کتاب دوستی۔۔روبینہ فیصل | مکالمہ
یونیسکو نے 23 اپریل کوجو ولیم شیکسپئر اور ولیم ورڈزورتھ کا یوم وفات بھی ہے، 1995 میں کتاب کے عالمی دن کے نام سے مخصوص کر دیا تھا۔ اور اب پاکستان میں بھی اس تاریخ کو عالمی کتاب کے دن کے طور پر منایا جا تا ہے۔ میں اس دن کو مناتے ہو ئے قارئین کے ساتھ اپنی کچھ بچپن کی یادیں شیئر کرنا چاہوں گی۔مجھے لگتا ہے کتاب سے محبت، انسان کے خون میں باقی محبتوں کی طرح شامل کر کے ہی بھیجی جاتی ہے۔مجھے وہ دن یاد ہے جب میں اور میرا بھائی بیٹھ کر اپنی بڑی بہن کی دوست، جو ہمسائے میں ہی رہتی ہے کے نام ایک رقعہ لکھتے ہیں جس میں وہ دوستانہ بے تکلفی اور مان سے اپنی دوست کو لکھتی ہے کہ” تمھارے ابو نے جو بھی نئے رسالے منگوا کے دئیے ہیں اگر پڑھ لئے ہیں تو ان دونوں کے ہاتھ بھجوا دو،اور اگر ابھی تک نہیں پڑھے تو پھر بھی بھجوا دو کہ پھر میں پڑھ کر تمہیں بھجوا دوں گی۔۔ ” چونکہ ہم دونوں کی لکھائی بہن کے مقابلے میں ذرا کم اور شرارت بہت ذیادہ تھی اس لئے ہمیں ان چار لائنوں کو گھسیٹنے میں لکھائی کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ رقعے کے مضمون کو سنجیدہ رکھنے کے لئے دگنی محنت کر نی پڑ رہی تھی اور امید یہی تھی کہ جب تک اُن دونوں سہیلیوں کی آپس میں ملاقات ہو گی تب تک ہم وہ رسالے، کتابیں پڑھ چکے ہو نگے کیونکہ بچوں کی کہانیاں پڑھنے کی سپیڈ اس وقت ایسی ہی ہوا کرتی تھی جیسی اب سمارٹ فونز پر ٹائپ کرنے اور میسج فارورڈ کرنے کی ہے۔اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ پہلے بچوں کو صرف اور صرف درسی کتب پڑھنے کی تلقین کی جاتی تھی، اور غیر نصابی کتب کا مطالعہ، ایک” عیاشی” تصور کی جاتی تھی اور اسی بنا پر بچوں کو ان سے دور رکھنے کی مسلسل کوشش ہوا کرتی تھی، بالکل ایسے ہی جیسے آج کل ماں باپ بچوں کو موبائل فونز سے دور رکھنے کی کوشش کر تے ہیں۔۔
کل کا مورخ آج کی تاریخ پر جب لکھے گا تو یہی لکھے گا کہ کیا زمانہ تھا جب والدین،اپنے بچوں کو سمارٹ فونز سے دور رکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔۔توبہ توبہ۔۔ اور جیسے آج ہم ان دنوں کو حسرت سے یاد کرتے ہیں کہ کیا دن تھے جب بچے کتابیں پڑھنا چاہتے تھے اور ماں باپ روکا کرتے تھے۔ آج ماں باپ پریشان ہیں کہ کسی طرح بچہ فون چھوڑ کرکوئی سی بھی کتاب پکڑ لے۔۔۔مگر آہ! اسی کو تو بدلتے وقت کے بدلتے تقاضے کہا جاتا ہے۔
آج مجھے اپنی کتاب چوری کا ایک منظر بھی یاد آرہا ہے (اس کو یقیناً ہم موبائل چوری کے ہم پلہ نہیں رکھ سکتے)،اشتیاق احمد (کہ اس وقت ابن ِ صفی کی عمران سیریز ذرا مشکل لگا کرتی تھی) کا نیا ناول آیا۔۔ کیا کیا جائے؟ پیسے نہیں تھے اور اسی لئے بک سٹور میں اسے شوکیس میں جگمگاتے ہو ئے دور سے ہی دیکھ کر آہیں بھر لی تھیں۔ ان دنوں ہم ایک گھر کے نچلے پورشن میں عارضی طور پر کرائے دار کی حیثیت سے رہتے تھے،مالک مکان جو کہ بالائی حصے میں مقیم تھے، ان کے بچے بھی تقریبا ہً مارے ہم عمر ہی تھے۔ایک سنہری شام انہوں نے ہمارے ساتھ کھیلتے کھیلتے بتایا کہ ان کے ابو نے کل ان کو بہت سے نئے رسالے اور کتابیں لا کر دی ہیں، نام پو چھے تو بہت سے جنوں اور شہزادیوں والی کہانیوں کے ساتھ وہی کم بخت نئی والی عمران سیریز بھی شامل تھی۔ میں نے ان دوستوں سے وعدہ لیا کہ وہ پڑھ کر ہمیں ضرور دیں لیکن وہ رات نہ نجانے ہم نے کیسے گزاری، ہمیں لگا کہ پڑھے بغیر اس دل ِ بے قرار کو قرار کسی صورت نہیں آسکتا لہذ اگلی صبح زندگی کی پہلی اور آخری چوری کی صبح بن کر تاریخ کے اوراق میں درج ہوگئی۔ میرا بھائی جو اس وقت انتہائی پھرتیلا ہوا کرتا تھا، اس محاذ میں اہم کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔اور ہم نے سب سے چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ ملا لیا اور ہم تینوں نے انتہائی منظم طریقے سے چوری کی وہ انوکھی واردات کی۔ممکنہ متاثرین کے اس بیڈ روم کی بالکنی کھلی تھی، جہاں ہمارے اندازے کے مطابق نئی نکور کتابوں کے پڑے ہونے کا امکان تھا،چھوٹے کو گلی کی نکڑ پر کھڑا کیا، میں خود اپنے دروازے کے آگے کھڑی ہو گئی کہ ہمارے پورشن سے ہی امی، ابو یا کوئی بڑی بہن نہ نکل آئے،اور وہ ہمارا مرکزی کردار انتہائی پھرتی سے پائپ سے اوپر چڑھا، بالکنی کراس کی اور چند ہی لمحوں میں مطلوبہ مال نیچے پھینکا جسے میں نے انتہائی مہارت سے کیچ کیا اور اس کے بعد ہم تینوں بہن بھائیوں نے اپنے آپ کو کو ایک کمرے میں نظر بند کیا کہ رات تک” ان “کے آنے سے پہلے پہلے سب چوری کا مال پڑھنے کا ٹارگٹ تھا، کہ ان کی واپسی پر پکڑے بھی گئے تو کم از کم تب تک سب پڑھ تو چکے ہوں گے۔۔۔
تویہ تھے بچپن کے حالات اور واقعات کہ غیر نصابی کتاب ایک عیاشی لگا کرتی تھی اسی لئے بڑے روکنے کی جتنی کوشش کرتے بچے اتنا ہی اس کی طرف کھنچتے چلے جاتے تھے۔۔ ویسے بھی یہ انسانی فطرت ہے کہ جو چیز بھی ممنوع ہو، وہ،اسی کی طرف مائل ہوتا ہے۔حضرت ِ آ دم کی کشمکش سچی اور شیطان کا کردار تو فرضی ہے۔بہکنا تو انسان کے اپنے وجود کا حصہ ہے۔اسی لئے تو کہا جانے لگا ہے کہ جس چیز سے نفرت کروانی ہو اسے نصاب میں شامل کر دو،اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ ہمارا اردو، انگریزی کی پہلی کتاب سے ایف ایس ای تک اور پھر ایم انگریزی میں کہانیوں کی بھرمار، چاہے اب وہ ہمارے پسندیدہ مصنفین کی ہی کیوں نہیں تھیں، انہیں پڑھنے کو دل نہیں کیا کرتا تھا۔خیر وہ طالبعلمی کا ایک وقت ہوتا ہے جب انسان کو” کل کیا ہوگا “یا “میرا کیا بنے گا”، ایسے سوالات اور ماں باپ کی امیدیں اور اپنے خواب اور استادوں کے رویے، ہر چیز ہی اپنے اپنے انداز سے متاثر کر رہی ہو تی ہے۔۔ اور آپ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کی بوریت اور کشش کے ناسمجھ آنے والے چکر میں الجھے رہتے ہیں۔ وہ وقت گزر گیا۔
اور پھر اچانک بی کام کرتے ہو ئے انگریزی ادب پڑھنے کا شوق چرایا، تو وقت ضائع کرنے کے الزام کے ساتھ لعنت ملامت شروع ہو گئی تو اسی شوق کو’ حلال’ طریقے سے پورا کرنے انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کی ٹھان لی،اسی چکر میں بی اے بھی کرنا پڑا(کیونکہ بی کام والوں کو ایم اے انگریزی ادب میں کس نے داخلہ دینا تھا)۔اس مختصر عرصے میں،زندگی میں پہلی دفعہ (پہلے سائنس اور پھر کامرس سے پالا پڑا تھا)آرٹس سبجیکٹ پڑھے جن میں فارسی، صحافت اور پنجابی (پاکستانی معیار سے بے کار مضمون پڑھے تاکہ نمبرز خوب آئیں) شامل تھے تو دل میں ایک کسک اور بڑھ گئی۔۔ پنجابی اور فارسی زبان کے حسن نے آنکھوں کو چندھیا دیا۔ لیکن پنجابی یا فارسی پڑھنے اور اس میں ڈگری لینے والوں کو کیا ملتا ہے پاکستان میں؟ بلکہ ان مضامین پڑھنے والوں کو نکما اور نالائق کہا جاتا ہے۔اگر کسی زبان میں ماسٹرز کرنا ہی ہے تو بس وہ انگریزی ہو گی۔۔ بس یہ سنتے ہی انگریزی زبان سے ایک خنس سی محسوس ہوئی۔۔ انڈر ڈاگز کے ساتھ ہمدردی ہونا، اور جس کی بلے بلے ہو رہی ہو اس سے دامن بچا کے چلنا یہ میری ذات کی ایسی کمزوری (طاقت تو کسی صورت نہیں) ہے کہ جس کی بنا پر یہ” بوٹا “کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔۔خیرانگریزی زبان کے ساتھ جڑے اس معاشرتی تفاخر اور احساس برتری نے مجھے اس سے وقتی طور پر دور کر دیا اور میں ایم انگریزی کے کئے جانے والے دنوں میں اردو زبان کے قریب ہو گئی (بدقسمتی سے پنجابی اور فارسی کا نہ کوئی استاد دسترس میں تھا اور نہ کوئی کتاب)۔۔ایک دوست نے جو ہیلی کالج کے دنوں میں اردو اور انگریزی ادب کی کتابیں دیا کرتا تھا، وہی سلسلہ اب صرف نئی نئی کتابوں کے نام بتانے تک محدود کر دیا کہ ہم دونوں کی کالج کی عمارتیں مختلف اور” ہر طرح “کے فاصلے بڑھ گئے تھے۔
یہ جو کہانی ہے یہ صرف میری نہیں ہے یہ اس دور کے پاکستان میں پلنے بڑھنے اور تعلیم پانے والے تقریبا ً ہر طالبعلم کی ہے۔ ادب سے لگاؤ کی کوئی صورت اسے نظر نہیں آتی ہے اور نہ اسے کوئی فائدہ بتایا جاتا ہے۔ ہوش سنبھالتے ہی اسے صرف اور صرف درسی کتب، موٹے موٹے نوٹس (آج کل تو پاکستان میں ٹیوشن سنٹرز نے حالات اور بھی مخدوش کر دئیے ہیں)، امتحانات میں بے تحاشا نمبرز۔۔ اور بننا کیا ہے؟ صرف ڈاکٹر یا انجئینر۔۔ یا سی ایس پی آفیسر۔۔ ان سب سے وابستہ ایک ہی امید ہو تی ہے، نام، عزت اور دولت(پورے خاندان کی)۔۔ گو کہ میرے نزدیک یہ پیشے، ہر دوسرے پیشے کی طرح قابل ِ احترام ہیں۔۔مگر ان پر زور دینے والے دوسرے پیشوں کو حقیر سمجھتے ہیں تو مجھے اختلاف ہوتا ہے کہ ایسے رویوں سے معاشرے میں توازن بگڑتا ہے۔۔ کتاب سے دوری کے بعد یہ دوسرا بڑا المیہ ہے جو ہمارے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔ ڈاکٹرز، انجئینز ضروری ہیں مگر اس لئے نہیں کے باقی پیشے غیر ضروری یا حقیر ہیں۔ یہ چند شعبوں کی دوڑ ختم ہو جائے تو ہر بچہ، ہر انسان اپنی پسند کے پیشے میں جا کر کامیاب ہو سکتا ہے اور پر سکون بھی۔مگر یہ سب ناممکن سا ہو گیا ہے کہ سطحی سوچیں معاشرے کے دماغ سے اس وقت ختم ہو نگی جب اس کے دماغ کو کھاد ٹھیک سے ملے گی اور یہ کھاد ہے” کتاب”۔ اور کتاب میں بھی ہر وہ کتاب جس سے انسان کچھ سیکھے،اس کے شعور کی کھڑکی کھلے، اس کے اندر خود سے سوچنے کی تحریک پیدا ہو اور یا دلچسپ ہو،آپ کی روح میں ٹھنڈڈال دے۔
قورنٹین کے دنوں سے فائدہ اٹھائیے؛ وہ عادت جو اس معاشرے نے ہم سے چھڑوا دی ہے اسے پھر سے اپنائیں۔۔ بیٹھیں اور سوچیں کہ آپ کو کس موضوع سے دلچسپی ہے۔ تاریخ؟ اس میں بھی یورپ کی تاریخ، امریکہ کی، برصغیر کی۔۔ کس کی؟
انقلاب سے دلچسپی ہے؟ جن ممالک نے انقلاب بپا کئے تھے، وہاں کیا زمینی حقائق تھے؟ ایک قوم انقلاب کے لئے کب تیار ہو تی ہے؟ یہ انقلاب کہاں سے اٹھتے ہیں اور کدھر کو جاتے ہیں؟۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
کہانیوں کا شوق ہے؟ بنگالی،پنجابی، اردو، روسی، فرانسیسی، لاطینی امریکی،عربی یا فارسی(سب کو کھوجیں)۔۔۔
سائنس فکشن اور سائنس کی کتب دیکھیں۔۔ نفسیات سے دلچسپی ہے تو لازمی نہیں کہ اس میں ڈگری ہی ملے، ویسے ہی پڑھیں۔۔
پاکستان کی تاریخ پڑھیں۔۔ بننے سے بگڑنے تک۔۔ فکشن نان فکشن سب پڑھیں۔۔۔
مذاہب میں دلچسپی ہے تو مذہب پڑھیں۔۔ تاریخ اسلام، بدھ مت، ہند ومت، عیسائیت، زرتشت، یہودیت۔۔۔ فلسفہ پڑھیں،حتی کہ کھانے پکانے یا باغبانی کا شوق ہے تو اس کی کتابیں پڑھیں۔۔۔
کتاب پڑھیں !کتاب ایک ٹائم مشین ہے جو آپ کو نا صرف دنیا کے کسی بھی ملک میں جہاز میں بیٹھے بغیر لے جا سکتی ہے بلکہ کسی بھی زمانے میں آپ کو یوں لے جائے گی جیسے آپ وہیں کے رہنے والے ہوں۔۔ میں نے تو جب تاریخ کی کوئی کتاب اٹھائی خود کو وہیں پایا، انہی زمانوں میں ادھر اُدھر گھومتے پھرتے۔۔
کتاب سے محبت میرے اندر تو موجود تھی مگر اسے پنپنے کا موقع کینیڈا کی سر زمین میں ملا، جہاں میں نے اپنے چھ مہینے کے بچے کو بھی کہانی سنائی، جہاں میں نے سکولز میں گریڈ ون سے بچوں کو کہانیوں سے محبت اور کتابوں پر تجزئیے کرتے دیکھا۔ جہاں میں نے بچوں کو کسی بھی کتاب کو رٹتے نہیں بلکہ سمجھتے دیکھا،جس سے انہیں کتاب بوجھ نہیں بلکہ اپنی ذات کا حصہ لگتی ہے۔ یہاں میں جگہ جگہ پبلک لائبریرز کا جال بچھا دیکھتی ہوں اور پہلی دفعہ جب یہاں کتابیں ایشو کروانے گئی تو خوشی کے مارے پاگل ہوگئی کہ جتنی چاہیں کتابیں اٹھاؤں کوئی حد نہیں تھی۔ ایک تھیلا بچوں کی کتابوں کا بھر لیا اور ایک اپنے لئے۔ پندرہ دن واپسی کی شرط تھی مگر ساتھ میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ واپسی کی مدت فون یا سائٹ پر جا کر بڑھا سکتے ہیں۔کینیڈا کی لائبیری چلی جاؤں یا کسی بک سٹور، ان کتابوں کی خوشبو میں گھنٹوں گزار لوں تو بالکل وہی احساس ہے جیسے میں کسی فارن ملک کا ٹرپ کر آئی ہوں۔۔ مکمل خوشی کا احساس۔
کچھ دوست قرنطینہ کے ان دنوں میں گھبرا کر جب چلا اٹھتے ہیں کہ نہ جانے یہ دن کب ختم ہو نگے،ہم تو بور ہو گئے اور میں دل ہی دل میں سوچتی ہوں کہ جب تک میری سٹڈی میں اور میرے بیڈ کی سائیڈ پر رکھے بک ریکس میں کتابیں موجود ہیں، میری بوریت کے دن کبھی نہیں آنے والے۔۔ حقیقت میں،میرے لئے یہ یکسانیت سے بھرے دن ہی بڑے دلکش ہیں کہ دنیا زمانے کے تمام رنگ میرے تکیے کے نیچے کسی نہ کسی کتاب کی صورت موجود رہتے ہیں۔۔
اور جب تک میرے یہ رنگ برنگے دوست میرے ساتھ ہیں،نہ لوگوں کے بچھڑنے اوربدلنے کا احساسِ ضیاع، نہ کوئی احساسِ تنہائی،نہ کسی قسم کا وسوسہ یا اندیشہ اور نہ کو ئی گھبراہٹ یا بوریت ہے۔۔ میری کتابیں میرے ساتھ تو ہر طرف سب اچھے کی آواز ہے اور بور ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا بلکہ ان کی خوشبو سے ہی میں کھل اٹھتی ہوں۔۔۔۔آپ بھی یہ تجربہ کر دیکھیں۔۔ کتابوں کو دوست کر دیکھیں۔