مشہور افسانہ’’ووٹ‘‘ کے افسانہ نگار محمد ریاست کا انٹرویو
مشہور افسانہ’’ووٹ‘‘ کے افسانہ نگار محمد ریاست کا انٹرویو
تفکر – آپ کا پورا نام؟
محمد ریاست۔۔جی میرا پورا نام محمد ریاست ہے
تفکر – قلمی نام؟
محمد ریاست۔۔ابھی توکوئی قلمی نام نہیں لیکن پہلے کئی قلمی ناموں سے لکھتا رہا ہوں مثلاََ ریاست ہزاری،ریاست علی ریاست،ابن شیر محمد
تفکر – کہاں اور کب پیدا ہوئے؟
محمد ریاست۔۔گھر میں پیدا ہوا تھا کیونکہ تب ہسپتالوں میں پیدا ہونے کا رواج اتنا عام نہیں تھا (ہنستے ہوئے)، ضلع ہری پور،صوبہ خیبر پختونخوا اور گاؤں مکھن کالونی
تفکر – تعلیمی قابلیت؟
محمد ریاست۔۔بھاگتے دوڑتے پہلے بی ایس سی کی اور بعد میں ایم اے انگلش لٹریچر
تفکر – اعلی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
محمد ریاست۔۔پنجاب یونیورسٹی لاہور
تفکر – پیشہ؟
محمد ریاست۔۔پہلے صحافت تھا لیکن پچھلے پندرہ سال سے مارکیٹنگ کے شعبے سے منسلک ہوں،ایک فارما سوٹیکل کمپنی لنتا فارماسوٹیکل میں نیشنل سیلز منیجر کے طور پر کام کر رہا ہوں۔
تفکر –ادبی سفر کاآغاز کب ہوا؟
محمد ریاست۔۔1992 میں جب میں ساتویں کا طالبعلم تھا تو پہلی دفعہ کہانی لکھی جو پھول اور کلیاں (نوائے وقت) میں چھپی تھی،اخبارات سے تعلق اس سے بھی قبل کا ہے،پہلی تحریر بزم ادب کی ایک رپورٹ تھی جو مقامی رسالے نشتر میں چھپی تھی 1990 میں
تفکر – آپ نظم یا غزل میں کس سے متاثر ہوئے؟
محمد ریاست۔۔جی شاعر تو ہوں اگرچہ بہت چھوٹا سا شاعر ہوں،بڑے ناموں میں سے تو غالب،اقبال،میر کا نام سبھی لیتے ہیں میں بھی لوں گا مگر ذاتی طور پر جن لوگوں سے متاثر ہوں وہ زیادہ معروف نہیں ہیں۔غزل میں ریاض ساغر،انجم عثمان،الحاج نجمی،شبیر نازش اور وقار زیدی نے بہت متاثر کیا ہے،نظم میں سعید اشعر کے پائے کا شاعر میں نے نہیں دیکھا،بہت ہی عمدہ نظم کہتے ہیں،وہ غزل کے بھی باکمال شاعر ہیں مگر میں ان کی نظمیں بہت پسند کرتا ہوں۔فاخرہ انجم،ڈاکٹر عمرانہ مشتاق اور آسناتھ کنول بھی میرے پسندیدہ شعرا میں شامل ہیں
تفکر -کسی شاعر کا تلمذ اختیار کیا؟
محمد ریاست۔۔جی شاعری میں الحاج نجمی صاحب سے بہت کچھ سیکھا بھی ہے،ان کی شاگردی بھی اختیار کی ہے اور اصلاح بھی لی ہے،نثر میں کسی سے اصلاح تو نہیں لی شاگردی بھی اختیار نہیں کی لیکن کئی ایسے ادیب ہیں جن کی تحریریں پڑھ کر لکھنا سیکھا
تفکر – ادب کی کون سی صنف زیادہ پسند ہے؟
محمد ریاست۔۔افسانہ
تفکر – ادب کی کس صنف میں زیادہ کام کیا؟
محمد ریاست۔۔افسانہ
تفکر – اب تک کتنی تصانیف شائع ہو چکی ہیں؟
محمد ریاست۔۔ابھی تک اپنا کلام چھپوانے کی ہمت نہیں ہوئی (قہقہ)
تفکر -نثری تصانیف کی تعداد اور نام؟
محمد ریاست۔۔ابھی صرف ایک کتاب ہے۔’’خواب چور‘‘ کے نام سے،یہ بچوں کے لیے لکھی گئی میری کہانیوں کا مجموعہ ہے،افسانوں کا ایک مجموعہ’’ خدا،گڑیا اور خدا‘‘ اور ایک ناول’’ وقت سے آگے‘‘ زیر طباعت ہیں۔
تفکر – اپنے خاندان کے حوالے سے کچھ بتائیں؟
محمد ریاست۔۔مزدوروں اور فوجیوں کا خاندان ہے،ابا جی مزدور سے تھے،زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے،ایک چہچا نے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی تھی،بڑے سارے بھائی بھی پرائمری اور میٹرک تک ہی پہنچ سکے،خاندان میں ماسٹر کرنے والا میں پہلا بندہ تھا،اب کزن اور بھتیجے ماشاء اللہ کافی پڑھے لکھے ہیں،زیادہ تر فوج میں ہیں،مطلب کہ خاندانی پس منظر علمی یا ادبی نہیں ہے
تفکر – ازدواجی حیثیت؟
محمد ریاست۔۔شادی شُدہ ہوں
تفکر – فیملی ممبرز کے بارے میں بتائیے؟
محمد ریاست۔۔
میں،میری امی،میری بیوی جو ہائوس وائف ہیں اور تین بچے،ایک بیٹی ہے اور اس سے چھوٹے دو بیٹے
تفکر – آج کل کہاں رہائش پذیر ہیں؟
محمد ریاست۔۔میرے خوابوں کا اور پسندیدہ شہر کراچی لیکن جاب ایسی ہے کہ ہر وقت پاکستان اور بیرون ممالک دوروں پر رہتا ہوں۔
تفکر – بچپن کی کوئی خوبصورت یاد؟
محمد ریاست۔۔بچپن کی ساری یادیں ہی خوبصورت ہیں،کس کس کا تذکرہ کروں،بچپن میں سکائوٹنگ میں تھا،تب بھی سفر بہت کیے ہیں اور وہ سارے بہت ہی یادگار اور خوبصورت ہوا کرتے تھے
تفکر – ادبی سفر کے دوران میں کوئی خوبصورت واقعہ؟
محمد ریاست۔۔یہ بھی بہت سارے ہیں لیکن سب سے خوبصورت تومیں اسی کو کہوں گا کہ کراچی آرٹس کونسل کی عالمی اردو کانفرنس میں جنا ب انتظار حسین مدعو تھے،ایک دوست نے کہا آؤ آپ کی ملاقات کرواتا ہوں،میری یہ اُن سے پہلی ملاقات تھی،جیسے ہی ہم ان کے پاس پہنچے وہ کھڑے ہو گئے کہنے لگے آؤ بھائی ریاست،تمہارا افسانہ ’’ووٹ‘‘ مجھے بہت پسند آیا ہے۔میرے ساتھ ساتھ مجھے لے کر جانے والے دوست بھی حیران تھے۔یہ ایک خوبصورت اور یادگار واقعہ ہے
تفکر – ادب میں کن سے متاثر ہیں؟
محمد ریاست۔۔قرۃالعین حیدر،انتظار حسین،شوکت صدیقی،محمود ظفر اقبال ہاشمی،عبداللہ حسین،مستنصر حسین تارڑ،بانو قدسیہ،قدرت اللہ شہاب،اشفاق احمد وغیرہ
تفکر – ادبی رسائل سے وابستگی؟
محمد ریاست۔۔کئی اخبارات اور رسائل سے وابستہ رہا۔روزنامہ نوائے وقت،اوصاف،پاکستان،نیا اخبار،دنیا،شمال،اتحاد،روزنامہ صبح، آج،محاسب،رسائل میں ماہنامہ پھول لاہور،ہفت روزہ کندن،ہفت روزہ کرائم وژن وغیرہ وغیرہ مگر اب کسی کے ساتھ منسلک نہیں ہوں۔بس رسائل میں کہانی،افسانہ،شاعری بجھواتا رہتا ہوں اور اخبارات میں کالم،زیادہ توجہ اپنی جاب پر ہے اور اپنی ویب سائٹ پر جو ریاست نامہ کے نام سے ہے
تفکر – ادبی گروپ بندیوں اور مخالفت کا سامنا ہوا؟
محمد ریاست۔۔بہت ہی زیادہ،کبھی پریس کلب اور آرٹس کونسل کی ممبر شپ کے موقع پر،کبھی بس ویسے ہی لیکن میں نے کوئی ادبی گروپ جوائن نہیں کیا۔جو محبت سے بُلاتا ہے چلا جاتا ہوں،جو نہ بلائے نہیں جاتا،کبھی نہ بُلانے پر کسی سے ناراض بھی نہیں ہوا،ہو سکتا ہے اس کی کوئی مجبوری ہو،میں کیوں ناراض ہوتا پھروں
تفکر – ادب کے حوالے سے حکومتی پالیسی سے مطمئن ہیں؟
محمد ریاست۔۔ادب کے حوالے سے حکومت کی کوئی پالیسی ہے( قہقہ) ؟ میں نے تو صرف خارجہ پالیسی،داخلہ پالیسی،فنانس پالیسی وغیرہ کا نام سنا ہے،یہ ادبی پالیسی تو نہ کبھی دیکھی،نہ سُنی،لیکن دعا ہے کہ اللہ حکومت کو یہ توفیق دے کہ وہ ایسی کوئی پالیسی بنا ئے اور اس کا پھر اعلان بھی کرے۔اگرآپ کے اس سوال کا مطلب حکومت کا ادب کے ساتھ روا رکھا جانے والا رویہ ہے تو معذرت کے ساتھ یہ رویہ بہت افسوسناک ہے،ادیب اگر کوئی اور کام نہ کرے تو بھوکا مر جائے،کئی زندہ مثالیں موجود ہیں۔دو حکومتی ادارے فعال ہیں ادب کے حوالے سے، ایک نیشنل بُک فائونڈیشن اور ایک اکادمی ادبیات لیکن دونوں میں اقرباء پروری،پسند ناپسند اس قدر عام ہے کہ کیا بتائوں آپ کو۔کچھ عرصہ قبل اکادمی ادبیات نے ایک بین الاقوامی کانفرنس بلوائی،یقینا آپ کے علم میں ہو گا کہ صرف ذاتی پسند اور ناپسند کی وجہ سے اس کانفرنس میں اکادمی نے اپنے ہی سندھ کے ریجنل ڈائریکٹر کو نہیں بُلوایا۔جب حال یہ ہو تو آپ حکومت اور اس کے ادروں سے کیاتوقع رکھ سکتے ہیں
تفکر – اردو ادب سے وابستہ لوگوں کے لئیے کوئی پیغام؟
محمد ریاست۔۔لکھنے والوں سے گزارش ہے کہ پڑھیں اور پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ اور پڑھیں۔ کتاب،رسالہ جب تک بکے گا نہیں ادب فروغ نہیں پا سکتا۔خاص طور پر ادیب ضرور اپنے ہم عصر ادیبوں کی کتابیں خریدیں،اگر ایسا ہو جاتا ہے تو کتاب بکنے لگے گی اور کوئی ادیب لکھنا ترک نہیں کرے گا
تفکر – ہماری اس کاوش پر کچھ کہنا چاہیں گے؟
محمد ریاست۔۔آپ کا شکریہ کہ آپ نے محض چند اُلٹی سیدھی لکیریں کھینچنے والے اس شخص کو بھی انٹرویو کے لیے بُلوا لیا،حالانکہ میں اس قابل نہیں ہوں۔یہ ایک اچھا سلسلہ ہے،ادیبوں کو ایک دوسرے سے واقفیت ہوتی ہے،ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔جاری رکھیں اس سلسلے کو
تفکر – پہچان شعر یا تحریر؟
محمد ریاست۔۔میری پہچان میری تحریریں،شاعری اتنی اچھی کرتا ہی نہیں کہ پہچان بن سکے مگر امید ہے کہ جلد ہی شعر بھی میری پہچان ہونگے
کچھ افسانوں کی کچھ سطریں۔
افسانہ ’’ووٹ‘‘
مرکھٹ پر آگ ٹھنڈی پڑچکی تھی، چتا جل کر راکھ ہوئی تھی اور راکھ کو ٹھکانے لگانے کا کام جاری تھا۔ بالکل ساتھ ہی ایک اور چتا جلانے کا انتظام کیا جا رہا تھا، چندو نے گرد آلود ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کرنے کی ناکام کوشش کی اور دوسری چتا کی طرف بڑھ گیا تاکہ اسے آگ دکھا سکے ، وہ سمجھ گیا تھا کہ اسے صرف رسم نبھانی ہے ورنہ جلنے والوں کو کون جلاتا ہے۔
چندو کی زندگی نیم جیسی کڑوی تھی، شہر کی ایک مضافاتی کچی آبادی میں اس نے آنکھ کھولی تھی، جب ہوش سنبھالا تو ایک تنگ جھونپڑی میں دس لوگوں کو ٹھنسے ہوا دیکھا جن میں سے آٹھ اس کے بہن بھائی تھے ، روز ماں باپ اور بڑے بہن بھائی کام پر چلے جاتے اور یہ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ نالے پر…..ـ.نالے پر نہانا چندو کا محبوب مشغلہ تھا، اسی نالے میں نہاتے نہاتے ، مسلمان بچوں سے ہندو ہونے کے جرم میں مار کھاتے کھاتے چندو بڑا ہونے لگا۔ جب وہ اتنا بڑا ہو گیا کہ ریڑھی چلا سکے تو اسے بھی باقی بہن بھائیوں کے ساتھ کام پر بھیج دیا گیا۔ چندو کے حصّہ میں قریبی پوش آبادی کے تیس بنگلے آئے ، وہ روز صبح ایک ایک بنگلے میں جاتا، بنگلوں کے چوکیدار اسے دیکھتے ہی آواز لگاتے ،
“بیگم صاحبہ کچرے والا آیا ہے ”
َََـ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانہ ’’ووٹ‘‘
چندو کی ماں گہرے سانولے رنگ کی ایک انتہائی کمزور عورت تھی، جس رات اس نے ماں کو سوتے ہوئے دیکھا تھا اس رات وہ بہت بری طرح ڈرا تھا، اس کی ماں کے کھلے ہوئے منہ میں مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں، آنکھوں کے نیچے گہرے گڑھے تھے اور قمیض کے اوپر سے اس کی پسلیاں صاف دکھتی تھیں، پہلے تو چندو سمجھا کہ ماں کی میت ہو گئی ہے مگر جب ماں نے اچانک کروٹ بدلی تو اسے ماں کی زندگی کا یقین آیا….ویسے بھی یہ چندو کے باپ کی مہربانی تھی جس نے چندو کے بعد نویں اولاد کی خواہش نہیں کی وگرنہ اب تک ماں کی چتا جل چکی ہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانہ ’’لاش‘‘
’’زہرا، چٹخنی لگا دینا‘‘
میری آواز سن کر اس نے’’اچھا‘‘ کہا تھا اور کروٹ بدلی تھی مگر اٹھی نہیں تھی۔ پتہ نہیں اس نے بعد میں کمرے کی چٹخنی لگائی ہوگی یا نہیں۔ گھر کا دروازہ تو امی نے بندکردیا ہوگا، کیونکہ وہ وضو کی تیاری کررہی تھیں۔ جب میں اور اباجی گھر سے مسجد کے لئے نکلے تھے… ابا جی؟… اف میرے خدا میرے ابا جی بھی اسی مسجد میں تھے۔ یااﷲ میرے اباجی کی حفاظت کرنا۔ میں نے دل ہی دل میں دعا کی۔ ابا جی جماعت میں اگلی صفوں میں کھڑے ہونے کے عادی تھے۔ آج ہم اگرچہ تھوڑی دیر سے آئے تھے مگر ابا جی صفوں کو چیرتے ہوئے اگلی صف تک پہنچے تھے جبکہ مجھے درمیان والی صف میں جگہ ملی تھی اور اب میرے دائیں بائیں لاشیں تھیں اور میرے اوپر بھی ایک لاش تھی۔ تھوڑی پہلے تک تو گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی دے رہی تھی مگر اب تھم گئی تھی۔ شاید قاتلوں کو تسلی ہوگئی تھی کہ مسجد میں موجود تمام نمازی مرچکے ہیں، لیکن میں تو زندہ تھا۔ شکر ہے کہ میں زندہ تھا۔ مگر میری ٹانگ… اس میں درد تھا اور وہ شدید تھا اور میرے اوپر یہ بھاری بھرکم لاش۔ میرا دم گھٹنے لگا تھا۔ اگر یہ ہی صورت حال رہی تو میں بھی مرجائوں گا۔ موت کے خیال سے مجھے جھرجھری آگئی۔ میری گڑیا بہت چھوٹی ہے، اس کا کیا بنے گا، اگر میں مرگیا تو…
’’لا الہ الا اﷲ محمد الرسول اﷲ‘‘
میں نے نیم وا آنکھوں سے دیکھا وہ قاتلوں میں سے ایک قاتل تھا اور اس نے کلمہ پڑھا تھا۔ میں نے سوچا یہ ضرور دشمن ملک کا مسلمان سپاہی ہوگا۔ وہ نوکری کی خاطر اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر گولیاں چلا رہا ہے اور وہ بھی مسجد میں توبہ توبہ…
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہانی ’’غلام ابن غلام‘‘
جھونپڑے میں درمیان والے بانس پر لالٹین لٹکی ہوئی تھی ۔اُس کا مدہم شعلہ رات کی تاریکی کو چیر کر روشنی کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہا تھا ۔فیقا جھونپڑے کے ایک کونے میں گھٹنوں میں سر دئیے بیٹھا تھا ۔اُس کے ساتھ آگے اُس کے چار بچے لائن میں بے سدھ لیٹے سو رہے تھے ۔ جھونپڑے کے دوسرے کونے میں زلیخا چِت لیٹے لالٹین کو دیکھے جا رہی تھی۔زبیدہ بھی باپ کی طرح گھٹنوں میں سر دئیے ما ں کے پاؤں کے پاس بیٹھی تھی ۔فیقے کے پاؤں کی طرف والی جگہ خالی تھی کیونکہ یہ جگہ نزیرے کی تھی اور اُسے مرے ہوئے آج تیسرا روز تھا ۔جھونپڑے میں گہری خاموشی تھی ۔پھر اس خاموشی کو زبیدہ نے توڑا ۔
” ابّا چوہدری اگر نزیرے کو جلدی ہسپتال پہنچا دیتا تو وہ نہ مرتا”
فیقے نے کوئی جواب نہ دیا وہ بدستور گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھا تھا۔