عکسِ خیال
زھرہ نگاہ کی یہ نظم ھمارے معاشرے کا ایک شرمناک پہ…

زھرہ نگاہ کی یہ نظم ھمارے معاشرے کا ایک شرمناک پہلو بلکہ ایک ناسُور اَسقاطِ حَمل (ابورشن) پر ھے جو یہ پتہ چلنے پر کہ ھونے والی اولاد بیٹی ھے کروا دیا جاتا ھے۔
”میں بچ گئی ماں“
میں بچ گئی ماں
میں بچ گئی ماں
تیرے کچے لہُو کی مہندی
مرے پور پور میں رَچ گئی ماں
میں بچ گئی ماں
گر میرے نقش اُبھر آتے
وہ پھر بھی لہُو سے بھر جاتے
میری آنکھیں روشن ھو جاتیں تو
تیزاب کا سُرمہ لگ جاتا
سَٹے وَٹے میں بٹ جاتی
یا کاری میں کام آ جاتی
ھر خواب ادھُورا رہ جاتا
مرا قد جو تھوڑا سا بڑھتا
میرے باپ کا قد چھوٹا پڑتا
مری چُنری سَر سے ڈَھلک جاتی
مرے بھائی کی پگڑی گِر جاتی
تیری لوری سننے سے پہلے
اپنی نیند میں سو گئی ماں
انجان نگر سے آئی تھی
انجان نگر میں کھو گئی ماں
میں بچ گئی ماں
میں بچ گئی ماں
”زَھرہ نگاہ“
بشکریہ
https://www.facebook.com/Inside.the.coffee.house