اثر کے پیچھے دل حزیں نے سراغ چھوڑا نہیں کہیں کا گ…

اثر کے پیچھے دل حزیں نے سراغ چھوڑا نہیں کہیں کا
گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا
…
آج اردو تنقید کے بانیوں میں نمایاں، عظیم مورخ، عالم دین، سیاسی مفکر اردو اور فارسی شاعر علامہ شبلی نعمانی کا یومِ پیدائش ہے ۔
June 03, 1857
( نوٹ: ان کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یکم جون، بعض کے نزدیک 3 جون ، 04 جون اور بعض کے نزدیک 8 جون 1857ء ہے واللہ عالم)
علامہ کی ولادت 4/جون سنہ 1857ء کو بنداول، ضلع اعظم گڑھ کے ایک معزز مسلم راجپوت گھرانے میں ہوئی۔ان کے والد ماجد شیخ حبیب اللہ خوشحال اور روشن خیال شخصیت کے مالک تھے
ابتدا میں وہ سرسید کی تعلیمی تحریک سے متاثرتھے۔ سرسید کی وفات کے بعد وہ سنہ 1898ء میں حیدرآباد چلے گئے اور ریاست کے شعبہ تعلیم میں مشیر مقرر ہوئے۔ دارالمصنفین کی بناڈالی۔18 نومبر 1914ء کو علامہ شبلی نعمانی نے وفات پائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شبلیؔ نے عربی،فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں طبع آزمائی کی۔ عربی میں ان کا کلام بہت مختصر ہے ۔ جو بیشتر ابتدائی دور کا ہے اور کچھ بہت زیادہ اہمیت کا حامل بھی نہیں اس میں سب سے زیادہ معروف وہ قصیدہ ہے جو 1881ء میں سر سید احمد خان سے ملاقات کے وقت شبلیؔ نے انھیں پیش کیا۔ چند متفرق اشعار دیکھیۓ:
1۔ دو قدم چل کر ترے وحشی کے ساتھ
جادہ راہِ بیاباں رہ گیا
2۔ قتل ہو کر بھی سبکدوشی کہاں
تیغ کا گردن یہ احساں رہ گیا
3۔ کیا قیامت ہے کہ کوۓ یار سے
ہم تو نکلے اور ارماں رہ گیا
4۔ بزم میں ہر سادہ رو تیرے حضور
صورت آئینہ حیراں رہ گیا
5۔ یاد رکھنا دوستو اس بزم میں
آ کے شبلیؔ بھی غزل خواں رہ گیا
6۔ ضعف مرنے بھی نہیں دیتا مجھے
میں اجل سے بھی تو پنہاں رہ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوچھتے کیا ہو جو حال شب تنہائی تھا
رخصت صبر تھی یا ترک شکیبائی تھا
میں تھا یا دیدہ خوننابہ فشاں تھی شب ہجر
ان کو واں مشغلہ انجمن آرائی تھا
خون رو رو دیے بس،دو ہی قدم میں چھالے
یاں وہی حوصلہ بادیہ پیمائی تھا
دشمن جاں تھے ادھر ہجر میں درد و غم و رنج
اور ادھر ایک اکیلا تر شیدائی تھا
انگلیاں اٹھتی تھیں مژگاں کی اسی رخ پیہم
جس طرف بزم میں وہ کافر ترسائی تھا
کون اس راہ سے گزرا ہے کہ ہر نقش قدم
چشم عاشق کی طرح اس کا تماشائی تھا
ہم نے بھی حضرت شبلیؔ کی زیارت کی تھی
یوں تو ظاہر میں مقدس تھا یہ شیدائی تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان غزلیات میں وہ شوخی و مدہوشی نہیں جو ان کی فارسی غزلوں میں نظر آتی ہے ۔
دراصل شبلیؔ کی اردو شاعری تمام تر نظموں پر مشتمل ہے۔ شبلیؔ کی نظموں میں بعض واقعات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں مثلاۤ ہجرت نبویﷺ ، عدل فاروقی اور عدل جہاں گیری وغیرہ۔ دیگر واقعات جن پر ان نظموں کی اساس رکھی گئی ہے شاید نثر میں اتنا تاثر نہ چھوڑتے جتنا وہ نظم میں متاثر کرتے ہیں۔
معمول تھا جناب عمر کا متصل
کرتے تھے گشت رات کو سونا محال تھا
اک دن کا واقعہ ہے کہ پہنچے جو دشت میں
کوسوں تلک زمین پہ خمیوں کا جال تھا
بچے کئی تھے ایک ضعیفہ کی گود میں
جن میں کوئی بڑا تھا کوئی خرد سال تھا
دیکھا جو اس کو یہ کہ پکاتی ہے کوئی چیز
جاتا رہا جو طبع خریں میں ملال تھا
سمجھے کہ اب وہ ملک کی حالت نہیں رہی
کم ہو چلا ہے ، قحط کا جو اشتعال تھا
پوچھا خود اس سے جا کے تو رونے لگی کہ آہ
کیا آپ کو غذا کا بھی یاں احتمال تھا
بچے یہ تین دن سے تڑپتے ہیں خاک پر
میں کیا کہوں زبان سے جو ان کا حال تھا
مجبور ہو کے ان کے بہلنے کے واسطے
پانی چڑھا دیا ہے یہ اس کا وبال تھا
ان سے یہ کہہ دیا ہے کہ اب مطمئن رہو
کھانا یہ پک رہا ہے ، اسی کا خیال تھا
(خلافت فاروقی کا ایک واقعہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی ہم نے بھی کی تھی حکمرانی ممالک پر
مگر وہ حکمرانی جس کا سکہ جان و دل پر تھا
قرابت راجگان ہند سے اکبر نے جب چاہی
کہ یہ رشتہ عروس کشور آرائی کا زیور تھا
تو خود فرماندہ جے پور نے نسبت کی خواہش کی
اگرچہ اب وہ بھی صاحب دلہیم و افسر تھا
ولی عہد حکومت اور خود شاہنشہ اکبر
گۓ رنبیر تک جو تخت گاہَ ملک و کشور تھا
ادھر راجہ کی نور دیدہ گھر میں محلہ آرا تھی
ادھر شہزادے پر چتر عروسی سایہ گستر تھا
دلہن کو گھر سے منزل گاہ تک اس شان لاۓ
کہ کوسوں تک زمیں پر فرش دیباۓ شجر تھا
دلہن کی پالکی خود اپنے کندھوں پر جو لاۓ تھے
وہ شاہنشاہ اکبر اور جہانگیر ابن اکبر تھا
یہی ہیں وہ شمیم انگیزیاں عطر محبت کی
کہ جن سے بوستانِ ہند برسوں تک معطر تھا
تمھیں لے دے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتنا
کہ عالم گیر ہندوکش تھا، ظالم تھا، ستمگر تھا
(ہمارا طرز حکومت)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترکنوں کو یہ دیا حکم کہ ، اندر جا کر
پہلے بیگم کو کریں بستہ زنجیر و رسن
پھر اُسی طرح کھینچ کے باہر لائیں
اور جلاد کو دیں حکم کہ " ہاں تیغ بزن
یہ وہی نورجہاں ہے کہ حقیقت میں یہی
تھی جہاں گیر کے پردے میں شہنشاہ زمن
اس کی پیشانی نازک پہ جو پڑتی تھی گرہ
جا کے بن جاتی تھی اوراق حکومت یہ شگن
اب نہ وہ نورجہاں ہے، نہ وہ انداز غرور
نہ وہ غمزے ہیں نہ وہ عربدہ صبر شکن
اب وہی پاؤں ہر ایک گام پہ تھراتے ہیں
جن کی رفتار سے پامال تھے مرغان چمن
ایک مجرم ہے کہ جس کا کوئی حامہ نہ شفیع
ایک بیکس ہے کہ جس کا نہ کوئی گھر نہ وطن
(عدل جہانگیری)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مولوی سے کہا میں نے کہ "کیا آپ"
کچھ حالت یورپ سے خبردار نہیں ہیں
آمادہء اسلام ہیں لندن میں ہزاروں
ہر چند ابھی مائل اظہار نہیں ہیں
تقلید کے پھندوں سے ہوۓ جاتے ہیں آزاد
وہ لوگ بھی جو داخل احرار نہیں ہیں
افسوس مگر یہ ہے کہ واعظ نہیں پیدا
باہیں تو بقول آپ کے دمدار نہیں ہیں
کیا آپ کے زمرہ میں کسی کو نہیں یہ درد
کیا آپ بھی اس کے لیے تیار نہیں ہیں
جھلا کے کہا یہ کہ"یہ کیا سوۓ ادب ہے"
کہتے ہو وہ باتیں جو سزاوار نہیں ہیں
کرتے ہیں شب و روز مسلمانوں کی تکفیر
بیٹھے ہوۓ کچھ ہم بھی تو بیکار نہیں ہیں
(شغل تکفیر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وضع میں طرز مین اخلاق مین سیرت میں کہیں
نظر آتے نہیں کچھ ضرمت دیں کے آثار ہیں
آپ نے ہم کو سکھاۓ ہیں جو یورپ کے علوم
اس ضرورت سے نہیں قوم کو ہرگز انکار
بحث یہ ہے کہ وہ اس طرز سے بھی ممکن تھا
کہ نہ گھٹتا کبھی ناموس شریعت کا وقار
ہم نے پہلے بھی اغیار کے سیکھے تھے علوم
ہم نے پہلے بھی تو اس نشہ کا دیکھا ہے خمار
نام لیتے تھے ارسطو کا ادب سے ہر چند
تھے فلاطوں الٰہی کے بھی گو شکر گزار
جانتے تھے مگر اس بات کو بھی اہل نظر
کہ حریفوں کو نہیں انجمن خاص میں بار
یعنی یہ بادہ عرفاں کے نہیں ذوق شناس
بزم اسرار کے یہ لوگ نہیں بادہ گسار
آج ہر بات میں ہے شان تفریح پیدا
آج ہر رنگ میں یورپ کے نمایاں ہیں اشعار
ہیں شریعت کے مسائل بھی وہیں تک محدود
کہ جہاں تک انھیں معقول پتائیں اغیار
(مذہب یا سیاست)
……………