منتخب نظمیں
مجھ کو عشقِ زلفِ عنبر فام ہے صبحِ محشر بھی نظر میں…
مجھ کو عشقِ زلفِ عنبر فام ہے
صبحِ محشر بھی نظر میں شام ہے
عشق پر تکلیف کا الزام ہے
درد میرے واسطے آرام ہے
حُسن میں حور و پری کا نام ہے
آدمی کو آدمی سے کام ہے
بزم سے میرے اُٹھانے کے لیئے
پوچھتے ہیں آپ کو کچھ کام ہے
جس کے دل کو دیکھئے تیرا ہے عشق
جو زباں ہے اُس پہ تیرا نام ہے
دیدہ و دل دونوں ہیں مصروفِ عشق
کام والوں کو ہمیشہ کام ہے
مِٹ گیا درد محبت کا مزہ
خُلد میں آرام ہی آرام ہے
میکدہ کیا جا کے مسجد میں بھی رند
پوچھ لیتے ہیں مئے گلفام ہے
لیجئے پکڑا گیا خط آپ کا
یہ لفافے پر عدو کا نام ہے
کر لیا نکہت سے اپنی دل اسیر
اِن گل انداموں کا اچھا دام ہے
بے محل دینے سے ہے کیا فائدہ
بارشِ بے وقت و بے ہنگام ہے
کیوں بناتے ہو رقیبوں کو مشیر
تم کو مجھ سے مجھ کو تم سے کام ہے
ایک شکوہ کر کے پچتایا ہوں میں
رات دن دشنام پر دشنام ہے
وہ دمِ آخر نہ آئے میرے پاس
دشمنوں نے کہہ دیا آرام ہے
کوئی سکتے میں ہے کوئی مضطرب
اک تماشا اُن کے زیرِ بام ہے
دل ہے پُرخوں آنکھ میں آنسو نہیں
شیشہ ہے لبریز خالی جام ہے
اُن کے قاصد نے کچھ ایسی بات کی
میں نے جانا موت کا پیغام ہے
وہ جلاتا بھی ہے خود جلتا بھی ہے
جانتے ہو داغؔ کس کا نام ہے
(داغؔ دہلوی)
صبحِ محشر بھی نظر میں شام ہے
عشق پر تکلیف کا الزام ہے
درد میرے واسطے آرام ہے
حُسن میں حور و پری کا نام ہے
آدمی کو آدمی سے کام ہے
بزم سے میرے اُٹھانے کے لیئے
پوچھتے ہیں آپ کو کچھ کام ہے
جس کے دل کو دیکھئے تیرا ہے عشق
جو زباں ہے اُس پہ تیرا نام ہے
دیدہ و دل دونوں ہیں مصروفِ عشق
کام والوں کو ہمیشہ کام ہے
مِٹ گیا درد محبت کا مزہ
خُلد میں آرام ہی آرام ہے
میکدہ کیا جا کے مسجد میں بھی رند
پوچھ لیتے ہیں مئے گلفام ہے
لیجئے پکڑا گیا خط آپ کا
یہ لفافے پر عدو کا نام ہے
کر لیا نکہت سے اپنی دل اسیر
اِن گل انداموں کا اچھا دام ہے
بے محل دینے سے ہے کیا فائدہ
بارشِ بے وقت و بے ہنگام ہے
کیوں بناتے ہو رقیبوں کو مشیر
تم کو مجھ سے مجھ کو تم سے کام ہے
ایک شکوہ کر کے پچتایا ہوں میں
رات دن دشنام پر دشنام ہے
وہ دمِ آخر نہ آئے میرے پاس
دشمنوں نے کہہ دیا آرام ہے
کوئی سکتے میں ہے کوئی مضطرب
اک تماشا اُن کے زیرِ بام ہے
دل ہے پُرخوں آنکھ میں آنسو نہیں
شیشہ ہے لبریز خالی جام ہے
اُن کے قاصد نے کچھ ایسی بات کی
میں نے جانا موت کا پیغام ہے
وہ جلاتا بھی ہے خود جلتا بھی ہے
جانتے ہو داغؔ کس کا نام ہے
(داغؔ دہلوی)