمام ملازمین سے مراسم اچھے ہیں سوائے ایک کاریگر کے جسکا نام مسٹر بیکسٹر ڈاؤس ہے۔ وہ سڑیل ہے اور ہر وقت ہر ایک سے بلا وجہ بھڑنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ اسکی بیوی کلارا اسے چھوڑ کر چلی گئی ہے۔وہ بھی اس فیکٹری میں کام کیاکرتی تھی۔ جب اسکی بیکسڑڈاؤس سے شادی ہوئی تو اس نے نوکری چھوڑ دی۔
ایک دن اس کی ماں اسے ویلی فارم ہاؤس ایک رسمی ملاقات کے لئے لے جاتی ہے جہاں ایک زمیندار فیملی رہتی ہے۔ اس خاندان میں مسٹر اینڈ مسز لیور، سب سے بڑا بھائی ماریس، بڑا بھائی جیفری،مریم کی بڑی بہن اگاتھا، مریم،بارہ سا لہ بھائی ایڈگر،اور پانچ سالہ بھائی ہر برٹ شامل ہیں۔اگاتھا سکول ٹیچر ہے اور انکے ساتھ نہیں رہتی۔ پال کو فارم ہاؤس بہت اچھا لگتا ہے۔ ہر طرف ہریالی، باغات، پھلوں سے لدے پھندے درخت،غلے کے گودام،گھوڑے، چرند پرند اور کھلی کھلی ہموار جگہ اسکا دل موہ لیتی ہیں۔ ویلی فارم اسے جنت سے کم نہیں لگتا۔یہ جگہ اس کے بالکل برعکس ہے جس میں وہ رہتا ہے جہاں کیچڑ، ٹنوں کے حساب گرد و غبار، کھڈے، کوئلے کی کالک، کوئلے کی آمیز والی گدلی ہوا اور دیگر غیر صحت مند عناصر پائے جاتے ہیں۔ اسکی دوستی تمام اہل خانہ سے ہو جاتی ہے، مسز لیور، ایڈگر اور مریم ان میں نمایاں ہیں۔
مریم کی عمر چودہ سال ہے۔ وہ ایک خوبصورت لڑکی ہے۔وہ اعلیٰ اقدار کی مالک ہے۔کٹر مذہبی ہے۔روحانی اقدار کے حصول میں مصروف رہتی ہے۔وہ جنسی خیالات سے خوفزدہ رہتی ہے۔ جنس کو وہ شیطانی خواہشات قرار دیتی ہے اور ایسی باتوں سے کوسوں دور بھاگتی ہے۔ وہ رومان پرور ہے اور عملی طور پر شرمیلی ہے۔وہ سہل پسند زندگی پسند کرتی ہے۔ اسے فارم کی زندگی پسند نہیں کیونکہ وہاں کی زندگی بہت سخت ہے۔وہ زندگی کے نئے نئے تجربات سے گھبراتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ نئی زندگی کا مقابلہ نہیں کر پائے گی۔ پال کے گن دیکھ کر وہ اس سے متاثر ہوجاتی ہے۔اسکے ساتھ دوستی میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی پھولوں سے پیار کرتا ہے، پرندوں کے گھونسلوں میں جھانکنا ان کا محبوب مشغلہ بن جاتا ہے۔ پھولوں، فطری نظاروں اور مصوری میں دلچسپی سے وہ ایک دوسرے کے اور قریب آ جاتے ہیں۔وہ اسکی انسانی منظر کشی، فطری نظاروں اور دیگر عکاسی کا ناقدانہ انداز میں جائزہ لیتی ہے۔ اسکی آنکھوں سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ اس کے تصویر کے بارے میں تائثرات کیسے ہیں۔ بعض دفعہ اس کو بہتر کرنے کے مشورے دیتی ہے۔ اس کا ڈر دور کرنے کے لئے وہ کبھی کبھار درخت پر رسی باندھ کر جھولا جھلاتاسے کبھی کبھار مریم کو خود پر غصہ بھی آتا ہے کہ وہ عام لڑکیوں جیسی عملی کیوں نہیں۔
پال کے ساتھ بہت منسلک ہے۔ کبھی کبھا ر پال کی ماں، مریم اور اسکے بھائی مل کر لمبی سیر کا پروگرام بناتے ہیں۔کبھی کسی قلعے اور کبھی تاریخی مقامات کی سیرکرنے چلے جاتے ہیں تو اس دوران مریم ہر لمحے اس کے قریب رہنا پسند کرتی ہے۔وہ اور پال بچپن سے ایک دوسرے کے دوست ہیں جو آخر تک رہتے ہیں۔جوانی میں وہ پال سے محبت کرنے لگتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ زیادہ وقت گزارتی ہے۔محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ پال کی خوشی کی خاطر جسمانی ضروریات کی تسکین بھی بادل نخواستہ پوری کرتی رہتی ہے۔ وہ پال کی مشکور ہے کہ اس نے جسمانی اور فطری دنیا کو سمجھنے میں مدد دی۔پال جب اس کی زندگی میں نہیں آیا تھا تو اسکا دنیا سے ناطہ ٹوٹا ہوا تھا اور وہ صرف روحانیت تک ہی محدود تھی۔پال اسکی تعلیمی ترقی میں مدد کرتا ہے۔اسے فرانسیسی زبان، الجبرا،حساب دانی اور لٹریچر میں رہنمائی کرتاہے۔ اسکے علاوہ وہ باقاعدگی سے چرچ جاتی ہے۔ پال کی ماں مریم کے ساتھ اس کے تعلقات کو پسند نہیں کرتی۔وہ اسے جونک سمجھتی ہے جو پال کی مردانگی کو چوس رہی ہے۔ اسے پورا خدشہ ہے کہ مریم پال کو اس سے چھین لے گی۔
ویلی فارم ہاؤس پال کے گھر کے نواحی گاؤں میں واقع ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ مریم کا خاندان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ان میں ایک دوسرے کے لئے محبت پائی جاتی ہے۔ دکھ سکھ میں ساتھ دیا جاتا ہے جو اس کمیونٹی کے برعکس ہے جس میں پال رہتا ہے۔اس کے علاوہ فطری لحاظ سے بھی ان کے علاقے مختلف ہیں۔ پال کا علاقہ کوئلے کی کانوں کی وجہ سے نا ہموار ہے، جگہ جگہ کھڈے ہیں جبکہ مریم کے فارم ہاؤس میں چوپائے، درخت، کھیت کھلیان، باغات، دریا اور دیگر دلچسپ مقامات ہیں۔فارم کی زندگی سخت ہوتی ہے اسلئے وہ اس سے کتراتی ہے۔ اسکے بھائی اس کے اس رویے کو غرور سمجھتے ہیں جبکہ دراصل وہ ان خارجی حقائق کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتی۔پال کے ساتھ وقت گزارنا اسے اچھا لگتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ پال کی چاہت میں اتنی مگن ہو جاتی ہے کہ وہ اسکے سامنے ہمت ہار دیتی ہے۔ اسے آس ہوتی ہے کہ وہ اس سے شادی کر لے گا۔خوب صورت نظاروں، پھولوں سے جنون کی حد تک چاہنے والی،دانشور، راست باز، مذہبی اور علوم و فنون کو سمجھنے کی قدرت رکھنے والی خاتون ہے۔ اسکے کان پال سے یہ سننے کو بیتاب رہتے ہیں کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن پال اپنی ماں سے محبت اور اعتماد میں فقدان کی وجہ سے ایسا کر نہیں پاتا۔
پال ایک آرٹ گیلری میں ایک نمائش دیکھنے کے لئے جاتا ہے تو مریم اپنی ایک دوست کے ساتھ نمائش دیکھنے آئی ہوتی ہے۔اس سے وہ ملاقات کرواتی ہے۔ اس کا نام کلارا ڈاؤس ہے جو پال کی فیکٹری میں کام کرنے والے سڑیل شخص بیکسٹر ڈاؤس کی بیوی ہے اور اس سے علیحدگی کر چکی ہے۔ اسے دیکھ کر وہ اسکی خوبصورتی سے متائثر ہوتا ہے۔ وہ مریم سے ملنے ویلی فارم آتی رہتی ہے۔
مریم خواہش ظاہر کرتی ہے کہ وہ دیگر علوم بھی سیکھے۔ پال اسے فرانسیسی، ادب، ریاضی، حساب، جیومیٹری اور الجبرا سکھانے لگتا ہے۔ وہ بڑے شوق سے پڑھنا شروع کر دیتی ہے۔اگرچہ وہ ایک دوسرے کے قریبی دوست ہیں لیکن اپنی ماں کی جذباتی مداخلت کے باعث ان میں پائیدار بین الذاتی تعلقات قائم کرنے اور جذباتی فیصلے کرنے میں ناکامی ہوتی ہے۔ پال کی شخصیت نکھرنے نہیں پاتی اور وہ اپنی ماں کی محبت کے جال میں پھنس جاتا ہے اور اس سے نکل نہیں پا تا۔ ماں کے احکامات اور خواہشات کی بدولت کسی دوسرے کو لاشعوری طور پر مستقل طور پر اپنی محبت میں شریک نہیں کر پاتا۔ اسے بہت جلد معلوم ہو جاتا ہے کہ اسکی ماں اسکی بہترین دوست اور محبوبہ کو پسند نہیں کرتی۔
ایک دفعہ کلارا مریم سے ملنے فارم ہاؤس آئی ہوتی ہے تو اس کا پال سے باقاعدہ میل ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔مریم اور پال کی دوستی کی بنیاد علوم و فنون میں بصیرت، ذہانت اور اخلاص ہے لیکن کلارا میں جو شئے نمایاں ہے وہ جنسی کشش ہے۔ اسکی ماں دوسری محبوبہ کلارا کو قبول کرلیتی ہے۔ اسکی وجہ کلارا کاشادی شدہ ہونا ہے۔ وہ اپنے میاں سے طلاق نہیں لینا چاہتی اسلئے اسکی ماں اسے برداشت کرتی رہتی ہے۔
ولیم کی کمی پوری کرنے اور اپنی ماں کی افسردگی دور کرنے کے لئے پال اپنے تئیں پوری کوشش کرتا ہے۔ بہت زیادہ محنت اور غیرصحت مند حالات کار کی بدولت اسے نمونیا ہو جاتا ہے۔ اسکا بھائی ولیم پہلے ہی اس بیماری کے ہاتھوں جان کی بازی ہار چکا ہوتا ہے۔اسکی ماں اسکی بیماری کا سن کر یکدم ہوش میں آ جاتی ہے۔ ولیم نمونیا سے اسلئے مرا تھا کہ اسکی موزوں دیکھ بھال نہیں ہو سکی تھی۔وہ پال کی بیماری کا بھرپور مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔اس زمانے میں وہ لا علاج مرض ہے۔ غیر معمولی احتیاط اور دیکھ بھال سے کبھی کوئی بچ بھی جاتا ہے۔ وہ پال کو موت سے چھیننا چاہتی ہے۔ اسنے اسکے علاج معالجے میں دن رات ایک کر دیا۔ ایک محبوب کو تو وہ کھو چکی ہے، اب دوسرے کو بھی نہیں گنوانا چاہتی۔اس پر امڈ امڈ کر پیار آرہا ہے۔ پال کی بیماری اس کو راس آگئی ہے۔ اسکی دلی مراد پوری ہوجاتی ہے۔اب اسکی ماں پوری طرح اس سے پیار کرنے لگ گئی ہے۔اگرچہ یہ پیار ولیم کی طرح لاشعوری حد تک ہی ہوا ہے۔ معاشرتی اور مذہبی بندھن کی وجہ سے حقیقی جنسی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ تعلق نفسیاتی طور پر ہوا ہے۔
پال اپنی ماں اور اسکی ماں اس سے اوڈیپس کمپلیکس کے تحت لاشعوری طور پر جنسی تعلق قائم کئے ہوئے ہیں۔ پال اور ماں کا یہ نفسیاتی تعلق ولیم اور ماں کے تعلق کی طرح کا قائم ہو گیا ہے۔وہ بھی مخمصے میں تمام عمر مبتلا رہا اور یہی کیفیت اب پال کی بھی ہے۔ جس سے وہ اپنی ماں کے سحر سے باہر نہیں نکل سکتا اس لئےوہ کسی کے ساتھ بھی پائیدار تعلق قائم نہیں کر سکتا۔وہ بیک وقت ایک سے زیادہ معاشقوں میں مبتلا رہتا ہے۔ ایک وقت دو کشتیوں میں سوا رہتا ہے۔ماں کے خلاف کوئی بات کرنے کا سوچ نہیں سکتا تھا۔ اسکی ماں مریم کے ساتھ شادی سے منع کر دیتی ہے۔ وہ کئی بار اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ اس سے ترک تعلق کر لے۔ ایسا ہوتا بھی ہے لیکن پھر پال سے رہا نہیں جاتا اور کبھی لائبریری، کبھی کتب کی ادلا بدلی اور کبھی اتوار کو چرچ میں ملاقات ہو جاتی ہے۔
جب پال مریم سے نہیں مل رہا ہوتا وہ کلارا سے معاشقہ لڑا رہا ہوتا ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر خواہ وہ کام کاج ہو یا تفریح، وہ مصوری کرتا رہتا ہے۔ اسکی اس میں قدر کی جانے لگی ہے۔ اسکی ایک تصویر کو پہلا انعام ملا ہے۔ اسکی ایک تصویر فروخت بھی ہو گئی ہےاور ایک کمپنی سے معاہدہ بھی ہو گیا ہے۔ وہ ڈیزائن بنا کر دیتا ہے اور وہ کپڑوں پر چھاپ دیتے ہیں۔
کلارا کے ساتھ اسکے تعلقات گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ اس کے گھر تک جا پہنچتا ہے۔ کلارا کی ماں اور وہ کپڑے کی لیس بنا کر گزر بسر کر رہی ہو تی ہیں۔ وہ عسرت کی زندگی گزار رہی ہیں۔ کلارا رومانوی لحاظ سے مریم کے برعکس ہے۔وہ جنسی لحاظ سے جوشیلی ہے۔ پال کھلے کھیتوں، سرسبز میدانوں، جنگلوں، دریا کے کناروں، ساحلوں، چاند کی روشنی میں اس سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے اور کلارا اسکا بھرپور ساتھ دیتی ہے۔جنس کی حد تک تو وہ مجموعی طور مطمئن ہے لیکن اس میں علوم و فنون، ادب، تعلیم اور دانشمندی کا فقدان ہے۔
پال کلارا کو جورڈنز میں ملازمت دلانے کی پیشکش کرتا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اس نے وہ ملازمت شادی کے بعد چھوڑ دی تھی، اب اسے نہیں مل سکتی۔ تاہم وہ اسے دوبارہ ملازمت دلوا دیتا ہے۔ اب وہ اسکے ساتھ سارا دن رہنے لگتا ہے۔ دوپہر کھانے کے وقفے میں بھی وہ پہاڑوں، دریا کے کناروں، ساحل سمندر اور جنگل وغیرہ میں مستیاں کرتے ہیں۔ کلارا انجمن نسواں کی سرگرم رکن ہے۔
ایک دن پال نے کلارا کو اتوارکے روز اپنے گھر بلایا۔ مریم جمعرات کی شام
لائبریری سے کتابیں لینے کے لئے آیا کرتی تھی۔ پال بھی اس دن کتب لینے کے لئے گیا تو اس نے مریم کو بتایا کہ اتوار کو کلارا اس کے گھر آ رہی ہے، وہ بھی آ جائے۔ اتوار کو وہ اس کا استقبال کرنے کے لئے سٹیشن گیا اور اسے لے کر گھر پہنچا۔ اس کی ماں کلارا کو دیکھ کر خوشدلی سے ملی۔ ماں سے اسکے بارے میں پوچھا کہ وہ کیسی ہے تو اس نے کہا اچھی ہے۔ اس نے اس کے ساتھ شادی کے لئے ہاں کر دی۔ اسکی ہاں کرنے کی وجہ یہ تھی کہ کلارا ایک تو پال سے چھ سا ل بڑی تھی اور دوسرا یہ کہ اس کی طلاق نہیں ہوئی تھی اور نہ وہ ہی ڈاؤس سے طلاق حاصل کرنا چاہتی تھی۔ دوسرے معنوں میں انکی شادی کا کوئی چانس نہ تھا۔ اتنے میں مریم ان کے گھر آ جاتی ہے۔وہ دیکھتی ہے کہ وہ سب خوش باش ہیں۔ وہ دراصل یہ جاننا چاہ رہی تھی کہ کیا مسز موریل کلارا کو قبول کرتی ہے یا نہیں۔
مریم کو دیکھ کر مسز موریل ہکا بکا رہ جاتی ہے اور ناگواری کے تاثرات ظاہر کرتی ہے۔ وہ پال سے پوچھتی ہے کہ مریم کیوں آئی ہے تو اس نے جواب دیاکہ اس نے مدعو کیا تھا۔ اور مریم نے پال سے کوئی کتاب مانگی اور لے کر چرچ چلی گئی۔ کچھ دیر بعد پال اور کلارا بھی عبادت کے لئے چرچ چلے گئے۔ مریم نے دیکھا کہ پال اسے بالکل اسی طرح بائیبل کا وہ صفحہ نکال کر دے رہا تھا جیسے وہ کبھی اسے دیا کرتا تھا۔ پال نے کلارا کو رات رکنے کی دعوت دی لیکن وہ نہ مانی۔
ایک مقابلے میں پال کو اول انعام کا حقدار قرار دیاجاتا ہے۔ وہ ماں سے خواہش کرتا ہے کہ وہ سوٹ پہن کر انعام وصول کرے۔ اسکی ماں اسے ولیم کا پڑا ہوا سوٹ فٹ کرادیتی ہے۔ انعام حاصل کرنے سے ایک دن پہلے وہ اسی سوٹ میں کلارا کے ساتھ تھیٹر جاتا ہے۔ کلارا بھی شاندار سیکسی لباس میں ملبوس ہوتی ہے۔وہاں اسکے دوست بھی پہنچے ہوتے ہیں۔ اُس رات وہ ڈرامے سے کافی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پال رات کو اپنی ٹرین مس کر دیتا ہے تو کلارا اسے اپنے گھر لے جاتی ہے۔ اسکی ماں پال کی غیر متوقع آمدپر حیران ہوتی ہے۔ اسے اندر آنے کا بولتی ہے اور سونے کا انتظام اس طرح کرتی ہے کہ وہ اس رات جنس نہیں کر سکتے۔
کلارا کے خاوند مسٹربکسٹر ڈاؤس کو پال اوراسکی بیوی کلارا کے تھیٹر جانے والی بات کی خبر ہو جاتی ہے تو وہ غصے سے کھول اٹھتا ہے۔چونکہ وہ بھی اسی فیکٹری میں کام کرتا ہے اور انکا ایک دوسرے سے سامنا ہوتا رہتا ہے۔ سیڑھیاں اترتے ہوئے اتفاقاً پال کاکندھا بیکسٹر کو چھو لیتا ہے تو وہ اسے روک کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ پال اس سے نادانستہ غلطی کی معافی مانگتا ہے لیکن بیکسٹر اسے اونچی اونچی گالیاں نکالنے لگتا ہے۔شور سن کر منیجر بھی یہ معلوم کرنے کے لئے آجاتا ہے۔ منیجر اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے تو ڈاؤسن اسے بھی گالیاں اور دھکا دیتے ہوئے چلا جاتا ہے۔ منیجر اسے نوکری سے نکال دیتا ہے اور اسکے خلاف جسمانی تشدد کاپولیس میں مقدمہ درج کروا دیتا ہے۔ پال عینی گواہ ہوتا ہے۔ وہ بات کو طول نہیں دینا چاہتا۔جب پولیس پال سے تفتیش کرتی ہے تو وہ اسکے خلاف بیان نہیں دیتا اور مقدمہ خارج ہو جاتا ہے۔
کلارا اور اسکی ماں اب نوٹنگھم منتقل ہو جاتی ہیں۔ کافی دنوں بعدایک شام
پال کلارا کو اس کے گھر چھوڑنے جا رہا ہوتا ہے تو ان کے سامنے سے ایک شخص عجیب و غریب حلیے میں گزرتا ہے۔ پال اسے دیکھ کر ہنس پڑتا ہے۔ کلارا آگے جا کر کہتی ہے کہ وہ ڈاؤسن ہے۔ پال اسے چھوڑ کر سٹیشن جانے کے لئے واپس آرہا ہوتا ہے۔ یکدم کوئی شخص جھاڑیوں سے نکلتا ہے اور اس پر حملہ کر دیتا ہے اور کسی ٹھوس شئے سے اسکی خوب پٹائی کرتا ہے۔ پال کا چہرہ لہو لہان ہو جاتا ہے۔چوٹیں گہری آتی ہیں اور وہ کئی روز تک نوکری پر نہیں جا سکتا۔ وہ اس حادثے کے بارے میں یہ بتایا کہ زخم سائیکل سے گر نے کی وجہ سے زخم آئے ہیں۔
پال یہ سمجھتا ہے کہ مریم اسے استعمال کر رہی ہے۔پال کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ مریم ایسی چیزوں سے محبت کرتی ہے جو کہ اس کے لئے فائدہ مند ہوں اور یہ کہ وہ اس کے ساتھ اس لئے ہے کیونکہ اس کے بغیر اسکی نہ تو تعلیمی استعداد بڑھ سکتی ہے نہ ذہانت میں اضافہ۔ جبکہ مریم اس کے ساتھ پوری طرح مخلص ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ پال اپنے خاندان کیخلاف کھڑا ہو کر اس کا ساتھ دے۔ وہ سمجھتی ہے کہ وہ کمزور ہے، قوت فیصلہ میں کمی ہے اسلئے ایسا نہیں کر سکتا۔
پال کے سترہ ماہ بعد آرتھر پیدا ہوا تھا۔ وہ بھی ذہین ہے۔پڑھائی میں اچھا ہے۔ اپنے بھائی بہنوں کی طرح وظیفہ حاصل کر کے پڑھائی مکمل کر لیتا ہے۔اس کے بعد کان کنی کے بجلی کے شعبے میں نوکری کر لیتا ہے۔وہ گھر سے باہر رہنا پسند کرتا ہے۔نظم و ضبط اسے بالکل پسند نہیں۔ نت نئے بکھیڑے پا ل لیتا ہے۔لڑائی جھگڑے کرتا رہتاہے۔متلون مزاج ہے۔ایک دن مسز موریل کو آرتھر کا خط ملتا ہے جس میں اس نے اطلاع دی ہوتی ہے کہ طبع فن کے لئے فوج میں ٹیسٹ دیاہے اور تمام مراحل طے کرنے کے بعد بطور سپاہی بھرتی کرلیا گیا ہے۔ اس کی قطعی مرضی فوج میں جانے کی نہیں تھی لیکن اب وہ پھنسا ہوا تھا اور فوج کی نوکری سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا۔ پال یہ پڑھ کر خوش ہو ہو جاتا ہے کہ فوج اس کے لئے اچھی رہے گی کیونکہ اس سے اس میں نظم و ضبط آجائے گا لیکن اسکی ماں نہ مانی۔ جنگ کے سائے منڈلا رہے ہوتے ہیں۔
وہ فوج میں نچلی سطح کا عہدہ اپنے بیٹے کے لئے پسند نہیں کرتی ہے۔
اس لئے وہ ڈربی ہیڈ کوارٹر جاکر کمانڈنٹ سے ملتی ہے تو وہ درخواست رد کر دیتا ہے اور آرتھر کو ٹریننگ کے لئے جانا پڑتا ہے۔ اسکی ٹریننگ کے بعداس کی تقرری ہو جاتی ہے۔عینی کی شادی پر وہ آتا ہے تو اس میں کافی ڈسپلن آیا ہوا ہوتا ہے لیکن وہ فوجی پابندیوں پر نالاں ہوتا ہے۔ وہ ماں سے التجا کرتا ہے کہ فوج کی نوکری سے خلاصی کروا دی جائے۔ اگر مطلوبہ رقم ادا کر دی جائے تو اسکی فوج سے خلاصی ہو سکتی ہے۔مسز موریل کے والدین نے اسے وراثت سے کچھ رقم دی ہوتی ہے جو اس نے برے وقتوں کے لئے سنبھال کر رکھی ہوتی ہے۔ وہ رقم ادا کر کے اسے نوکری سے فارغ کروا لیتی ہے۔وہ واپس آتا ہے تو بدلا ہوا سا ہے۔ اس میں کسی حد تک نظم و ضبط آگیا ہوتاہے۔ فوج میں بھرتی سے پہلے اسکا معاشقہ بیٹریس سے چل رہا ہوتا ہے۔ وہ اس سے شادی کرکے دوسرے شہر بس جاتے ہیں۔
عینی کا آ رنلڈ کے ساتھ معاشقہ چل رہا ہوتا ہے۔پال مریم کے پاس کثرت سے جا تا رہتا ہے۔ ماں اس پر اعتراض کرتی ہے کہ اسے مریم سے ملنے کے لئے آنے جانے میں آٹھ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جو اسکی صحت کے لئے موزوں نہیں۔ پال ماں کی بات سن کر پریشان ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ یہ بات مریم کو بول دے گا۔
کیا اور کوئی نہیں جس سے تم یہ بات کر سکو۔ ماں نے کہا۔
اگر مریم کی بجائے میں اس کے چھوٹے بھائی ایڈگر کے ساتھ جارہا ہوتا تو اس وقت ماں کوئی بات نہ کرتی۔
علاوہ ازیں بالی عمر میں معاشقہ ایک نفرت انگیز عمل ہے، ماں نے رائے دی۔
میں اسکے ساتھ کسی قسم کا معاشقہ نہیں کر رہا ماں!کیا تم سمجھتی ہو کہ میرا اس سے جنسی تعلق ہے؟
میں نہیں سمجھتی کہ اسکے علاوہ کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے، ماں نے کہا۔
اتنے غصے میں اسلئے ہو کیونکہ تم اسے پسند نہیں کرتی؟ پال پوچھتا ہے۔
میں نے کب کہا کہ میں اسے ناپسند کرتی ہوں۔میں نے اپنے بچوں کوکسی سے ملنےسے منع نہیں کیا اور نہ کبھی ایسا کروں گی۔
لیکن تم عینی کو تومنع نہیں کرتی۔
کیونکہ وہ تم دونوں سے زیادہ سمجھدار ہے۔اس لئے نہیں روکتی۔
ہماری عینی بھی سطحی ہے۔اور بات کی گہرائی تک نہیں جاتی۔
ماں نے اسکا جواب گو ل کردیا اور سونے چلی گئی۔
پال اگلی ملاقات میں مریم سے کہتا ہے کہ ماں دیر سے گھر آناپسند نہیں کرتی اسلئے اسے دس بجے سے پہلے گھر پہنچنا ہے۔
پال کی سالگرہ پر فیکٹری کی لڑکیاں اسے اعلیٰ کوالٹی کے رنگوں کا سیٹ دیتی ہیں اور شکایت کرتی ہیں کہ اس تحفے میں کلارا نے چندہ نہیں ڈالا جبکہ کلارا کہتی ہے کہ کسی نے اس سے رابطہ ہی نہیں کیا۔
پال بیکسٹرکے ساتھ جھڑپ کا اپنی ماں کو نہیں بتاتا۔وہ اپنی کوئی بات ماں سے نہیں چھپاتا سوائے جنسی افعال کے جو وہ مریم اور کلارا کے ساتھ کرتا ہے یا کیا ہے۔بعض اوقات اسکی ماں اسکو ڈانٹ بھی دیتی ہے۔ کلارا کو جب بیکسٹر سے جھڑپ کا پتہ چلتا ہے تو وہ پریشان ہو جاتی ہے اور پال کو احتیاط برتنے کی ہدایت کرتی ہے لیکن وہ اسکے خدشات کو جھٹک دیتا ہے۔وہ کلارا کو واضح پیغام دیتا ہے کہ وہ اس سے شادی نہیں کر سکتا ۔وہ سمجھ جاتی ہے کہ وہ اس سے کھیل رہا ہے۔ماں کے اثر سے باہر نہیں نکل سکتا۔وہ سمجھ جاتی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ وہ جب چاہے جیسے چاہے کی بنیاد پراسے استعمال کرتا رہے۔ وہ اس سے یہ بے وفائی چاہتا ہے اورمکار ہے۔
پال، مریم، کلارا اور پڑوسی مسٹر لیمب جب سیر کرتے ہوئے لیمب کے فارم ہاوس جاتے ہیں تو اسکی بہن ایک گھوڑے کی بڑے پیار سے مالش کر رہی ہوتی ہے۔ وہ ان سے میٹھی میٹھی باتیں کرتی ہے کہ شکر ہے کہ کوئی تو اس سے باتیں کرنے والا ملا۔ گھوڑا اس بات کی تشبیہ ہے کہ ان میں قوت، طاقت اور مردانگی پائی جاتی ہے اور عورتیں ان کی طرف کھنچی چلی آتی ہیں۔ لارنس یہاں یہ تجویز دینا چاہتا ہے کہ پال کا یہ تصور غلط ہے کہ مریم جنس میں دلچسپی نہیں رکھتی۔اصل بات یہ ہے کہ وہ ان کو سمجھ ہی نہیں پایا۔آخر میں کلارا اس عورت کے بارے میں یہ رائے پیش کرتی ہے کہ اس عورت کو مرد کی شدید ضرورت ہے۔
اسی دوران مسز موریل کو گلٹی نکل آتی ہے۔ ا سکے دل میں بھی درد اٹھنا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ روز بروز شدید سے شدید بیمار ہوتی چلی جاتی ہے۔ پال ماں کے پاس وقت گزارتا ہے۔اگلی چھٹیاں ہوتی ہیں تو وہ اپنی ماں کو بلیک پول لے جاتا ہے اور اسکی خدمت کرتا رہتا ہے۔ چھٹیوں کے ختم ہونے پر وہ اپنی ماں کو لے کر عینی کے پاس شیفیلڈ آجاتا ہے۔وہ ڈاکٹر سے مشورہ کرتا ہے تو وہ خدشہ ظاہر کرتا ہے کہ اسے کینسر ہے۔ وہ وہاں سے اپنے باپ کے پاس آتا ہے۔ وہ بوڑھا ہوتا جا رہا ہے۔ پال کو کہتا ہے کہ ماں کو واپس لے آئے۔ پال جواب دیتا ہے کہ وہ اس قابل نہیں، وہ اسے جا کر مل آئے تو والٹر کہتا ہے کہ اسکے پاس کرایہ نہیں۔پال باپ کو کرایہ دے دیتا ہے کہ وہ ماں سے شیفیلڈ جا کے مل آئے۔
کچھ دنوں کے بعد پال نوٹنگھم جاتا ہے تو اسے بیکسٹر کی بیماری کا پتہ چلتا ہے کہ وہ بے یا رو مددگارہسپتال میں داخل ہے۔ اسکا کوئی پرسان حال نہیں۔ اسے ٹائیفائیڈہو گیا ہے۔ علاج معالجہ سے وہ کافی حد تک صحت یاب توہو گیا ہے لیکن غمگین اور افسردہ رہتا ہے۔ پال اسے ملنے ہسپتال چلا جاتا ہے۔ وہ اس کے ساتھ ایک خاص تعلق محسوس کرتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ لڑائی بذات خود ایک قربت ہے۔بیکسٹر پال کو دیکھ کرپہلے تو غصہ اور چڑچڑا پن دکھاتا ہے لیکن جب پال اسے بتاتا ہے کہ اسکی ماں شدید علیل ہے تو بیکسٹر نرم پڑ جاتا ہے۔ وہ اب زندگی سے بیزار ہو گیا ہے اور کوئی کام نہیں کرنا چاہتا۔ پال اس سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ اسکے لئے اخبارات و رسائل لے کر بھجوائے گا تا کہ اسکا وقت گزر سکے۔اس دوران بیکسٹر کو احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کا دشمن خود ہی ہے۔ یہ آفت اسی کی کھڑی کردہ ہے۔ پال بیکسٹر کے پاس ہسپتال میں پھولوں کا گلدستہ چھوڑ کے واپس آجاتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ حقیقی طور پرمفلوک الحال ہے۔اسکے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں۔ پال اگلی دفعہ اس سے ملنے کے لئے جاتا ہے تو کچھ پھل اس کے لئے لے جاتا ہے۔ اس سے ہمدردی جتاتا ہے تو آہستہ آہستہ اسکا اعتماد حاصل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ پال اسکے بعد بھی بیکسٹر سے ہسپتال ملنے کے لئے جاتا رہتاہے اور اسے مطلع کرتا ہے کہ وہ کلارا کے ساتھ سیر و تفریح کے لئے جاتا ہے اور وہ کئی دن اکٹھے گزارتے ہیں۔ اس پر بیکسٹرکہتا ہے کہ اس کو اب اس بات کی پرواہ نہیں رہی کہ وہ کیا کرتی ہے۔لیکن اسکے ساتھ پال اسے یہ بھی اطلاع دیتا ہے کہ کلارا اب پال سے اکتا گئی ہے۔ اسکے علاوہ اس کے ماں کی بیماری اس حد تک سنگین ہو گئی ہے کہ اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں۔ اس لئے پال ماں کے مرنے کے بعد وہ ملک چھوڑ دے گا اور کسی اورملک جا کر قسمت آزمائی کرے گا۔
پال کلارا کواسکے خاوند بیکسٹرڈاؤسن کی حالت زار بیان کرتا ہے اور اسے اس بات پر آمادہ کرلیتا ہے کہ اپنے خاوند سے جا کرملے۔چھٹی کے دن وہ کلارا کو اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے۔ وہ ندامت سے اپنی بیوی سے نظریں نہیں ملا پاتا۔وہ اسے تسلی دیتی ہے کہ وہ جلد ٹھیک ہو جائے گا ار افسردگی سے چھٹکارا پا لے گا۔ وہ پھولوں کا گلدستہ اور کچھ پیسے اس کے پاس رکھ کر آجاتی ہے۔ ان کے درمیان برف پگھلنا شروع ہو جاتی ہے۔ اجنبیت کا پردہ اٹھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اگرچہ بیکسٹر اور پال ابھی بھی رقیب ہی ہیں لیکن پال اکثر اس کی مزاج پرسی کے لئے جاتا رہتا ہے اور ان کے درمیان دوریاں پاٹنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بیکسٹر کی غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں اور وہ دوست بن جاتے ہیں۔وہ اسے کھل کر بتا دیتا ہے کہ کلارا اور اسکا کوئی مستقبل نہیں۔ اگر بیکسٹر کلارا سے مصالحت کرنا چاہتا ہے تو پال اسے واپس لا سکتا ہے۔
عینی کے گھر دو ماہ رہنے کے بعد پال اپنی ماں کو کرائے کی کارمیں جو اس دور میں نایاب تھی اپنے گھر لاتا ہے۔ محلے دار اسکے استقبال کے لئے گلیوں میں کھڑے ہوتے ہیں۔عینی بھی ان کے ساتھ آتی ہے۔ ان کی ماں مر رہی ہے۔ ماں کے بغیر پال کو اپنا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ماں کے مرنے کے بعد اس کی زندگی بیکار ہو جائے گی اور کسی اور کے ساتھ تعلق میں اسے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔وہ باہر سے گھر آتا ہے توماں کے کمرے کی کھڑکی میں مدھم روشنی دیکھ کر وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی ماں اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر جانے والی ہے۔
پال اپنی ماں کو آرام دینے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کی ماں نے بھی پکا تہیہ کیا ہوتا ہے کہ اس نے نہیں مرنا۔ وہ پوری قوت ارادی سے زندہ رہنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ نہ تو کھا سکتی ہے، نہ پی سکتی ہے۔تمام جسم شدید دردوں میں ہے۔ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتی تو اسے ایسا محسوس ہوتاجیسے وہ کہہ رہی ہو کہ اگر وہ مر جاتی ہے تو پال کو بھی اس کے ساتھ مرنا ہو گا۔ اس کی اذیت برداشت نہیں کی جا رہی۔ اسکی نبض محسوس نہیں ہورہی۔ اسکو دیکھنے والا اسکی اذیت کو محسوس کر سکتا ہے۔ وہ اسکو تکلیف سے نجات دلانے کے لئے مارفین کی گولیاں پیس کر دودھ میں ملا کر اسے پلا دیتا ہے اور کئی گھنٹوں کے بعد اس کی روح فانی دنیا سے پرواز کر جاتی ہے۔ تمام خاندا ن بوجھل دل سے اسے پڑتے اولوں میں دفنا دیتاہے۔
اس کے بعد پال نوٹنگھم جاتا ہے اور بیکسٹر اور کلارا سے ملتا ہے۔ بیکسٹر اس وقت مکمل صحت یاب ہو چکا ہوتا ہے۔اب دونوں بہترین دوست بن گئے ہوتے ہیں۔ وہ اس بات کا عہد کرتا ہے کہ بیکسٹر اور کلارا کا ملاپ دوبارہ ہو جائے۔ وہ ساحل پر آؤٹنگ کا پروگرام بناتا ہے جس میں وہ کرائے پر ایک کمرہ لیتا ہے اور بیکسٹرکو وہاں لے جاتا ہے۔پھر وہ کلارا کو وہاں بلا لیتا ہے اور میاں بیوی کی صلح کروا دیتاہے اور اکیلا واپس چلا آتا ہے۔ پھرپال اپنے بہنوئی لیونارڈ کے ذریعے بیکسٹر کی نوکری کا انتظام شیفورڈ میں کرادیتا ہے۔
پال اب بالکل تنہا رہ گیا ہے۔ اسکا باپ گھرچھوڑ کر کسی کے ہاں ایک کمرہ
کرائے پر لے کر رہ رہا ہے۔ عینی اور آرنلڈ، آرتھر اور اسکی بیوی اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ پال نے نوٹنگھم میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا ہوتا ہے۔اسے اپنی زندگی کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔وہ اپناوقت مے خانوں میں گزارنے لگتا ہے۔اسکی زندگی میں ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔وہ مرنا چاہتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ اسکی ماں کی موت کے بعد اسکی زندگی سے محبت ختم ہو گئی ہے اور اس کا جینابیکار ہے۔
ایک اتوار و ہ نوٹنگھم ذہنی سکون کی خاطرچرچ جاتا ہے تو وہاں مریم اسے
مذہبی مناجات گاتے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔اس کے چہرے سے روحانیت ٹپک رہی ہے۔ وہ عبادت بڑے خضوع و خشوع کے ساتھ کر رہی ہے۔پال اسے نوٹنگھم میں دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔پادری کے بیان کے بعد وہ اسے ملتا ہے۔وہ بھی غیر متوقع ملاقات پر حیران ہوتی ہے۔وہ اسے بتاتی ہے کہ کسی کام کے سلسلے میں وہ اپنے کسی رشتے دار سے ملنے کے ایک دن پہلے آئی تھی اور اگلے دن واپس ویلی فارم ہاؤس جا رہی ہے۔وہ اسے اپنے گھر جانے کی دعوت دیتا ہے تو وہ مان جاتی ہے۔ وہ اسے لے کر اپنے چھوٹے سے بدحال کمرے میں لاتا ہے اور اسے کافی بنا کر پیش کرتا ہے۔مریم اسے بتاتی ہے کہ اسکاٹیچنگ کالج میں داخلہ ہو گیا ہے اور وہ جلد ہی وہاں جا رہی ہے۔اس کی بات سن کر وہ پریشان ہو جاتا ہے۔ مریم اپنے روشن مستقبل پر خوش ہے۔مریم اس سے پوچھتی ہے کہ کیا وہ اب بھی کلارا کے سا تھ رہتا ہے۔ پال منفی میں جواب دیتا ہے۔ اس پر وہ پیشکش کرتی ہے کہ اس کے ساتھ شادی کر لے۔ پال منع کر دیتا ہے۔مریم اسے کہتی ہے کہ اگر وہ اس کے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتا تو ان کے درمیان تعلق نہ ہونا بہتر ہے،یہ کہہ کر چلی جاتی ہے اور وہ اپنی ماں کی سوچوں میں غرق بیٹھا رہتا ہے۔
بشکریہ
https://www.facebook.com/groups/1876886402541884/permalink/2806787282885120