اسلامی ریاست کا نظام نماز و زکوٰۃ : قابل غور پہلو – ڈاکٹر غلام شبیر
ہرسال پاکستان میں ماہ صیام کے پہلے روزے کو سیونگ اکاونٹس سے زکوٰۃ کا ٹ لی جاتی ہے۔ تاہم زکوٰۃ فنڈز میں خوردبرد سمیت دیگرکئی الزامات کے باوصف سپریم کورٹ سووموٹو ایکشن لے چکی ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کی روایت پر کاربند مذہبی خانوادے مفتی محمد شفیع کے فرزند ارجمند مفتی تقی عثمانی سے رائے طلب کی ہے کہ وہ اس ضمن میں رہنمائی فرمائیں۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے یہ بیان دیا ہے کہ حکومت نظام زکوٰۃ کو شفاف بنانے میں ناکام ہوچکی ہے، لوگوں کے اکائونٹس سے زکوٰۃ کی کٹوتی بند کرے تاکہ لوگ اپنی مرضی سے مستحقین تک زکوٰۃ پہنچائیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر زکوٰۃ جیسے اجتماعی مسئلے کو پرائیویٹ مسئلہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔ اور روزنامہ ڈان جیسا لبرل اخبار اپنے ایڈیٹوریل میں یہ مشورہ کیوں دے رہا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ حکومت لوگوں کے اکائونٹس سے زبردستی زکوٰۃ کاٹنا بند کرے اور لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دے کہ وہ جس تنظیم یا جن افراد کو چاہیں دیں۔ یہ طریقہ ویسے بھی ضیائی عہد کی پیداوار ہے، جتنا جلدی ہو سکے ترک کردیا جائے۔
شور پند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا۔ ۔ آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزہ پایا
قرآن کیمطابق مومنین کو زمین پر اقتدار ملتاہے تو وہ نماز و زکوٰۃ کا انتظام و انصرام کرتے ہیں۔ اگر نماز سے چند رکعات کی رسمی عبادت اور زکوٰۃ سے اڑھائی فیصد ی کٹوتی مراد ہے تو شعب ابی طالب کی صعوبتیں، بدرو حنین کے جاں گسل ٹرائلز ، غزوہ خندق، خیبر شکنی، ہجرت حبشہ، ہجرت مدینہ ایک چھوٹے امر کی بہت بھاری قیمت ہے۔ ایسی چند رکعات کی ادائیگی یا اڑھائی فیصدی زکوٰۃ قبول کرنے میں شاید ابولہب و ابوجہل کو بھی خاص تامل نہ ہوتا۔ یہ پیغام توحید تو انا سنلقی علیک قولاً ثقیلاً سے عبارت تھا جس کیلئے آںحضورﷺ کا رات کو کمبل اوڑھ کر سونا بھی اس ہمالیہ سائز ٹاسک کو ہلکا لینے کے مترادف سمجھا گیا۔
نماز و زکوٰۃ کا انتظام و انصرام در اصل سماجی معاشی اور سیاسی تفاوت و تفرق سے پاک مبنی بر مساوات نظام اخلاق کا قیام ہے جس میں غلام ابن غلام اسامہ بن زید کی قیادت میں عمر ابن خطاب کو جنگ لرنی پڑے اور جس کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر رخصت کرنا ابوبکر کیلئے باعث ننگ و عار نہ ہو۔ ایسا نظام اخلاق جس کے تحت صہیب و عمار اور بلال و سلمان فارسی بااعتبار شرف و عز و ناز ابوبکر و عثمان و علی کے ہم پلہ سمجھے جائیں۔ اکرام خاندان و نسل کے برعکس تقویٰ کو حاصل ہو جو کسی نسبت یا پیدائشی وصف کے برعکس کسبی چیز ہو۔ نماز سماجی مساوات کا پرچم ہے۔ یعنی معاشرے کے سب افراد بلحاظ قوانین، سیاسی حقوق اور معاشی مواقع برابر ہیں۔ جس میں جو صلاحیتیں ہیں اس نظام اخلاق پر فرض ہے کہ بلا تخصیص رنگ و نسل میرٹ پر بروئے کار آنے کا موقع دے۔ معاشی ناہمواریوں کو رفع کرنے کا انتظام اسی نظام صلوٰۃ میں موجود ہے تاہم معاشی مسئلہ اتنا نازک ہے کہ ذرا سی غفلت سے طبقاتی نظام جنم لیتا ہے اس لیے اسے الگ نظام زکوٰۃ کے تحت ایڈریس کرنیکا حکم ہے۔ تاہم نماز و زکٰوۃ ایک دوسرے کا اس قدر جزولاینفک ہیں کہ سورۃ ماعون میں ہے کہ جس کمیونٹی میں غربت کچھ گھروں کی دیواروں پر بال کھولے سورہی ہو اس کےاہل زر، اہل زور اور اہل تعزیر کی منافقانہ نمازیں ان کے منہ پر ماردی جاتی ہیں۔
سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات ابتدائے وحی کی آیات ہیں۔ پہاڑی پر آںحضورﷺ کے پہلے خطبے سے ہی ابولہب کی مذہبی سیادت، ابو جہل کی سیاسی سیادت اور سرمایہ داروں کی اجارہ داری دھواں و غبار ہوتی دکھائی دی توبڑے چیلنج کا سامنا فطری بات تھی۔ نزول قرآن جاری رہا مگر سورۃ العلق کی باقی آیات دوسال بعد نازل ہوئیں۔ ارئیت الذی ینھیٰ عبداً اذا صلیٰ ارئیت ان کان علی الھدیٰ او امر بالتقویٰ۔ اے حضور کیا دیکھا اس شخص کو جو خدا کے بندے کو نماز سے روکتا ہے کیا آپ نے غور کیا کہ آیا کہ وہ راہ ہدایت پر ہے یا حامل تقویٰ ہے۔ اگلی آیات میں کہا گیا ہے کہ یہ رویہ دین حق کو جھٹلانے سے عبارت ہے اور بروز قیامت ہم اسے ماتھے کے بالوں سے پکڑ کر پیشانی کے بل گھسیٹیں گے اور اس کی جعلی حکمت سے متعلق اس کی قوائے عقلیہ سے پوچھیں گے کیا تم نے اسے یہی سمجھایا تھا یا یہ حرص وہوس کے سبب کچھ سننے پر مائل نہ تھا۔
ان آیات کی بابت ڈاکٹر محمد اسد لکھتے ہیں آغاز کار میں نماز پورے دین و مذہب کی ترجمان تھی۔ یعنی نماز سے مراد مذہب کا سماج کی تشکیل میں کردار تھا۔ یہاں اس سورۃ مبارکہ میں نماز سے ابوجہل یا کسی کا بھی روکنا دراصل مذہب کا معاشرے کی سماجی، سیاسی، معاشی اور لازمی مساواتی اخلاقی تشکیل و تجسیم میں کردار رد کرنا ہے۔ قریش مکہ اولاد ابراہیم تھے، ان کی وفا شعاری، مروت، صلہ رحمی، بہادری، سخاوت اور ایفائے عہد جیسی روحانی خوبیاں بقول ڈاکٹرحسین نصر بتاتی ہیں کہ وادی کبھی دین ابراہیم یا ٹرانسینڈینٹلزم کا گہوارہ رہی ہے۔ تاہم کچھ تعلیمات ایسی بھی ہوں گی جن پر تاریخ نے گرد ڈال دی۔ دین محمد تاریخ کے بھنووں سے وقت کی گرد جھاڑ رہا تھا۔ سرمایہ پرستی اور سیاسی سیادت کی لگن حتمی نتیجے میں مذہب کو نجی معاملہ بنانے میں عافیت سمجھتی ہے تاکہ خلق خدا کی کھوپڑیوں اور شکم کو استحصالی حربوں کے گھوڑوں کے سموں تلے روندنا آسان ہو۔ سو یہاں بھی یہی ہوا۔ ابولہب و ابوجہل کا کعبتہ اللہ سے ایک واجبی سا تعلق تو تھا ہی اسی کو مذہب قراردے دیا گیا۔ منزلوں پر عافیت سے پہنچنے والے کاروان تجارت بھی کعبہ کا حصہ اس کے مجاور ابولہب کے نام کرتے تھے اور ڈاکووں کے جتھے بھی کعبہ کے نام منتیں مان کر نکلتے تھے اچھی روزی مل جاتی تو کعبے کا حصہ نکالتے تھے یوں قرآن کی گواہی ہے کہ ابولہب مکہ کا امیرترین آدمی تھا ما اغنیٰ عنہ مالہ وما کسب۔ سو ایک ایسا رائج العمل نظام جس کے تحت مذہب نجی معاملہ ہو اور وہ تاجروں سے بھی حصہ وصول کررہا ہو اور ڈاکوئوں سے بھی خراج لے رہا ہو اسے چند رکعات کی رسمی نماز پڑھ لینے میں یا اڑھائی فیصد سالانہ زکوٰۃ دینے میں شاید کوئی تامل نہیں تھا۔ مگر جو دم قتل بھی کہہ رہا ہو کہ میرا گلا ذرا نیچے سے کاٹنا تاکہ جب باقی سروں کے بیچ میرا سر رکھا جائے تو فرق واضح ہو کہ یہ سردار کا سر ہے، وہ بلال و عمار یاسر و سمیعہ سلمان فارسی اور صہیب رومی کو ملت اسلامیہ میں سرداران کے برابر درجہ دینے پر راضی ہوتا۔ اور وہ جو سونا و زیورات و جواہر اور نقدی کے انبار لگائے بیٹھا تھا اللذی جمع مالاو عددۃیحسب ان مالہ اخلدہ یا الھٰکم التکاثر سننے پر رضامند ہوتا؟ قریش مکہ قرآن کے سیاسی، سماجی اور معاشی تصورات میں اپنے لیے پنہاں خطرات دیکھ کر اسے جڑ سے کاٹ پھینکنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مکہ کی نحیف و غریب مسلم کمیونٹی کو نہ صرف ہجرت حبشہ پر مجبور کیا بلکہ نجاشی کے دربار تک پہنچے کہ کہیں یہ اسے قائل کرکے مکہ پر چڑھائی نہ کر دیں۔ آغاز کار میں ہی قریش مکہ کی اس مخالفت کے پس پردہ محرکات کو دیکھنے کیلئے مائیکرو اسکوپ کی ضرورت نہیں۔ مسئلہ چند رکعاتی نماز اور اڑھائی فیصدی زکوٰۃ سے بڑھ کر درپیش ہے۔
نماز وزکوٰۃ دراصل انسان کا روز الست اپنے خدا کے حضور باندھے گئے اس میثاق کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش لایزال سے عبارت ہیں جس کی حامی بھرنے سے خیمہ افلاک اپنی بے پایاں بلندیوں کے باوصف لرز اں تھا، زمین اپنی بے پناہ وسعتوں کے باوجود کانپ اٹھی تھی، پہاڑ فولاد آسا مضبوطیوں کے باوصف تھرتھراہٹ اور کپکپی محسوس کررہے تھے۔ یہ الامانہ یہ میثاق وفا کیا تھا؟ یہ روئے زمین کوایک سماجی، سیاسی، معاشی، اور لازمی مساواتی نظام اخلاق کے غازے سے مزین کرنےکا عہد تھا۔ قرآن نے کہا حسرت اے انسان تو نے آج تک وہ عہد نہیں نبھایا(۸۰:۲۳)۔ پیغمبرﷺ نے انسانیت کی طرف سے اس عہد کو نبھانے کے عزم کو حزرجاں بنا لیا۔
الامانہ سے مراد روئے زمین پر سماجی، سیاسی اور معاشی انقلاب اخلاق کی تشکیل و تجسیم مقصود بالذات ہے۔ اگر ایسا معاشرہ محض تبلیغ و انزار سے ممکن ہو تو فبہا، ورنہ سیاسی قوت سے ایسی معاشرتی تجسیم کی راہ میں قرآن صرف حائل ہی نہیں جیسی کہ رعایت سیکولر تعبیر میں ملتی ہے بلکہ اس امر کا داعی ہے۔ مولانا وحید الدین، اور قبلہ غامدی کا بیانیہ شکست خوردہ نفسیات اور معذرت خواہی سے عبارت ہی نہیں بلکہ بولہبی ہے، اسے بوجہلی بھی نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں بھی طنطنہ اور طمطراق تھا۔ جماعت اسلامی کا بیانیہ درست ہے مگر عصر حاضر کے لمس سے محرومی ان کیلئے سد راہ ہے اگر انہیں اقتدار میں حصہ بقدر جثہ مل بھی جائے تو اکرم درانی کی داڑھی سے شروع ہو کر حسبہ بل پران کے مجوزہ اسلامی نظام اخلاق کی تان ٹوٹ جاتی ہے۔
فلسفہ تاریخ اور سماجیات کے جد امجدابن خلدون کا کہنا ہے کہ ریاست کا تعلق معاشرے سے وہی ہے جو چھلکے کا مغز سے ہوتا ہے۔ چھلکا مغز کی نشوونما اور محافظت کا ضامن ہوتا ہے۔ یاد رہے عربی زبان میں فسق پھل سے چھلکے کا پھٹ کر اترجانے کو کہا جاتا ہے۔ اگر کیلے کا چھلکا کہیں سے پھٹ جائے تو اندر پھل کتنی دیر گلنے سڑنے سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ قرآن نے فسق قلعہ خودی میں دراڑ پڑنے کو قرار دیا ہے اور فجر بھی اسی خودی کے حصارکے ٹوٹنے کو کہا ہے یہ ہے قرآن کے نزدیک فسق و فجور۔ لہٰذا ریاست در اصل معاشرے کی مشکل سے حاصل کردہ اقدار کی محافظت کا کام بزور بازو کرتی ہے۔ اس لیے قرآن نے کہا ہے کہ جب مومنین کو زمین پر اقتدار ملتا ہے تو وہ نماز و زکوٰۃ کا انتظام انصرام کرتے ہیں، تو اس سے مراد ضیائی عہد کا سعودی عرب انسپائرڈ اسلام نہیں جو قانون کی مدد سے محض چند رکعات نماز کا اہتمام کرلے، رمضانوں میں سیونگ اکائونٹس سے اڑھائی فیصد زکوٰۃ کا ٹ لے۔ قرآن کے نزدیک سماجی سیاسی، معاشی اور مساواتی نظام اخلاق جہاں مقصود بالذات ہے اقتدار اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے اس لیے اس سمت سفرکی راہ میں شعب ابی طالب کی کٹھنائیاں ہیں، ہجرت حبشہ و مدینہ کی ابتلا و آزمائش ہے۔ بدروحنین، خندق و خیبر اور تبوک کی جاں گسل مہمات ہیں۔ یہ کام محض بزرگی کی جھلک دیتے گیسوئے ابیض سنوار کر ٹی وی پروگراموں میں پرغرور علمی بانکپن اور ادعائیت سے تو ہونے سے رہا۔ تو پھر قوم کو صیدزبوں اور نخچیر ازلی بنانےکی تراکیب کس کا بھلا چاہتی ہیں۔
سبد گل کے تلے بند کرے ہے گلچیں ۔ ۔ مژدہ اے مرغ! کہ گلزار میں صیاد نہیں
نماز و زکوٰۃ اقتدار اسلامی کا جزو لاینفک ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ کہیں کہیں سیکولر لبرلز اور آرتھوڈاکس علما کے مفادات یکجا ہو جاتے ہیں۔ ڈکٹیٹرز، آرتھو ڈوکس علما، متصوفین اور جدید مغرب پسند سیکولرلبرلز سے اسلام نے جتنی خیرخواہی چاہی ہے نتیجہ وہی کہ مرہم کی جستجو میں جو پھرا ہوں دور دور۔ ۔ تن سے سوا فگار ہیں اس خستہ تن کے پائوں۔ آخر مفتی تقی عثمانی صاحب کا فہم دین اس نتیجے پر کیوں پہنچا کہ حکومت زکوٰۃ کے معاملے میں لوگوں کو یہ موقع دے کہ وہ اپنی مرضی سے تنظیموں کو یا غریب افراد تک پہنچائے اور ڈان اخبار بھی حضرت کا ہمنوا ہو تو کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ جب افغانستان و کشمیر میں جماعت اسلامی جہاد میں مصروف تھی تو اس طبقے کا اعلان تھا کہ جہاد ریاست کا فریضہ ہے، قاضی حسین احمد نے کہا کہ اگر ریاست یہ فریضہ سرانجام نہیں دیتی تو ہمیں یہ فریضہ سرانجام دینے سے کیوں روکتے ہو۔ جواب تھا اگر میاں اپنی بیوی کا وظیفہ زوجیت ادا کرنے سے اعتنا برتے تو پڑوسی کا کوئی حق نہیں کہ وہ آگے بڑھ کر ذمہ داری لے لے۔ یہ مثال زکوٰۃ کے باب میں کیوں نہیں فٹ بیٹھتی۔ تنظیمیں اور مدارس اگر زکوٰۃ کے جمع وخرچ کا فول پروف نظام رکھتے ہوں تب بھی انہیں روح قرآں کیمطابق یہ اختیار نہیں کہ وہ ادارہ زکوٰۃ کو نجی طور پر چلائیں۔ اگر ریاست کی نااہلی زکوٰۃ کے جمع و خرچ کا بنیادی فریضہ اس سے واپس لینے کی دلیل ہے پھر شعبہ تعلیم و صحت کیا عدالتی نظام اور مواصلات سمیت دیگر امور سے ریاست کو دست کش ہوجانا چاہئے۔ عدالتی نظام بھی مدارس کو دے دیا جائے۔ معاشی پالیسی میں حکومت سخت ناکام ہے اسٹیٹ بینک کی چابیاں مفتی اعظم پاکستان کو دے دی جائیں تو قوم کو خائن حکام سے نجات مل سکتی ہے۔
عہد صدیق رضی اللہ میں منکرین زکوٰۃ کا مسئلہ پیش آیا نوبت جنگ تک پہنچی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا صرف زکوٰۃ کے مسئلے پر قتال کی نوبت نہیں آنی چاہئے اللہ نے قتل الا بالحق سے منع فرمایا ہے، جواب دیا کہ زکوٰۃ ریاست کا حق نہیں ہے؟ جب تک زکوٰۃ کی مد میں فرض اونٹ کی رسی تک نہیں وصول کرپاتا جنگ لڑتا رہوں گا۔ حضرت عمر نے جوش تمکیں سے کہا خدا نے ابوقحافہ کے بیٹے کا سینہ کھول دیا ہے۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ ثابت کیا کہ اقتدار اسلامی کا بنیادی فریضہ یعنی سماجی، سیاسی معاشی اور لازمی مساواتی نظام اخلاق کے نفاذ کو نہ تو ارتداد کے خوف سے چھوڑا جا سکتا ہے اور نہ نجی شعبوں کے ہاتھ دیکر ایڈہاک ازم یا پرائیوٹائزیشن سے چلایا جا سکتا ہے۔ قرآن نے کہا ہے یہ زکوٰۃ جس سے تم مال میں کمی متصور کرتے ہو یہ دراصل مال کا بڑھنا ہے اور یہ سود جس کے ذریعے تم اپنے مال میں اضافہ سمجھتے ہو یہ دراصل مال میں کمی کا سبب بنتا ہے۔ مفتی محمد شفیع صاحب نے معارف القرآن میں اس آیۃ کریمہ میں پنہاں نکتہ دوررس کو لطیف پیرائے میں ایک مثال سے سمجھایا ہے۔ لکھتے ہیں کہ جب زخم کی سرجری ناگزیر ہوتی ہے تو سرجری سے اگرچہ جسم کا کچھ حصہ کٹ جاتا ہے لیکن وہ کمی جسم کیلئے نفع بخش اضافے کا سبب بنتی ہے۔ اسی طرح ناسور بظاہر جسم میں اضافہ ہوتا ہے مگریہ جسم کے دیگرحصوں میں فساد کی جڑ بنتا ہے اور خود بھی ضرررساں ہوتا ہے، اس لیے بظاہرجسم میں یہ اضافہ در اصل جسم میں کمی کا سبب بنتا ہے۔ مفتی صاحب نے عالمی ماہرین معاشیات کے قول بھی نقل کیے ہیں جنہوں نے کہا کہ سود جسے ہم جدید معیشت کا ستون سمجھتے تھے آخری تجزیے میں یہ عالمی معیشت کے برین سسٹم اور ریڑھ کی ہڈی میں پلنے والا کیڑا ہے جو اسے مسلسل کھائے جا رہا ہے۔
ڈاکٹر طارق رمضان نے لکھا ہے جب عرب ریاستوں سے تیل کے ذخائردستیاب ہوئے اور عالم اسلام اور افریقہ وایشیا کے دیگر غریب ممالک نوآبادیاتی شکنجے سے نجات پارہے تھےقدرت نے پہلی بار ایک نادرونایاب موقع فراہم کیا تھا کہ پیٹرو ڈالر کے معجزے سے شمال کے ترقی یافتہ ممالک اور جنوب کے پسماندہ ممالک کے درمیان طاقت اور خوشحالی کا ایک خوبصورت توازن چشم فلک دیکھ لے۔ عربوں کے پاس بے تحاشا سرمایہ تھا اور نوآزاد جنوبی ممالک کو تعمیر و تشکیل نو کیلئے سرمایہ درکار تھا۔ ہوس نفس کا شعلہ بھڑکتا ہو تو سرمایہ ھل من مذید کی گردان کرتا رہتا ہے۔ اہل عرب پیٹروڈالر کے بطن سے مذید سرمائے کے جنم کے خواہاں ہوئے۔ انہیں جنوب کے پسماندہ اور غریب ممالک کا بھلا کیوں درد اٹھتا انہیں ایسے پروفیشنلز کی ضرورت پیش آئی جو انہیں انویسٹمنٹ کی گولڈ مائن سے مزید زر پیدا کر کے دیں۔ ترقی یافتہ ساہوکار مغرب کے بینکوں نے یہ ڈالرز لیے اور انتہائی استحصالی سودی ہتھکنڈوں سے جنوب کے غریب ممالک میں سرمایہ کاری کی۔ یوں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں نے جنوب کے نو آزاد ممالک کو معیشت کے شکنجے سے دوبارہ یرغمال بنا لیا۔
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے ۔ ۔ ۔ اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
اگر عرب ممالک چاہتے تو براہ راست انویسٹمنٹ سے اپنا سرمایہ بھی بڑھا سکتے تھے اور جنوب کے ممالک کو عالمی ساہوکاروں کے پنجے سے بھی بچا لیتے۔ سوسان جارج جیسے دل دریدہ ماہر معیشت نے لکھا ہے کہ شیوخ العرب کی نیویارک اور لندن کے بینکوں کے ذریعے اس انوسٹمنٹ نے سائوتھ کے ممالک کو قرضوں کے ایسے شیطانی چکر میں پھنسا دیا کہ آج روزانہ قرضوں کےاس شیطانی گرداب میں دس ہزار افراد مر رہے ہیں۔ ان صاحبان سرمایہ اور نسل اسماعیل و خلیل سے کوئی پوچھے کہ کیا اسلام فقط انفرادی جزا و سزا اور احکامات کا بیان ہے یا اس کا نکتہ ماسکہ فرد اور اجتماعیت کے درمیان حسن توازن واعتدال ہے۔ ان شیوخ العرب سے انفرادی طور پر کوئی سود پر قرض مانگ کر تو دیکھے صرف یہ درخواست سننے کے گناہ میں زندگی بھر لا حول ولا قوۃ کی گردان کرتے پھریں کہ یہ تو قبر کو انگاروں سے بھرنے اور دنیا وعاقبت کی تباہی وخسارے کا سودا ہے۔ دوسری جانب یہی سرمایہ عالمی ساہوکاروں کی مدد سے ملت در ملت اور ملک در ملک قوموں کی اجتماعی زندگی کومغربی دارالحکومتوں کے ہاں گروی رکھ دے اور اسلام کا بال بھی بیکا نہ ہو۔ یہاں منافقت کمال کو کمال بخش رہی ہے۔ کیا اس کے باوجود سمجھا جائے کہ افلاس زندگی کا دستور عام اور ایک عمومی کیفیت ہے۔ بحر افلاس میں امارت کے جزیروں کو زندگی کا معمول قرار دے کر اس امید میں جیا جائے کہ کبھی معجزہ رونما ہوگا امیروں کی سخاوت اور غریبوں کی رسم گدائی سے زندگی کوئی توازن تلاش کر لے گی۔
ہرگز نہیں !زکوٰۃ کی ادائیگی کسی کے نیک دل ہونے کا حوالہ نہیں ہے، غریبی اور افلاس لوح محفوظ کا لکھا نہیں کہ اسے قبول کر لیا جائے۔ زکوٰۃ معاملہ عدل ہے۔ یہ معاشرے کے جسد سے غریبی کے ناسور کو کاٹ پھینکنے کا ناگزیر عمل جراحت ہے۔ زکوٰۃ راجر گیراڈی کے الفاظ میں امیر زادوں کو کام کرنے اور ذخیرہ اندوزی کے بغیر اپنے اسباب سے نفع کمانے کی دعوت ہے۔ اگرہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے تو اڑھائی فیصد کے حساب سے یہ سب کچھ صرف چالیس سال میں کمیونٹی کو جا چکا ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک غربت اور افلاس زندگی کا کوئی عمومی دستور نہیں ہے اور نہ ہی وہ چاہتا ہے کہ کچھ اہل سخا سے غریبوں کی کفالت کا اہتمام کیا جائے۔ یہ نظام معاشرت میں کسی بڑی گڑبڑ ڈسٹارشن یا فتور درآنے کا سبب ہے۔ بقول حضرت علی رضی اللہ عنہ استحصالی طبقے کی امارت کتنے بندگان خدا کو غربت اور افلاس کے کنویں میں گرانے پر نمو پاتی ہے۔ کتنے لوگوں کے سماجی، سیاسی اور معاشی حقوق تلف ہوتے ہیں تو طبقہ امرا نمو پاتاہے۔ کتنے ذخیرہ اندوز اورناجائز منافع خور سماج کے جسد مقدس سے جونک بن کر خون چوستے ہیں اورپھر ان کے اس ناسور موٹاپے کو جہاز لیے پھرتے ہیں۔ معاشرے کے جسد عظیم سے استحصال و لوٹ مار کے اس ناسور کی سرجری اورضرورت پڑے تواس پر پلنے والی جونک کو ٹھکانے لگانے کا حل ہے اسلام کے پاس جو پہلے استحصالی طبقے سے خیبر سا معرکہ برپا کر کے ہتھیار ڈلواتاہے جو مال میسرآتا ہے مفلوک الحالوں میں بانٹا جاتا ہے، اور دیگر اپنی پتلی حالت ہونے کے باوجود اس تقسیم پر خوش ہوتے ہیں اور دل میں کوئی حاجت جگہ نہیں بنا پاتی۔ قرآن ان کے دلوں میں اٹھتے قناعت وخوشی کے تموج کو کیا خوبصورت پیرائے میں بیان کرتا ہے، ومن یوق شح نفسہ فاولائک ھم المفلحون۔ جنہوں نے اپنے نفس کا شعلہ حرص وہوس بجھا دیا وہ خوشحال ہو گئے۔ حضرت عاشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہجرت مدینہ کے بعد پہلی دفعہ فتح خیبرکے موقع پر ہم نے جی بھر کے کھجوریں کھائیں۔ تاہم فاتح خیبر کے گھراس رات بھی فاقہ تھا۔
قرآن کا کیا خوب اسلوب ہے فاما من اعطیٰ واتقیٰ و صدق بالحسنیٰ فسنیسرہ للیسریٰ۔ جو دوسروں کو دیتا ہے (معاملات اور مال واسباب کے باب میں) تقوٰی و توازن اختیار کرتا ہے اور اخلاقی اقدار کو لوح دل پر مرتسم پاتا ہے تو اس کیلئے ہم تسہیل کی شاہراہ کھول دیتے ہیں۔ بخل و نفاق و حرص و ہوس نفس اس شاہراہ کے سب سے بڑے بیرئرز ہیں اور ان بیرئرز کو خوبی عطا کی ضرب سے توڑ کرپہلے معاملات و مال واسباب کے باب میں تقویٰ و توازن پیدا کیا جاتا ہے پھر باب دل پر اخلاقی سچائیوں کی تنزیل دستک دیکر دیکھتی ہےبخل و حسد و نفاق حرص و ہوس جیسے نا محرم اگر وجود رکھتے ہوں تو واپس لوٹ جاتی ہے۔ جب کوئی ان بتوں کوکعبہ دل سے نکال باہر پھینکتا ہےتو اسے یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی کہ ہرتمنا دل سے رخصت ہوگئی۔ ۔ اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی۔ یہ تو پہلے باب دل کیساتھ دیوار سے لگ کر منتظر کھڑی ہوتی ہے کہ اس کے نا محرم رخصت ہوں تویہ طارق طرق الباب کا اعادہ کرے۔
معاشرے کی سماجی، سیاسی، معاشی اور مساواتی تشکیل و تجسیم میں انفرادی اوراجتماعی سطح پر کردار ادا کرنے کی ضرورت و اہمیت پر قرآن کریم کا کس درجہ زور ہے کہ اس کے نزدیک اس سن آف اومشن کی سزا حتمی تجزیے میں فرد اور کمیونٹی دونوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ وہ بندگان شکم جوایسے نظام اخلاق کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرنے کے برخلاف روزی روٹی اور مال اکٹھا کرنے کو ہی مقصد حیات سمجھ لیں انہیں قرآن نے عتل بعد ذالک زنیم کہا ہے۔ عتل کا مطلب کسی کو طالمانہ طریقے سے انتہائی کھردرے انداز میں گھسیٹنا ہے۔ یعنی ایسے افراد جن میں حرص ہوس اور لالچ ظلم سے اکتساب فیض کے ذریعے مال جمع کرتا ہو۔ یہ لوگ معاشرے کے جسم پر جونک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ معاشرے کی اخلاقی تجسیم میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے یہ شاہراہ حرص و ہوس کے مسافر ہیں ان کو نرم ترین انداز میں قرآن نے زنیم قرار دیا ہے۔ زنیم بکری کے کانوں کے نیچے لٹکتی گلٹیوں کو کہا جاتا ہے جن کا کوئی فزیالوجیکل فنکشن نہیں ہوتا، ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ بلکہ یہ گلٹیاں باقی جسم کے حسن پر ایک دھبے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
مفتی تقی عثمانی صاحب کا یہ بیان بھی بہت پہلے سنا تھا کہ مدارس چونکہ زکوٰۃ وصدقات پر چلتے ہیں اور یہ پیسہ لوگوں کے مال کا میل کچیل ہوتا ہے اس لیے بھی اسلام کا کام موثر طور پر نہیں ہورہا۔ گزارش ہے کہ قرن اول کا اسلام بھی زکوٰۃ وصدقات کے بل بوتے پر پھیلا، یہ متن پرستی کا سبب ہے کہ زکوٰۃ و صدقات کو میل کچیل کہا جارہاہے ورنہ بوقت وصال حضورﷺ کا وہ قول یاد کریں جب عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گھر میں جو پیسے ہیں ادھار چکا دو اور باقی صدقہ و خیرات دے دو۔ جب عائشہ نے تعمیل حکم کے بعد عرض کیا کہ فلاں فلاں کا قرض بھی چکتا کیا ہے اور اتنا صدقہ وخیرات میں چلا گیا اور یہ کچھ بچ رہا، فرمایا عائشہ ہماری بچت تو وہی ہے جو راہ خدا میں خرچ کیا، اس بچنے والے مال کا تو حساب دینا پڑے گا۔ تقدس دیکھئے راہ خدا میں بٹنے والے مال کا جسے یہ حرف پرست میل کچیل کہہ رہے ہیں۔ علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ صدقہ زکوٰۃ دینے والوں کو وصول کرنیوالوں کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ان کی وجہ سے ان کا یہ فریضہ پایہ تکمیل کو پہنچا ورنہ یہ مال ان کیلئے وبال جان بنتا۔ سید ہجویر نے اس بات کا بھی رد کیا کہ ہمیشہ دینے والے کا ہاتھ لینے والے کے ہاتھ سے اوپر ہوتا ہے۔ ایسا ہوتا تو پیغمبر اسلام راہ اسلام میں دیئے جانیوالا مال کبھی قبول نہ فرماتے۔ زکوٰۃ واحد ایسا فریضہ ہے جس کی ادائیگی کی نوبت خانہ رسول میں کبھی پیش نہ آئی۔ کیا خوبصورت فرمایا مولا علی کرم اللہ وجہ نے کہ سخی کبھی زکوٰۃ نہیں دیتا۔
نماز و زکوٰۃ ریاست اسلامیہ کے رکن رکین ہیں۔ اسلامی حکومت قرآن کے نزدیک نماز و زکوٰۃ پر عوامی مینڈیت کے ذریعے اقتدار میں آتی ہے خواہ بزریعہ جہاد وانقلاب آئے یا جمہوری عمل سے آئے اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس وجہ اقتدار ذمہ داری کو نجی شعبے کے حوالے کردے، جو معاشرے کی اخلاقی تشکیل و تجسیم کے ان بنیادی عناصر کو محض رسمی عبادت سمجھ کر بنیادی ارکان اسلام سے توانائی چھین کر انہیں کاٹھ کباڑ بنا دے جنہیں جلا کر مست الست حمام زندگی گرم کریں۔ مفتی تقی عثمانی کو چاہئے کہ وہ زکوٰۃ سے متعلق شاہ ولی اللہ دہلوی کا موقف جانیں جو زکوٰۃ کو ریاست کا پورا بجٹ قراردیتے ہیں۔
قرآن نے پانچ سو سے زائد بار زکوٰۃ کا نماز کیساتھ ذکر کیا ہے مگر شرح زکوٰۃ کو احوال زمان ومکاں اور دیگر علتوں کے سبب ریاست کی صوابدید پر چھوڑدیا۔ عراق فتح ہوا تو حضرت علی سمیت دیگر اصحاب کبار نے مال غنیمت کی تقسیم قرآن و اسوہ رسول کیمطابق اسی میتھا ڈولوجی پر چاہی۔ فکر کی آتشیں بھٹیاں جلنے لگیں دلائل لو دینے لگے کوہ بصیرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یاد رکھو اسلام جزیرۃ العرب سے باہر آ چکا ہے۔ صحرائے عرب میں سرمائے کی ریل پیل اور سونا اگلتی زمینوں کی فراوانی نہیں تھی۔ جنگوں میں مال غنیمت میں کچھ اونٹ بکریاں اور محدود مال ہاتھ لگتا تھا، مجاہدین میں مال غنیمت کی تقسیم کا صائب طریقہ وہی تھا جو قرآن اور اسوہ رسول نے تجویز کیا اب پورے پورے ملک اور دجلہ و فرات کی زرخیز زمینیں ہمارے ہاتھ آرہی ہیں، تقسیم غنیمت کا سابق طریق صائب نہ ہوگا۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرما یا قرآن اور اسوہ رسول سے ہمیں مطمئن کرنا ہوگا۔ عمر نے جواب دیا کہ سورۃ الحشر میں ہے کی لایکون دولۃ بین الاغنیامنکم۔ تمہیں دیکھنا ہوگا کہ دولت چند ہاتھوں میں مرکوز نہ ہو پائے۔ میں طریق سابق کو بروئے کار لائوں تو میتھاڈولوجی پر عمل ہوگا مگر روح قرآں متاثر ہوگی۔ بڑے بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار جڑ پکریں گے۔ سورۃ الحشر میں ہی دوسرے مقام پر فرما یاتقسیم کا ایسا طریقہ نہ اپنائو کہ نئے آنیوالے کہیں ہمارے لیے تو کچھ بچا ہی نہیں یوں آئندہ نسلیں جاگیرداروں کی مزارع ہوں گی۔ فرمایا سماجی انصاف کا تقاضاہے کہ املاک کو اسٹیٹ پراپرٹی قراردیا جائے تاکہ سب نفع حاصل کریں۔ یہ فیصلہ تہہ دل سے مان لیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ حضورﷺ کے چند سال بعد اگرتبدیلی حالات نئے فیصلوں پر مجبور کرتی ہے تو آج جب کیپٹلزم کا سرکش گھوڑا ملک کے ملک تاراج کررہا ہے، قرضوں کی بدولت پوری پوری قومیں عالمی مالیاتی اداروں کے ہاں رہین ستمہائے روزگار ہیں۔ بحر افلاس میں شاذ شاذ مال وتمول کے جزیرے ہیں۔ لاکھوں فاقوں سے مررہے ہیں اور چند ایک ہیرے سے خود کشی کر لیتے ہیں۔ کیا اڑھائی فیصدی زکوٰۃ سے امیر و غریب کے درمیان اس بعدالمشرقین کو پاٹا جا سکتا ہے۔ عہد جدید کی صنعتی معاشرت میں غریب ملکوں کے وسائل پر کوبرا ناگ کی طرح پھن پھیلائے آگ اگلتی کارپوریشنوں کے عہد میں جب قوموں کی تقدیر کے فیصلے ڈیووس یا قصر ابیض سے جاری ہوتے ہوں اور اپنی قوم کے وسائل اور ناموس بیچ کر بیرون ملک جائیدادیں بنانے والی قیادتیں مسلط کی جاتی ہوں تو اڑھائی فیصدی زکوٰۃ سے معاشرے کے جسد پر معاشی ناہمواریوں کے ناسور کی سرجری کیونکر ممکن ہو سکتی ہے۔
شاہ ولی اللہ علیہ رحمۃ لکھتے ہیں کہ احکام شریعہ میں عددی ایڈجسٹمنٹ کا تعین اس لیے ہے کہ ہر خاص وعام اپنی اپنی تعبیر سے الگ الگ گھوڑے نہ دوڑائے، تاہم یہ تعدد جوہر حکم نہیں ہے جیسا کہ سمجھ لیا گیا ہے۔ مثلاً مسافر کیلئے نماز قصر اور روزہ چھوڑنے کی رعایت بذات خود وجہ قانون نہیں ہے۔ وجہ قانون سفری مشقت اور دقت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آدھی نماز اور روزے کی رعایت کو جوہر قانون سمجھ لیا گیا ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں یہی معاملہ زکوٰۃ کے باب میں پیش آیا ہے کہ اڑھائی فیصد ی چمڑے میں بندھی روایت زکوٰۃ اور متن پرستانہ تعین مصارف نے ادارہ زکوٰۃ کے مخفی خوشگوار امکانات کو مسدود کردیا ہے۔
شاہ ولی اللہ گرامی قدر جن کا تصور دین بقول شبلی نعمانی رازی اور غزالی سے زیادہ اجلا ہے۔ سید مودودی کے مطابق شاہ ولی اللہ سے پہلے جتنا فلسفہ اسلام لکھا گیا یونانی اور ہندی فلسفوں کی سان پر وضع ہوا تھا اسے فلسفہ اسلام کے برعکس فلسفۃ المسلمین کہنا درست ھوگا۔ حقیقی فلسفہ اسلام شاہ ولی اللہ دہلوی کے رشحات قلم سے ابھرا۔ مسلم برصغیر کے یہ نابغہ روزگار مجدد ادارہ زکوٰۃ کی ایسی تشریع و تعبیر پیش کرتے ہیں کہ جدید فلاحی ریاست کے تمام شعبہ جات اور سرگرمیوں کے اخراجات نظام زکوٰۃ سے پورے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاہ صاحب نے (۹:۶۰) کیمطابق مصارف زکوٰۃ کی تشریع یوں پیش کی ہے کہ مصارف میں پہلے نمبر پر غریب و محتاج ہیں۔ دوسرے نمبر پر عمال ہیں۔ کیونکہ عہد رسالت کی ابتدائی سادہ ریاست میں عمال اس وقت کی سول سروس ہے، لہذا سول سروس کی تنخواہ مصرف زکوٰۃ میں آتی ہے۔ تیسرے نمبر پر مولفۃ القلوب ہے اور سفارتکاری کا بنیادی وظیفہ یہی ہے اس لیے جملہ سفارتی اخراجات مصارف زکوٰۃ میں شامل ہیں۔ چوتھے نمبر پر جنگی قیدیوں کی رہائی مصرف زکوٰۃ ہے۔ پانچویں نمبر پر غلام آزاد کرانا ہے جو اپنی آزادی خرید نہیں سکتے۔ چھٹا نمبر فی سبیل اللہ ہے راہ خدا کا مطلب ازروئے قرآن جہاد دفاع اور سماجی بہبود ہے جیسے صحت، تعلیم وغیرہ۔ ساتویں نمبر پر سفری سہولت فراہم کرنا ہے یعنی ذرائع مواصلات کا بجٹ بھی مصرف زکوٰۃ ہے۔
اسلام میں ادارۃ زکوٰۃ سے متعلق میرا احساس ہے کہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے شاہ ولی اللہ کا موقف ضرور پڑھا ہوگا۔ اس کے باوجود اگر وہ ریاست پاکستان کو مشورہ دیں کہ تقسیم زکوٰۃ کا فیصلہ صاحب ثروت اور صاحب نصاب افراد کی صوابدید پر چھوڑ دیا جائے۔ اس سے یقیناً اہل مدارس پر زکوٰۃ دہندگان کا انحصار بڑھنے سے مدارس کے فنڈز تو بڑھنے کا امکان ہے، ریاست اور اسلام کا کوئی بھلا نہیں ہے۔
نماز و زکوٰۃ پر بار مکرر عرض ہے کہ اسلامی ریاست کا ازروئے قرآن منشور یہی ہے جس کا عوام الناس انہیں بذریعہ جہاد و انقلاب یا جدید دور میں بذریعہ جمہوری اصول سیاست مینڈیٹ دیتے ہیں۔ مومنین کو جب زمین پر اقتدار ملتا ہے تو وہ نماز و زکوٰۃ کا انٹظام و انصرام کرتے ہیں یعنی وہ ایک سماجی سیاسی معاشی اور مساواتی نظام اخلاق کی تشکیل وتجسیم کرتے ہیں۔ ایسے نظام اخلاق کی پوری نمائندگی فریضہ نماز کے اندر موجود ہے مگر معاشی ناہمواریاں خدائے قرآں کا اتنا گہرا اور گھمبیر مسئلہ ہے کہ اسے زکوٰۃ کے عنوان سے الگ کماحقہ ایڈریس کیا ہے۔ عربی لغت میں مصلی اس گھوڑے کو کہتے ہیں جس کا منہ ریس کے دوران اپنے سے اگلے گھوڑے کی پونچھ یا دم سے ٹچ کررہا ہو یعنی اگر وہ گھوڑا پونچھ سے ذرا پیچھے رہ گیا مصلی نہیں کہلا سکتا۔ مطلب یہ ہے کہ مومنین جب احکام واقدار قرآن کے گھوڑے کو جو ثقافت اسلامیہ کی تشکیل و تجسیم کےلیے دوڑرہا ہے اس سے قدم ملا کر سعی و جدوجہد کریں گے تو حقیقی مصلی یعنی پابند نماز کہلانے کے سزاوار ہوں گے۔
قرآن کی رو سے عبادات و معاملات کی دوئی جیسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ یہ دوئی عہد ملوکیت کا تحفہ ہے۔ اسلام میں عبادات و معاملات ہم زیست وہم قالب و ہم رکاب و یک جان ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے بغیر وجود قائم نہیں رکھ سکتے۔ اگر معاملات بندگی سے نکل جائیں تو سرزوری کہلائیں گے، معاملات بھی عبادات ہی ہیں۔ آںحضورﷺ کا قیام الیل ہو یاتلاوت قرآں اور مجاہدات و مشاہدات سب کا نکتہ ماسکہ ایسے نظام اخلاق کو تاریخ کے گوشت پوست میں انجیکٹ کرنا تھا جس کا عہد حضرت انسان نے روز آفرینش اپنے خالق حقیقی سے باندھا تھا۔ اس میثاق کی بجاآوری طاق نسیاں ہوئی تو ہمیں فلک نے ثریا سے زمیں پر دے مارا۔ ڈاکٹر اسد لکھتے ہیں کہ انہیں شیخ لاظہر سے ملاقات کیلئے جامعہ الاظہر جانے کا اتفاق ہوا، کلاسیں لگی ہوئی تھیں شیخ الاظہر نے اساتذہ اور طلبا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھیں یہ سب تفکر سے خالی بھارت کی گلیوں میں لکھے ہوئے مگر متروکہ کاغذ نگلتی گائیں ہیں۔
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
(Visited 1 times, 1 visits today)