“خواتین کا دن” میں بس اسٹاپ کھڑی تھی اور میری نظر…
میں بس اسٹاپ کھڑی تھی
اور میری نظریں آتے جاتے ھوئے ھر مرد پر
آتی جاتی ھوئی ھر گاڑی پر ٹِک جاتی تھیں
میں اس انتظار میں تھی
دیکھو کب کوئی آنکھ اشارہ کرے
سُنوں کب کسی گاڑی کا ھارن بجے
اورمیں سوچ رھی تھی اگر میں آج بھی
خالی ھاتھ گھر لوٹی تومرے بچوں کو
کل کی طرح آج بھی بھوکا سونا ھو گا
بس اس خیال کے آتے ھی
میری جان فنا ھونے لگی
اور اب آتے ھوئے مردوں کو
اور جاتی ھوئی گاڑیوں کو
دیکھنے میں شدت آگئی تھی
گُذرے ھوئے پانچ سالوں کے ھر دن نے
مرے وجود پر اُنگلیوں کے اتنے نشان چھوڑتے تھے
جس نے میرا حُلیہ ھی بگاڑ کے رکھ دیا تھا
اب مُجھے بھرے پیٹ والوں سے زیادہ
خالی پیٹ والے بھوکوں کو ڈھونڈنا پڑتا تھا
وہ بھوکے جنھیں بھوک کی شدت
میں باسی دال بھی مُرغی کا مزہ دیتی ھے
ابھی انھی خیالوں میں گُم تھی کہ
مرے قریب ایک موٹر بائیک آ کے رُکی
اُس شخص پر نگاہ پڑتے ھی میں نے سوچا,
“چلو آج کے دن کے لیے تو کوئی بھوکا مِلا”
یہ بھوک بھی کتنی عجیب ھوتی ھے نا
ایک بھوکے کی بھوک کتنے بھوکوں کا
پیٹ بھرنے کا سبب بنتی ھے
بھوک کے اسی فلسفے کو سوچتے ھوئے
میرے ھونٹوں پر اک تلخ مُسکراہٹ اُبھر آئی
دو گھنٹے بعد میں
جب اُس شخص کے گھر سے اُٹھی
حسبِ معُاہدہ اُس نے میرے ہاتھوں پر کُچھ روپے رکھ دیئے
ارے یہ کیا؟
اس میں تو ایک سو کا نوٹ زیادہ ھے
مرے اس سوال پر اُس شُخص نے مُسکراتے ھوئے کہا
ھاں , یہ سو کا نوٹ میں نے ھی زیادہ رکھا ھے
“آج خواتین کا دن ھے”
تم ان پیسوں سے میری طرف سے دودھ پی لینا
اور میں سوچ رھی تھی
یہ ’خواتین کا دن‘ بھلا کیا بَلا ھے؟
میری مُٹھی کی گرفت تو بس یہ سوچ کر
اُس زائد ملنے والے سو کے نوٹ پر سخت ھو گئی تھی
کہ یہ “خواتین کا دن” بھی کتنا اچھا ھے
جس نے میرے بچوں کے کل دوپہر کے
کھانے کا بھی انتظام کر دیا ھے
“نامعلوم”
بشکریہ
https://www.facebook.com/Inside.the.coffee.house