منتخب غزلیں
امیر مینائی کے شاگرد۔ داغ دہلوی کے بعد حیدرآباد ک…

امیر مینائی کے شاگرد۔ داغ دہلوی کے بعد حیدرآباد کے ملک الشعراء
جلیل مانک پوری
آپ چھو دیکھیں کسی غنچے کو اپنے ہاتھ سے
غنچہ گل ہو جائے گا اور گل چمن ہو جائے گا
…..
آیا نہ پھر کے ایک بھی کوچے سے یار کے
قاصد گیا نسیم گئی نامہ بر گیا
…..
اب غرق ہوں میں آٹھ پہر مے کی یاد میں
توبہ نے مجھ کو اور گنہ گار کر دیا
….
اب تو زاہد بھی یہ کہتا ہے بڑی چوک ہوئی
جام میں تھی مئے کوثر مجھے معلوم نہ تھا
…..
ایسے چھپنے سے نہ چھپنا ہی تھا بہتر تیرا
تو ہے پردے میں مگر ذکر ہے گھر گھر تیرا
…..
بحر غم سے پار ہونے کے لیے
موت کو ساحل بنایا جائے گا
……
بے پیے چین نہیں ہوش نہیں جان نہیں
شوق کاہے کو مرض ہے مجھے مے خواری کا
…..
برا کیا ہے باندھو اگر تیغ و خنجر
مگر پہلے اپنی کمر دیکھ لینا
….
جلیل مانک پوری کا یومِ وفات
6 جنوری 1946ء
جلیل مانک پوری کا اصل نام جلیل حسن تھا۔ وہ 1866ء / 1867ء میں مانک پور، اودھ میں پیدا ہوئے۔ طالب علمی کا زمانہ لکھنؤ میں گزرا جہاں فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ ابتدا ہی سے سخن گوئی کا شوق تھا۔ بیس سال کی عمر میں امیر مینائی کے شاگرد ہوگئے۔ سنہ 1900ء میں حیدر آباد دکن چلے گئے جہاں حضرت داغ دہلوی کی وفات کے بعد حیدرآباد کے ملک الشعراء مقرر ہوئے۔
میر محبوب علی آصف نے جلیل مانک پوری کو اپنی استادی کا شرف بخشا اور "جلیل القدر” کے خطاب سے سرفراز کیا۔ جب نواب میر عثمان علی تخت پر بیٹھے تو انہوں نے بھی اپنی استادی کے شرف سے سرفراز کیا اور "فصاحت جنگ بہادر” اور پھر "امام الفن” کے لقب سے عزت افزائی کی۔
جلیل مانک پوری مقبول ترین مابعد کلاسیکی شعراء میں نمایاں ہیں۔ ‘تاجِ سخن’، ‘جانِ سخن’ اور ‘روحِ سخن’، تین دیوان ان کی یادگار ہیں۔ ‘معراجِ سخن’ نعتیہ کلام اور سلام وغیرہ کا مجموعہ ہے۔ انکے علاوہ ‘معیارِ اردو’ جو کہ محاورات کا مجموعہ ہے، بھی ان کی تصنیف ہے، جبکہ ‘تذکیر وتانیث’ ان کی بہت مشہور تصنیف ہے۔
جلیل مانک پوری 6 جنوری 1946ء کو حیدرآباد دکن میں انتقال کر گئے۔
جلیل مانک پوری
آپ چھو دیکھیں کسی غنچے کو اپنے ہاتھ سے
غنچہ گل ہو جائے گا اور گل چمن ہو جائے گا
…..
آیا نہ پھر کے ایک بھی کوچے سے یار کے
قاصد گیا نسیم گئی نامہ بر گیا
…..
اب غرق ہوں میں آٹھ پہر مے کی یاد میں
توبہ نے مجھ کو اور گنہ گار کر دیا
….
اب تو زاہد بھی یہ کہتا ہے بڑی چوک ہوئی
جام میں تھی مئے کوثر مجھے معلوم نہ تھا
…..
ایسے چھپنے سے نہ چھپنا ہی تھا بہتر تیرا
تو ہے پردے میں مگر ذکر ہے گھر گھر تیرا
…..
بحر غم سے پار ہونے کے لیے
موت کو ساحل بنایا جائے گا
……
بے پیے چین نہیں ہوش نہیں جان نہیں
شوق کاہے کو مرض ہے مجھے مے خواری کا
…..
برا کیا ہے باندھو اگر تیغ و خنجر
مگر پہلے اپنی کمر دیکھ لینا
….
جلیل مانک پوری کا یومِ وفات
6 جنوری 1946ء
جلیل مانک پوری کا اصل نام جلیل حسن تھا۔ وہ 1866ء / 1867ء میں مانک پور، اودھ میں پیدا ہوئے۔ طالب علمی کا زمانہ لکھنؤ میں گزرا جہاں فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ ابتدا ہی سے سخن گوئی کا شوق تھا۔ بیس سال کی عمر میں امیر مینائی کے شاگرد ہوگئے۔ سنہ 1900ء میں حیدر آباد دکن چلے گئے جہاں حضرت داغ دہلوی کی وفات کے بعد حیدرآباد کے ملک الشعراء مقرر ہوئے۔
میر محبوب علی آصف نے جلیل مانک پوری کو اپنی استادی کا شرف بخشا اور "جلیل القدر” کے خطاب سے سرفراز کیا۔ جب نواب میر عثمان علی تخت پر بیٹھے تو انہوں نے بھی اپنی استادی کے شرف سے سرفراز کیا اور "فصاحت جنگ بہادر” اور پھر "امام الفن” کے لقب سے عزت افزائی کی۔
جلیل مانک پوری مقبول ترین مابعد کلاسیکی شعراء میں نمایاں ہیں۔ ‘تاجِ سخن’، ‘جانِ سخن’ اور ‘روحِ سخن’، تین دیوان ان کی یادگار ہیں۔ ‘معراجِ سخن’ نعتیہ کلام اور سلام وغیرہ کا مجموعہ ہے۔ انکے علاوہ ‘معیارِ اردو’ جو کہ محاورات کا مجموعہ ہے، بھی ان کی تصنیف ہے، جبکہ ‘تذکیر وتانیث’ ان کی بہت مشہور تصنیف ہے۔
جلیل مانک پوری 6 جنوری 1946ء کو حیدرآباد دکن میں انتقال کر گئے۔