محسن نقوی شاعر تھے ، غزل گو تھے، مگر اُن کی نظمیں …
وہ اَدب کے ھر رنگ اور شاعری کی ھر صِنف پر نہ صرف خوبصُورتی سے پُورے اُترتے نظر آتے ھیں ، بلکہ ھر ایک صِنف کو اپنا رنگ دیتے دکھائی دیں گے۔
تخیلات اور افلاک کی پرواز کی کوئی حد نہیں ھوتی اور محسن نقوی نے ھمیشہ ھی سے حُدود و قُیود کی پرواہ کیے بغیر افکار و خیالات کو لا محدود اُڑان بخشی۔
فن میں یہ معجزہ بھی پیدا کر
پتّھروں سے بَشر تَراشا کر
کب سے اپنی تلاش میں گُم ھُوں
اے خدا !! مجھ کو مُجھ پہ اَفشا کر
اے بچھڑ کر نہ لَوٹنے والے
دُکھ کی راتوں میں یاد آیا کر
جَل چُکا شہر، مَر چُکے باسی
اب بُجھی راکھ ھی کُریدا کر
عُمر بھر مجھ پہ برف بَرسی ھے
دَشت کی دُھوپ مجھ پہ سایا کر
ایک تنہا شجر نے مجھ سے کہا
میرے سائے میں روز بیٹھا کر
اے میرے کچھ نہ سوچنے والے
اپنے بارے میں کچھ تو سوچا کر
اے سمندر کے اَبرِ آوارہ
دشت میں ایک پَل تو ٹھہرا کر
”محسن نقوی“
بشکریہ
https://www.facebook.com/Inside.the.coffee.house