’’ بے راہ معاشرہ ‘‘
اگر کسی ملک میں کرپشن ، بدعنوانی، ناقص طرز حکمرانی موجود ہو تو معاشرہ ایک ایسا معاشرہ بنتا ہے جس کی کوئی روشن اور واضع منزل نہیںہوتی ۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں موجود کرپشن کے باعث چند مخصوص گروپ ملک کے مجموعی وسائل پر قابض ہیں۔ جبکہ عوام کو صوبائیت ،لسانیت، مذہبی اور فقہی مسائل کی دلدل میں دھکیلا جاچکا ہے، معاشرے سے سچ جھوٹ اور حلال حرام کا فرق تقریباً ختم ہی ہو چکا ہے۔ جبکہ عوام کو سستے اور باسہولت انصاف کی عدم فراہمی ، دفتری و سرکاری امور کی انجام دہی میں اقرباء پروری اور بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر معاشرے میں بے چینی، بد نظمی اور جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کا سامنا ہے۔ وطن عزیز میں اٹھنے والی شورشوں کی بنیاد گروہی اور علاقائی سیاست ہے جس نے ابھی تک اس ملک کے لوگوں کو ایک مضبوط پاکستانی قوم کی حیثیت سے ابھرنے کا موقع نہیں دیا، ہمارے ملک میں ایک طویل عرصے سے امیر افراد ، امیر تر اور غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جارہاہے۔ اس صورت حال نے نہ صرف معاشرے میں بے چینی اور مایوسی کو جنم دیا ہے بلکہ مختلف جرائم کو پیشے کی شکل بھی دے دی ہے اور لا قانونیت کے مظاہرے اکثردیکھنے میں آتے ہیں۔ ایسی صورتحال نے معاشرے سے سکون اور چین کو ختم کردیا ہے۔ ہمارے ملک میں اجرتوں اور اشیائے صرف کی قیمتوں کے درمیان تناسب بھی عدم توازن کا شکار ہے، سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر مزدور کی جو کم سے کم ماہانہ تنخواہ مقرر ہے، وہ اشیاء کی قیمتوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس پر سونے پہ سہاگہ لوگوں کی مادی زندگی کی طرف اندھی دوڑ ہے۔ کم تنخواہ والا بھی اعلیٰ فریج، ٹیلی ویژن اور مہنگے سمارٹ فون کے بغیر زندگی گزارنے پر تیار نہیں اور جن کی تنخواہیں یا آمدنی معقول ہیں ان کی اکثریت بھی ایسی پر تعیش زندگی بسر کرنے کی عادی ہوچکی ہے کہ اپنی جائز آمدنی کے ساتھ ناجائز ذرائع سے آمدنی حاصل کیے بغیر ان کا گزارہ نہیں ہوتا۔ قناعت ختم ہوگئی ہے، اس امر نے معاشرے میں مختلف قسم کے جرائم اور بد نظمی کو جنم دیا ہے۔
آج اس امر کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ ملک کے نصاب تعلیم میں ایسے موضوعات اور علمی مباحثوں کو شامل کیا جائے جس سے پاکستانی طالب علموں میں حب الوطنی، ایثار اور پاکستانی قومیت کے جذبات میں زیادہ سے زیادہ نکھار پیدا کیا جاسکے اور انہیں بلند کردار پاکستانی بنایا جاسکے تاکہ جب وہ عملی زندگی میں داخل ہوں تو جرائم اور ملک دشمن سرگرمیوں سے محفوظ رہیں۔ ہمارے اکثر ٹی وی ڈرامے جس قسم کی طرز زندگی عالیشان مکانات اور رہن سہن دکھاتے ہیں وہ ہمارے معاشرے میں عام آدمی کو میسر نہیں ہیں۔ ان ڈراموں نے ہمارے نوجوانوں میں خصوصاً احساس محرومی کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے اور ان کی اکثریت شارٹ کٹ سے ایک ہی رات میں امیر بننا چاہتی ہے اور اس کے حصول کے لیے انہوں نے جائز، ناجائز اور اچھائی اور برائی کی پہچان ہی ختم کر ڈالی ہے۔ اگر ہمارے ٹی وی چینلز ایسے بامقصد پروگرام پیش کریں جن سے لوگوں کی کردار سازی ہو ان میں صبر، استقامت، شکر، ایمانداری اور حب الوطنی کے اوصاف اور جذبات پیدا ہوں تو اس سے معاشرتی بے چینی اور بد نظمی میں بڑی حد تک کمی آسکتی ہے۔ ہمارے لیے اس وقت یہ بات بڑی اہم ہے کہ ملک کے تمام علاقے ایک قومی نکتہ نظر سے ملک کی ترقی کے لیے کام کریں اور پاکستان کے عوام کو ایک مضبوط پاکستانی قوم بنائیں۔ گروہی اور علاقائی، صوبائی و لسانی سیاست ہمارے مفاد میں نہیں ہے، اس سے صرف بیرونی سازشوں اور مداخلت کو تقویت ملتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں اس وقت جو بے سکونی، بے چینی اور خوف و ہراس نظر آتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی معاشرہ غیر منطقی طور پر بہت زیادہ سیاست زدہ بن چکا ہے۔ دنیا کا کوئی معاشرہ ہمیں اپنے ملک کی طرح سیاست زدہ نظر نہیں آتا۔ جب ہمارے ملک میں انتخابات ہوتے ہیں تو عوام اپنے نمائندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کرکے اسمبلی میں بھیج دیتے ہیں اس کے بعد یہ منتخب نمائندوں کا کام ہوتا ہے کہ اسمبلی میں عوام کی نمائند گی کریں اور اپنے سیاسی اور ملکی مسائل کو اسمبلی میں زیر بحث لاکر انہیں حل کریں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے اسمبلی میں موجود ہیں،اس کے باوجود یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ کسی بھی چھوٹے یا بڑے سیاسی یا ملکی مسئلے پر عام لوگوں کا سیاست پر بحث مباحثے کرنااور ضرورت سے ذیادہ دلچسپی لینا کیا معنی رکھتا ہے، ایک عام شہری بھی ملکی سیاست پر بڑی بڑی باتیں کرتا نظر آتا ہے۔ گھر ہو یا دفتر، تعلیمی ادارے ہوں یا کاروباری ادارے، بازار ہوں یا تفریح گاہ الغرض کہ ہر جگہ ملکی سیاست زیر بحث رہتی ہے جن لوگوں کو سیاست کا مفہوم تک نہیں معلوم وہ اپنا کام چھوڑ کر سیاسی مباحث میں الجھے نظر آتے ہیں۔ سیاسی مسائل کا حل عوام کے پاس کب ہے؟ سڑکوں پر سیاسی جماعتوں کی آئے دن ریلیاں اور جلسے اور جلوسوں نے سارے معاشرے کو سیاست زدہ بنادیا ہے۔آئے روز کے دھرنوں ، مظاہروں کے ماحول نے ایک غیر یقینی صورت حال کو جنم دیا ہے جس سے ہر شہری عدم تحفظ کا شکار ہوا ہے، جب کہ دوسری طرف ملک کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قانون سازی کا عمل سست رہتا ہے، ارا کین اسمبلی و حزب اختلاف کا ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے مثبت تجاویز پیش کرنے کا سلسلہ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔جبکہ ایوان میں عوامی مسائل کی نسبت ذاتی اور پارٹی مسائل پر ذیادہ توجہ دی جاتی ہے۔
ہمارے ملک میں عوام کی بے چینی اور بے اطمینانی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ شہریوں کو انصاف یا تو ملتا ہی نہیں ہے اور اگر ملتا بھی ہے تو وہ بروقت نہیں ملتا۔ اس میں اتنا عرصہ لگ جاتاہے کہ اکثر انصاف کا طالب شخص اس دنیا سے ہی گزر جاتا ہے۔ جرم چھوٹا ہو یا بڑا، نا انصافی پر متاثرین کی داد رسی اگر وقت پر ہو جائے تو شہریوں میں اضطراب اور بے چینی کی صورت بڑی حد تک ختم ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں تعلیم کے تناسب کی بہت زیادہ کمی نے بھی اس ملک کی صورت حال کو خراب کیا ہے۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے جس کی بیشتر آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جو گزر اوقات سے بھی نچلی سطح پر زندگی گزار رہی ہے اور تعلیم سے بھی بے بہرہ ہے، غریب اور ان پڑھ نوجوانوں کو غلط سمت یا برے کاموں کی طرف راغب کرنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوتی۔ ہمارے ملک میں ہونے والے مختلف جرائم میں بیرونی سازشوں کا بڑا دخل ہے جن میں ہمارے ان غریب اور ان پڑھ نوجوانوں کو با آسانی آلہ کار بنالیا جاتاہے، ہمارے ملک میں خواتین کی آبادی تقریباً 51 فیصد بتائی جاتی ہے جب کہ ہمارے دیہاتوں میں لڑکیوں کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح خواتین کی اکثریت جن کی گود میں بچہ پل کر جوان ہوتا ہے وہ بالکل ان پڑھ ہوتی ہیں اور اپنے بچوں کی صحیح سمت میں تربیت نہیں کر پاتیں۔ اگر انسان کی بنیادی اور ابتدائی تعلیم درست ہو تو وہ تمام نا مساعد حالات اور غربت میں بھی بھٹکتا نہیں ہے۔
معاشرے میں بے سکونی اور عدم اطمنان کی ایک بڑی وجہ سرکاری دفاتر اور اداروں، اور عدالتوں میں انگریزی سرکاری زبان کا نفاذ ہے، ایک ایسا ملک جس ک نصف سے زائد آبادی دیہاتوں اور قصبوں میں رہتی ہو ، جہاں شرح خواندگی کا فقدان ہو ایسے ملک کی حکومت کا انگریزی زبان کے نفاذ پر بضد رہنا اونٹ کو رکشہ میں بٹھانے کے مترادف ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرکے عوام کے لئے قانون پسند بننے کی مثال قائم کرے تاکہ عوام بھی عدالتوں کے احکامات کی پاسداری کرنے والے بنیں، اور اردو کو بطور سرکاری زبان فوری طور پر نافذ کیا جائے۔ حکومت کو چاہئے کہ عوام میں بے چینی، احساس کمتری اور احساس محرومی کو فروغ دینے کی بجائے ان کے لئے کا تعین کرے اور ان کے لئے آسانیاں اور احساس تحفظ پیدا کرے تاکہ عوام پاکستان سکھ کا سانس لے سکیں۔
[button color=”red” size=”medium” link=”http://” icon=”” target=”false”]رانا اعجاز حسین[/button]