گو کہ یہ نظم ھندوستان اور پاکستان کی جنگ کے پسِ من…

”اے شریف انسانو“
خُون اپنا ھو یا پرایا ھو
نسلِ آدم کا خُون ھے آخر
جنگ مشرق میں ھو کہ مغرب میں
اَمنِ عالم کا خون ھے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
رُوحِ تعمیر زخم کھاتی ھے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تِلملاتی ھے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ھٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ھوتی ھے
فتح کا جشن ھو کہ ھار کا سوگ
زندگی میّتوں پہ روتی ھے
جنگ تو خود ھی ایک مسئلہ ھے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی ؟؟
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لیے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رھے تو بہتر ھے
آپ اور ھم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رھے تو بہتر ھے
برتری کے ثبوت کی خاطر
خوں بہانا ھی کیا ضروری ھے ؟؟
گھر کی تاریکیاں مٹانے کو
گھر جلانا ھی کیا ضروری ھے ؟؟
جنگ کے اور بھی تو میداں ھیں
صرف میدانِ کشت و خُوں ھی نہیں
حاصلِ زندگی خِرد بھی ھے
حاصلِ زندگی جنوں ھی نہیں
آؤ ، اِس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اھتمام کریں
جنگ ، وحشت سے بربریّت سے
امن، تہذیب و ارتقا کے لیے
جنگ ، مرگ آفریں سیاست سے
امن ، انسان کی بقا کے لیے
جنگ ، افلاس اور غلامی سے
امن ، بہتر نظام کی خاطر
جنگ ، بھٹکی ھُوئی قیادت سے
امن ، بے بس عوام کی خاطر
جنگ ، سرمائے کے تسلّط سے
امن ، جمہُور کی خوشی کے لیے
جنگ ، جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن ، پُر امن زندگی کے لیے
”ساحر لدھیانوی“
بشکریہ
https://www.facebook.com/Inside.the.coffee.house