محبت اب اور نہیں، مریم جہانگیر
[button color=”black” size=”medium” link=”http://” icon=”” target=”false”]قسط نمبر 2[/button]
میں نے جب بھی اپنا بنانا چاہا اس کو
باتوں باتوں میں بات ٹال دی اس نے
صبح سویرے وہ اس کے پاس جا کر کھڑی ہوئی۔اسے یقین تھا وہ نوٹس لے گا لیکن اس نے نوٹس نہیں لیا۔
کیا چاہتے ہو ؟ پاکیزہ نے دو ٹوک لہجے میں اس گھنے بالوں سے نظریں چرا تے ہوئے پوچھا۔
’’بتایا تو تھا کہ کیا چاہتا ہوں لیکن شاید کسی نے سنا نہیں ۔‘‘ وہ اپنی سائیکل کو لاک لگا رہا تھا۔
’’تم ایسے نہ کرو۔‘‘پاکیزہ اس سے درخواست کرنے لگی۔
’’کیسے نہ کروں ؟‘‘اس کے انداز سے ڈرامائی حیرت نے جھانکا۔
’’کلا س کی لڑکیوں کے ساتھ ٹائم پاس کرنا چھوڑ دو۔‘‘پاکیزہ نے دل کڑا کر کے صاف صاف بات کرنے کی ٹھانی۔
’’تم میرے ساتھ دوستی کر لو۔باقی سب کو چھوڑ دوں گا۔‘‘آفتاب مکمل طور پہ اس نمکین لڑکی کی طرف متوجہ ہوا۔
’’اس کے تو گویا کسی نے ناک کے بال ہی کھینچ لئے تھے۔ پاگل ہو تم ؟ دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا؟کیا ملے گا تمہیں یہ سب کر کے ؟‘‘
وہ چلائی۔
’’مجھے کچھ نہیں ملے گا تو تمہارا بھی تو کچھ نہیں جا رہا۔تمہیں کیا مسئلہ ہے؟‘‘ وہ سینے پہ ہاتھ باندھے پو چھنے لگا۔
’’وہ لڑکیاں دکھی ہورہی ہیں ۔‘‘چڑیا سی لڑکی کا دل بھی چڑیا سا نکلا۔
’’تم مدر ٹریسا ہو ؟‘‘اس نے بڑے آرام سے پوچھا۔
وہ تپ ہی تو گئی۔’’بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہاری رشتہ داریں ۔انہیں احساس نہیں ہوتا کہ تم ان کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہے ہو۔میں فضول میں ٹینشن لے رہی ہوں۔‘‘
’’اچھا ۔‘‘وہ پرسکون تھا ۔وہ جانتا تھا وہ نہ بھی کہیں تب بھی فکر تو کرتی رہے گی۔
’’میں تم سے دوستی نہیں کروں گی۔آج میرے پیچھے باقیوں سے دوستی کر کے انہیں چھوڑ رہے ہو ۔کل کسی اور کے پیچھے مجھے چھوڑ دو گے۔میں کیوں دوسروں کی آگ بجھانے کے لئے خود کو آگ میں جھونکو۔میں آفتاب تم سے دوستی نہیں کروں گی۔‘‘اس نے اپنی کہی اور پھر وہاں نہیں رکی۔
وہ خاموش کھڑا مسکرا رہا تھا۔اسے پتہ تھا آج یا کل یہ لڑکی واپس لوٹ کر آئے گی۔اتنا ضرور تھا کہ اس کام میں کئی سال لگ سکتے ہیں لیکن آتش سے چیزیں جل ہی جایا کرتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک اجنبی ہے مگر روح شناس لگتا ہے
میری طرح وہ بھی مجھے اداس لگتا ہے
اب آفتاب واپس پہلے جیسا ہو گیا تھا۔کلاس میں سب کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا،بولنا ،کھیلنا ،کودنا،جھکنا،شرارتیں کرنا۔۔۔وہ جو ایک الگ سا جھکاؤ اس کے اندر آتا جا رہا تھاوہ خود ہی ختم ہو گیا۔پاکیزہ کو لگا کہ یہ لڑکا بغیر جتائے باتیں مان کر ایک نہ ایک دن دل میں تھوڑی بہت جگہ بنا ہی لے گا۔وہ اپنی روش پہ قائم تھی۔ذیادہ تر نظر انداز ہی کرتی رہتی۔وہ خود اس کے پاس آنے کے بہانے ڈھونڈتا۔
کلاس میں سب سے پہلے آ جاتا۔پاکیزہ کے ساتھ کلاس کی نشستیں درست کروا دیتا۔کسی کام سے ٹیچرز پاکیزہ کو بھیجتے ،دوڑا دوڑا ساتھ جاتا۔اپنی ہر ممکن مدد پیش کرتا۔کسی بات میں جانبداری کا مظاہرہ کرنا ہوتا تو اس کا پلڑا پاکیزہ کی طرف اپنے آپ جھک جاتا۔وہ سائے کی طرح پاکیزہ کے ساتھ ساتھ رہنے کی کوشش کرتا۔وہ اتنا مہربان تھا پاکیزہ پہ کہ اس کو اس کی مہربانی پہ ہی شک ہونے لگتا۔اس شک میں اسے وہ ایک آنسو یاد آجاتا۔یہ سچ تھا کہ وہ یقین نہیں کرنا چاہتی تھی اور نہ ہی اسے یقین کرنا تھا لیکن اس ایک آنسو کے بعد شک کرنے کی گنجائش بھی نہیں رہی تھی۔دماغ گنجائش نکال بھی لیتا لیکن دل کسی گنجائش کو کہاں جگہ دیتا۔
کوئی اور رشتہ جوڑنے کی عمر تو نہیں تھی لیکن دوستی۔۔۔اس میں کیا مضائقہ تھا کم از کم وہ تو کی جاسکتی تھی۔سلام دعا تو اچھے سے رکھے جا سکتی تھی۔وہ خود سے لڑنے لگ گئی ۔اس کے اندر بیٹھا تنہائی کا دیو زندگی کی ساری رعنائیاں دبوچ لینے کے درپے تھا۔پھر کیا بر ا تھا کہ وہ زندگی سے چند لمحے خوشی کے چرا لیتی۔کون سا وہ اس کے ساتھ تعلق واسطہ رکھتے ہی باؤلی ہونے والی تھی۔اسے اچھے برے کی تمیز تو رہنی تھی۔وہ صرف اچھا وقت تو گزار ہی سکتی تھی۔
راستے میں گزرتے ہوئے کسی دکان والے سے بھی ضرورت کے وقت بات کرنی پڑ جاتی تھی ،سکول کے باہر کھڑے بھانت بھانت کے ریڑھی والوں کے منہ لگنا پڑتا تھا،وہ بھی تو جاننے والے نہیں تھے،اجنبی تھے۔ان کے منہ لگا جا سکتا ہے تو آفتاب سے بات کیوں نہیںکی جاسکتی۔وہ اکیلا نا محرم تو نہیں ہے۔دل عجیب عجیب تاویلیں ڈھونڈ کر لانے لگا۔
سکول ختم ہونے میں صرف ایک آدھ سال رہتا تھا۔پھر آفتاب نے کہاں ملنا تھا،اس سے بھلا کیسے رابطہ ہونا تھا۔سب کچھ خود بخود ختم ہونے والا تھا تو اس کے ختم ہونے سے پہلے اگر کچھ حسین رنگ اپنی ہتھیلی میں چھپالئے جائیں تو کیا برائی ہے؟مجھے بھی وہ ایک اچھی یاد کی طرح یاد رہ جائے گا اور میں بھی اس کے ذہن میں ایک اچھے خیال کی طرح محفوظ ہو جاؤں گی۔
ایک وہی تو ہے جس نے مجھے جان لیا ہے۔میں سب کے سامنے کتنی نارمل رہتی ہوں،سب مجھے کتنا ہنس مکھ اور خوش اخلاق سمجھتے ہیں اور اس نے کتنے آرام سے کہا ہے کہ تم تنہا ہو،تمہیں دوست کی ضرورت ہے۔میرے بکھری ہوئی ذات کے پندار کے اندر بھلا اس کے سوا کون جھانک سکا ہے۔میں اسے آئینہ بنا کر کچھ روز سنور سکتی ہوں تو اس میں کیا برا ہے۔آخر میں تو سب ختم ہی ہو جانا ہے۔میں خود ہی سب ختم کر لوں گی۔میں کون سی کوئی بے وقوف سی لڑکی ہوں۔اچھی بھلی سمجھ ہے کسی انسان کے لئے اپنی زندگی تو تباہ نہیں کرو ں گی۔ہاں یہ ٹھیک ہے۔۔۔۔۔میں سب کچھ خود ختم کر دوں گی!
وہ فیصلہ کر رہی تھی یا فیصلہ اس کے ہاتھ سے خود ہو رہا تھا ۔اسے خود نہیں پتہ تھا۔لیکن کچھ تبدیلیاں اس کے اندر سے ہو کر اس کے باہر تک کا سفر کرنے کی کوشش کر رہی تھی،اتنا سب سوچنے کے بعد اس نے آخر میں دل کو پھر ڈپٹا۔
اسے کسی کے لئے خود کو نہیں بدلنا تھا۔ اپنے دائرے تبدیل نہیں کرنے تھے۔عارضی سکون کے لئے ازل سے زمین ذادوں کے نصیب میں لکھا سنجوگ اپنے مقدر میں نہیں لکھوانا تھا۔اس نے بہت اوپر جانا تھا،بہت اوپر!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹوٹی ہے میری نیند ، تم کو اس سے کیا
بجتے رہیں ہواؤں سے در ،تم کو اس سے کیا
اس نے گہرے نیلے رنگ کے فراک کو پہن کر ایک دفعہ خود کو آئینے میں دیکھا۔سانولے رنگ کی وجہ سے رنگوں کے انتخاب میں یہ لڑکی ہمیشہ پریشان ہو جایا کرتی۔اگر کوئی ایسا رنگ پہن لیتی کہ جس میں رنگت مزید دب جاتی تو لوگوں کی مضحکہ خیز نظریں اسے اپنے اندر خنجر کی طرح اترتی ہوئی محسوس ہوتی۔اس لئے ایک ا س معاملے میں احتیاط لازم تھا۔گہرے نیلے رنگ میں وہ کوئی اپسرا نہیں لگ رہی تھی لیکن کم از کم اس کی رنگت وہی تھی جو قدرتی طور پہ تھی۔کپڑوں کے رنگ نے اس کی رنگت کو گہن نہیں لگایا تھا۔
اپنے بالوں کو ہاتھ میں لے کرپونی بنانے کی کوشش کی لیکن وہ جچ نہیں رہی تھی۔اس کے چہرے پہ خود سے روٹھ جانے کے تاثرات آگئے۔صاف رنگ کتنی بڑی نعمت ہے۔یہ گورے چٹے لوگوں کو کیا پتہ۔۔۔جو دل کرتا ہے پہن لیتے ہیں۔روتے ہیں تو سرخ ہوتی ناک سے اپنی طرف توجہ مبذول کروا لیتے ہیں۔سانولے رنگ والے بھاگتی دوڑتی چمکتی زندگی میں دنیا کی چکا چوند کو دیکھتے ہیں اور بس افسوس کرتے رہ جاتے ہیں۔انہیں دنیا سے کچھ ملتا ہے تو کج ادائی،ستم ظریفی اور بے توجہی!
بے توجہی اور ستم ظریفی تو سمجھ میں آجاتی ہے بندہ اس کو سہنے کی کوشش کرتاہے لیکن بے توجہی ۔۔۔وہ تو اتنی کڑوی دوا ہے کہ حلق سے نیچے ہی نہیں اترتی۔اگر اتر جائے تو ساری دنیا دل سے اتر جاتی ہے۔
آئینے کے سامنے یوں ساکن کھڑاا دیکھ کر تسکین کمرے میں آئی۔رنگت کا دکھ پاکیزہ کے اندر اتنا شور مچا یا کرتا کہ تسکین اس کے جھکڑ اپنے اندر چلتے ہوئے بھی محسوس کر لیتی۔
’’کیا سوچ رہی ہو؟ ‘‘انہوں نے پاکیزہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا۔
’’کچھ نہیں ۔‘‘وہ کندھے پر رکھے ہاتھ کی پرواہ کئے بغیر آئینے کے سامنے سے ہٹ گئی۔ہاتھ نیچے کو لڑھک گیا۔
’’ظاہری رنگت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔یہ رنگ تو کچے رنگ ہیں۔رنگ چڑھانا ہے تو کردار کا چڑھاؤ، کبھی نہیں اترے گا۔جتنا چوکھا کردار کا رنگ ہو گا اتنا طلسم تمہاری ذات میں ہوگا۔یہ جو دکھ جاگتا ہے تمہارے اندر بار بار کہ لوگ مجھے نہیں دیکھتے۔یہ سب شہد کی مکھیاں بن جائیں گے اور تم ان کے لئے میٹھا۔سارے دکھ ختم ہو جائیں گے اور وہ بھی ایسے کہ جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔‘‘تسکین بستر پہ بیٹھی آئینے کی طرف پشت کئے پاکیزہ کے بالوں کو ہاتھوں سے سنوارتے بولی۔آج خلافِ معمول ان کا مزاج بہت اچھا تھا ۔پرانی دوست کے ساتھ پی گئی گرم چائے نے دل کا موسم ٹھنڈا کر دیا تھا۔
’’کتابی باتیں ہیں یہ۔یہ میری زندگی ہے۔کوئی مووی نہیں چل رہی جس میں بس تین گھنٹے بندہ رو پیٹ کر گزار لے۔یہ میری زندگی ہے مجھے روز لوگوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ان کی سوالیہ نظروں کو برداشت کرنا ہوتا ہے۔جس دن نئے بندے سے سامنا ہو ایک دفعہ پھر سے ہزاروں دفعہ کی اپنائی گئی مسکینیت کا لبادہ مجھ سے آ لپٹتا ہے۔میں تو تھک جاتی ہوں۔اوپر سے سب کو اپنا آپ مضبوط دکھا دکھا کر اندر سے ٹوٹ ٹوٹ کر تھک جاتی ہوں۔جب میں اعتماد سے بولتی ہوں تو سب کو میری آواز سنائی دیتی ہے جس میں کوئی کپکپاہٹ نہیں ہوتی لیکن کسی کو اس میں گزری رات بہائے گئے آنسوؤں کی حدت نہیں محسوس ہوتی۔‘‘وہ بولتے بولتے تھک گئی۔آنسو اس کے گالوں سے پھسل کر گردن میں جذب ہونے لگے۔
تسکین نے اسے ایک کندھے سے تھام کر اپنے ساتھ لگا لیا۔
’’اٹھو،ہاتھ منہ دھو کر آؤ۔‘‘اسے زبردستی واش روم میں بھیجا ۔
واپس آئی تو چہرے کی تازگی بحال ملی۔کچی عمر کے سچے آنسوسارے بہہ جاتے ہیں ،اندر نہیں رہتے۔من پنکھ سا ہلکا ہو جاتا ہے۔تسکین نے پاکیزہ کے سامنے کے بالوں کو بل دے کر دونوں کانوں کے پیچھے پن سے ٹہرایا۔پشت پہ بال کھلے چھوڑ دئیے۔پاکیزہ کو جب آئینے کے سامنے لے گئی تو اس کے چہرے پہ بھی ہلکی سی مسکراہٹ آگئی ۔وہ کافی اچھی لگ رہی تھی۔پاکیزہ نے خود ہی آئی لائنر اور لپ گلوز لگایا اور پھر تسکین پھوپھو سے یہ نصیحت لے کر نکل آئی کہ وقت پہ گھر آجانا۔
میم نگین کی منگنی تھی۔وہ نہم کلاس کی انچارج ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں کی بہت اچھی دوست بھی تھیں۔اپنے اکا دکا شاگردو ں کو بھی اپنی خوشی میں شامل کرنے کے لئے دعوت نامے دئیے۔پاکیزہ جیسی سلجھی ہوئی اور فرمانبردار بچی کو بلائے بغیر تو دعوت ناموں کا مقصد ہی پورا نہ ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ایک مائع ہوں تخلیق کے مراحل میں
نجانے کون سے سانچے میں ڈھل رہا ہوں میں
ہال میں بہت ذیادہ لوگ نہیں تھے لیکن بہت کم بھی نہیں تھے۔پاکیزہ نے آگے پیچھے نظر دوڑائی لیکن کوئی شناسا چہرہ نظر نہ آیا ۔اتنے میں میم نگین ہال میں داخل ہوئی۔سہیلیوں کے جمگھٹے میں آتے ہوئے ان کے چہرے پہ بہت الگ سی مسکراہٹ کھیلتی نظر آئی۔کسی کا ہو جانے کا احساس انسان کو ہواؤں سے ہلکا کر دیتا ہے،یہ یقین ہونے لگتا ہے کہ کوئی سنبھالنے والا،تھامنے والا،ناز نخرے اٹھانے والا زندگی میں آگیا ہے۔بہت سی تلخ حقیقتوں سے دل کرتا ہے کہ نظر چرالی جائے۔ایسے میں جب آنکھیں اپنی مرضی کے منظر دیکھتی ہیں تو انہیں آپ ہی آپ مسکرانا آجاتا ہے۔
ُٓپاکیزہ نے آگے بڑھ کر میم نگین سے سلام کیا اور پھر ان کے لئے لایا ہوا ایک خوبصورت چوڑیوں کا سیٹ انہیں دیا۔میم نگین کے فیروزی کپڑوں سے نگ لگی چوڑیاں بہت مل رہی تھیں۔انہوں نے پاکیزہ کی خوشی کے لئے اپنی بائیں سونی کلائی میں چوڑیاں سجا لی۔پاکیزہ اپنی خوشی سنبھالتے ہوئے واپس نشستوں کی طرف پلٹی۔کوئی بھی کرسی خالی نہیں تھی۔وہ ایک طرف کو ہو کر کھڑی ہوگئی۔
میم نگین کی امی سب سے مل رہی تھی۔پاکیزہ نے آگے بڑھ کر اپنا تعارف کروایا۔ان کے گلے لگے ہوئے اس نے ہال میں آفتاب نوراور واحد شیخ کو داخل ہوتے دیکھا۔لڑکوں میں سب سے پڑھاکو لڑکا واحد ہی تھا۔اپنے نام کی وجہ سے اکثر مذاق کا نشانہ بنتا۔لڑکے تو اسے پپو بھی کہہ کر چھیڑنے کی کوشش کرتے لیکن اپنی نیک خصلت کے سبب وہ اپنے اساتذہ کا پسندیدہ شاگرد تھا۔اس تقریب میں اس کا آنا بھی اتنا ہی ضروری تھا جتنا پاکیزہ کا آنا۔آفتاب کے پاس ان دونوں جیسی کوئی خصوصیت نہ تھی لیکن اس کو نہ بلایا جاتا یہ بھی ممکن کہاں تھا۔اسے دوسروں کی مدد کرنے کی عادت تھی۔شکل کے ساتھ یہ اضافی خوبی سونے پہ سہاگے کی مانند اسے توجہ کا مرکز بنائے رکھتی۔ان دونوں کو دیکھتے وہ واپس اپنی جگہ پہ جا کر کھڑی ہوگئی۔
آفتاب اور احد نے میم نگین سے سٹیج پہ جا کر ملاقات کی ۔انہیں پھولوں کا بوکے دیا۔نیچے اتر کر ہال کا جائزہ لیا اور ایک میز پہ جس کے گرد پڑی کرسیوں پہ صرف لڑکے بیٹھے تھے کے قریب کھڑا ہو گئے۔وہیں کھڑے کھڑے اآٖفتاب کی نظر پاکیزہ پہ پڑی۔اسے حیرت ہوئی کہ وہ اتنی ضروری بندی کو اس سارے منظر نامے میں کیسے نظر انداز کر بیٹھا۔وہ فورا اس کے پا س جا پہنچا۔احد اسی میز پہ کھڑا رہا۔
’’تم بیٹھی نہیں ہو؟ ‘‘اسے کھڑا دیکھ کر بھی وہ یہ بے وقوفوں والا سوال پوچھ بیٹھا۔
’’ڈانس کرنے لگی ہوں۔تم نے کرنا ہے ؟ ‘‘وہ اس بے وقوف کو یہی جواب دے سکتی تھی۔
وہ ہنسا ۔’’کھڑی کیوں ہو ؟‘‘ناسمجھی میں ہی سہی لیکن اس نے اپنا سوال دہرا دیا تھا۔
’’شوق ہے کھڑا ہونے کا۔‘‘پاکیزہ کی نظر اس سے بھٹک کر آگے پیچھے گھومنے لگی۔
آفتاب نے اب ذرا غور سے دوبارہ ہال کا جائزہ لیا۔ہال میں کوئی خالی کرسی نہیں تھی۔
ُٓپاکیزہ اور آفتاب میں یہی فرق تھا کہ بہت تیز روشنی سے پاکیزہ کی آنکھیں چندھیا نہیں جاتی تھیں لیکن آفتاب تیز روشنی سے جونہی کمرے میں آتا تھا کچھ دیکھ نہ پاتا ۔جتنی پر اعتماد پاکیزہ تھی اتنا ہی دبو قسم کا آفتاب تھا۔یوں لگتا تھا کہ ایک چھوٹا سا کنکر اسے سر پہ پرے گا اور وہ پانے سارے وجود کے ساتھ کچلا جائے گا۔مکمل نظر آنے والے اس لڑکے میں چھوٹی چھوٹی نا محسوس ہونے والی بہت سی دراڑیں تھیں۔
’’ویٹر سے کہو اضافی کرسی لا دے۔‘‘یہ مشورہ بھی پاکیزہ نے دیا۔
آفتاب اس کے مشورے پہ آنکھوں میں ستائش لئے ویٹر کی طرف لپکا۔
’’کس لئے چائیے؟ ‘‘کھڑوس ویٹر کی آواز پاکیزہ کے کانوں سے ٹکرائی۔
’’ان کے لئے ۔‘‘آفتاب نے انگلی سے پاکیزہ کی طرف اشارہ کیا۔
عزت شاید دستیاب چیزوں میں سب سے مہنگی شے ہے،جو ں ہی نظر آتی ہے انسان بچہ بن کر اس کی طرف لپکنے اور ہمکنے لگ جاتا ہے۔پاکیزہ کو اس اور ان کے اثر کے فرق کا احساس شدت سے ہوا۔
نہ چاہتے ہوئے بھی باقی سارے فنکشن میں آٖفتاب کو پاکیزہ اپنے پاس سے ہٹا نہ سکی۔وہ اس کی بے وقوفوں والی باتیں سنتی رہی جن میں سے آدھی باتوں کا اختتام اس پہ ہوتا رہا کہ تم بہت اچھی ہو۔وہ اس میٹھے لمس کو پیتی رہی،جتنے آنسو بہا کر آئی تھی ان کا ازالہ ہو رہا تھا۔ان دونوں نے کھانا بھی ساتھ کھایا تھا۔شاید دوستی کے راستے پہ وہ پہلا قدم رکھ چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مرجاتے ہیں
آج سکول میں مینڈک کی ڈائی سیکشن ہونا تھی۔بچوں اور بچیوں کے تجسس کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔سر اسد مینڈک کو بے ہوش کر کے جار میں ڈال کر نہم جماعت میں ہی رکھ گئے۔کلاس کی نسبتاََ نڈر لڑکی صائمہ نے سارے دن میں تقریباََ ہر کلاس میں اس جار کو لے جا کر دکھایا۔چھوٹے کلاسز کے اکثر بچے تو جار کی شکل دیکھ کر ہی ٹسوے بہانے لگے۔سب ہی سرگرم نظر آئے۔
دن ڈوبتے ابھرتے محسوس ہوئے ۔۔۔ یہ دن دوبارہ کب ہاتھ آئیں گے؟کبھی بھی نہیں،یہ سنہری یادیں دماغ کے منظر نامے پہ انمٹ نقوش چھوڑ دیں گی۔ہم خود بڑے ہو جائیں گے اور اسی سکول میں اسی جگہ بینچ پہ نجانے کتنی مزید نسلیں پڑھ رہی ہونگی۔کیا ان کو احساس ہوگا کہ اس چار دیواری میں ہماری کیسی کیسی شرارتیں اور عمر کے کیسے سنہرے پل قید ہیں۔کبھی جو ہم خود پلٹ کر ان راہوں پر آئیں گے تو بیتے لمحوں کی خوشبو تو مل ہی جائے گی لیکن چننے کو کوئی پھول نہ ہوگا۔
یہ وقت بھی کیسی ظالم شے ہے،انسان سے بچہ بننے کا حق لے جاتا ہے،بچپن لے جاتا ہے اور فکریں چھوڑ جاتا ہے۔انسان کو سچ میں انسان بنا دیتا ہے!
ایسی ہی باتیں وہ سب سوچتے اور اساتذہ بھی ان کے سامنے یہی فلسفہ دہراتے۔اپنی یادیں بانٹتے۔
پتہ نہیں کیوں سکول کی زندگی کے آخری دو سال بہت جذباتی ہوجاتے ہیں۔پاکیزہ نے سر کرسی کی پشت سے ٹکا کر سوچا۔
’’ٹھک ٹھک‘‘ کچھ اچھلنے کی آواز آئی ۔پاکیزہ نے آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا ، پھر چیخ مار کر اپنی نشست پر کھڑی ہوگئی۔ وہ بے ہوش مینڈک جس کو سارا دن اچھالا جاتا رہا تھا،اب ہوش میں آچکا تھا۔اور اس کا سر مسلسل اچھلنے سے جار کے کارک کے ساتھ لگ رہا تھا جس سے ٹھک ٹھک کی آوازیں آرہی تھیں۔
ساری لڑکیاں ہی پاکیزہ کی چیخ کی وجہ سے متوجہ ہوئیں اور مزید چیخیں مار کر اس ہنگامے میں اپنا حصہ ڈالنے لگیں۔نڈر سی صائمہ کی ساری بہادری ناک کے راستے نکل آئی ۔وہ چیخیں مارنے میں سب سے آگے کھڑی ملی۔اس کے خیال میں وہ اچھال اچھال کر بے چارے مینڈک کو اتنی تکلیف پہنچا چکی تھی کہ وہ اب اس کی طرف دیدے پھیلائے یونہی نہیں دیکھ رہا تھا بلکہ اس کی آنکھوں سے انتقام کے شرارے لپک رہے تھے۔
کلاس کے اس بے سرو پا ہنگامے کو قابو کرنے کے لئے کوئی بھی استاد موجود نہ تھا ۔شور کی آواز سن کر سر اسد کلاس میں آئے اور ان سب کو بمشکل پر سکون کیا۔لڑکوں کی ہنسی ہی بند نہیں ہو رہی تھی۔وہ لڑکیوں کی چیخوں کی نقل اتار اتار کر ہنس رہے تھے اور اپنے ہاتھ پیٹوں پہ رکھ لیے تھے۔لڑکیاں بھی اب کھسیانی ہنسی ہنسنے لگی۔مسئلہ جوں کا توں تھا۔جس کو چیڑنا پھاڑنا تھا وہ جاگ گیا تھا۔بند جار کے اندر موجو د ہوتے ہوئے ہی اس نے حشر برپا کروادیا تھا۔بالآخر سر اسد نے لڑکوں کو بھیج کر اپنی بائیک سے پٹرول نکالااور مینڈک والے جار میں کچھ مقدار انڈیل دی۔جار کو جب ہلایا گیا تو وہ انتقام کے شرارے اپنی آنکھوں میں لئے ہی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔اب چیخیں مارتی لڑکیوں کا افسوس قابل دید تھا۔
خیر خدا خدا کر کے بائیولوجی لیب میں جانے کا مرحلہ آیا۔ڈائی سیکشن بورڈ پہ thumb pins سے مینڈک کو منسلک کیا گیا۔تو لڑکیوں کی سی سی اور لڑکوں کی ہنسی کی آواز پھر سے گونجنے لگی۔گول میز کے گرد کھڑے بچوں میں لڑکوں لڑکیوں کی تخصیص نہ تھی۔
آ ٓفتاب نے اسی وقت کا فائدہ اٹھایا اور پاکیزہ کے قریب جا کھڑا ہوا۔
سر اسد مینڈک کے پیٹ کو چیر چکے تھے سب کی نظریں مسلسل اب اسی کی طرف تھی۔سرگوشیاں مدھم ہوتے ہوتے تمام ہو گئی۔پاکیزہ کے ہاتھ پہ کوئی لمس جاگا۔اس کا ہاتھ کسی نے تھاما تھا۔پاکیزہ نے ساتھ کھڑے وجود کو آنکھیں کھول کر دیکھا۔آفتاب بظاہر بہت دلچسپی سے مینڈک کے نظام انہضام کو دیکھنے میں مگن نظر آیا لیکن صرف پاکیزہ جانتی تھی کہ اس کی گرفت اس وقت پاکیزہ کے ہاتھ پہ کتنی مضبوط ہے۔پاکیزہ نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی لیکن دیو کی جان بھی کبھی طوطے سے یونہی نکلی ہے؟ طوطے کی موت ضروری ہوتی ہے۔
پاکیزہ کا ہاتھ چھڑوانے کے لیے سر اسد کی توجہ ضروری تھی لیکن وہ انتہائی انہماک سے نظام انہضام کے ہر ہر حصے کو بچوں کو دکھاتے نظر آئے۔پاکیزہ اگر شور ڈالتی تو اس کا اپنا تماشا بن جاتا۔وہ خود تماشا بن جاتی۔وہ خاموش رہی۔
آفتاب پورے چالیس منٹ اس کا ہاتھ تھام کر کھڑا رہا ۔وہ کبھی ہتھیلی کو ہاتھ سے تھام لیتا۔کبھی انگلیوں کو پکڑ لیتا۔گرفت ذرا جو ڈھیلی ہوتی پاکیزہ فوری طور پہ ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتی لیکن اسے کامیابی نہ ملی۔اس کی آنکھوں کے اندر اتنے انوکھے رنگ اترنے لگے کہ وہ سامنے پڑے مینڈک کے دل اور معدے میں کوئی فرق نہ کر سکی۔اس کا دل چھوٹا پڑ رہا تھا اور ہتھیلیاں پسینے میں بھیگ رہی تھیں۔کوئی بہت ہی منفرد احساس سرطان کی طرح اس کے لہو میں شامل ہوا ۔
پہلی بار کسی لڑکے نے اسے چھوا تھا اور اتنی نرمی سے اس کے ناخنوں سے اپنی انگلیں مس کی تھیں۔پاکیزہ کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔اس کے سر میں درد کی شدید ٹیسیں اٹھنے لگیں۔پچاس منٹ بعد جب آفتاب نے اس کا ہاتھ چھوڑا تو پاکیزہ کے دماغ میںجتنے تیز جھکڑ چل رہے تھے دل میں اتنی ہی خاموشی تھی۔صحرائوں کی راتوں میں ٹھنڈک سی خاموشی۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذرا سی دیر میں دل میں اترنے والے لوگ
ذرا سی دیر میں دل سے اتر بھی جاتے ہیں۔
’’پاکیزہ یہ تمہاری کاپی‘‘ آفتاب نے آکر پاکیزہ کو چیک ہوئی کاپیوں میں سے اس کی کاپی نکال کر دی۔
پاکیزہ نے ہاتھ میں کاپی پکڑی اور آفتاب کے منہ پر دے ماری۔وہ اس کی طرف دیکھ نہیں رہی تھی۔
’’ دفع ہو جائو یہاں سے‘‘ اس کی زہر خند آواز گونجی۔
کلاس میں اس وقت صرف دو چار لوگ اور تھے۔وہ حیرت سے ان کی طرف مڑے۔
’’کیا ہوا ہے؟‘‘ صائمہ نے پاکیزہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔
آفتاب ششدر سا وہیں کھڑا رہا۔ ’’ کچھ بھی نہیں ہوا مجھے۔چھوڑ دو مجھے میرے حال پر۔‘‘ پاکیزہ نے کندھے پہ جمے ہاتھ ہٹائے۔
’’کوئی مسئلہ ہے تو ہم حل نکال لیتے ہیں۔کوئی ناراضگی ہے؟َ ‘‘ فہد نے آگے بڑھ کر معاملہ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی۔
’’میں کہہ رہی ہوں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔تم سب لوگ چھوڑ دو۔مجھے اپنے مسئلے خود حل کرنے آتے ہیں۔‘‘ پاکیزہ قطعی لہجے میںگویا ہوئی۔
’’لیکن۔۔۔‘‘ فہد نے اسے سمجھانا چاہا لیکن آفتاب نے بات کاٹ دی۔’’چھوڑ دو فہد۔کوئی اسے کچھ نہ کہے‘‘۔
سب ان دونوں سے دور ہٹ گئے۔آفتاب نے اپنی کہنیاں بینچ پر ٹکا دی او پاکیزہ کو کہا۔
’’مجھے ڈر لگتا ہے کہ جب تک تمہیں سمجھ آئے تب تک کہیں بہت دیر نہ ہو جائے۔محبت بار بار دستک نہیں دیتی!‘‘
پاکیزہ نے نخوت سے ناک چڑائی۔آفتاب جا چکا تھا۔
کیا ہوتا ہے ایک لڑکی کے پاس؟ صرف ایک کردار۔یہ کیوں میرے کردار کو دھندلا کرنے کے پیچھے پڑ گیا ہے۔میرے پاس اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔کوئی رشتہ بھی نہیں ہے۔میری ذات کا آئینہ دھندلا ہو گیا تو میں خود سے کیسے نظریں ملا پائوں گی۔میں کیسے سر اٹھا کر جی سکوں گی۔اتنی لڑکیاں ہیں کلاس میں اس گدھے کو کوئی اور کیوں نظر نہیں آتی۔یہ کسی اور کی طرف اتنی ہی شدت سے متوجہ ہو جائے تو کم از کم میری جان تو چھوٹے۔ مجھے بنانے والے اللہ نے میرے کالے رنگ میں اس گورے رنگ والے کے لیے کیسی کشش رکھ دی ہے۔یہ آزمائش ہے تو مجھ پہ ہی کیوں آن پڑی۔یہ امتحان ہے تو میں ہی کیوں دوں۔یہ مصیبت ہے تو میں کیوں جھیل رہی ہوں۔یہ انعام ہے تو میری جھولی میں کیوں آن پڑا ہے۔میں کیسے یقین کر لوں اس بات کا کہ محبت بانہیں کھولے دھیرے دھیرے قدم بڑھاتے اپنی ساری خوشبوئیں لیے میری جانب بڑھ رہی ہے۔کیسے مان لوں کہ محبت مجھ جیسی عام لڑکی پہ بھی مہربان ہو سکتی ہے۔
وہ سوچ کے تانے بانے بنتی نجانے کس مقام پہ کھڑی تھی۔زندگی نے تنہا سی لڑکی کو بس ایک نظر دیکھا اور پھر وقت کے گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی۔وہ سر پٹ دوڑنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندہ رہنے کا حوصلہ دینا
کتنا آسان ہے مشورہ دینا
تسکین لمبے بال کھولے آئینے کے سامنے بیٹھی تھی۔ایک ہاتھ اپنی زلفوں میں پھنسایا ہوا اور دوسرے ہاتھ سے کنگھی کو سختی سے پکڑا ہوا تھا۔اتنی سختی سے جیسے دل ہی دل میں کچھ فیصلے کر رہی ہو،کچھ یاد کر رہی ہو،کچھ بھول جانے کی کوشش کر رہی ہو۔ا س کے چمکتے سفید بال آئینے سے منعکس ہو کراس کی اپنی ہی آنکھوں میں چھبنے لگے۔وقت غلام بنا لیتا ہے کیونکہ ہم وقت پہ فیصلے نہیں کرتے!
’’ پھوپھو کیا کر رہی ہیں؟‘‘ پاکیزہ کو اپنی تنہائی افسردگی کی دہلیز پہ دھکیلنے کی کوشش میں سرگرداں نظر آئی۔وہ افسردگی سے چھپتی ان کے دامن کو تنکا جان کر لپکی اور تھامنا چاہا۔
’’ میں کیا کر رہی ہوں؟ میں نے کیا کرنا ہے،میں کر ہی کیا سکتی ہوں ۔ اپنے نصیبوں کو ہی روسکتی ہوں ۔وہی کر رہی ہوں ۔‘‘ انہوں نے کنگھی کو آئینے پہ دے مارا۔
’’ ہر وقت عجیب و غریب بنا رہتا ہے گھر کا ماحول۔میں اور آپ دو لوگ ہیں اس گھر میں۔آپ مجھے کچھ نہیں کہتی،میں آپ کو کچھ نہیں کہتی۔پھر آخر ہم آرام سے بات کیوں نہیں کر سکتے۔سکون سے رہ کیوں نہیں سکتے۔آپ کا ایک دن مزاج ٹھیک ہوتا ہے تو دو دن بر ہم رہتا ہے۔آپ اپنے آج سے سمجھوتا کیوں نہیں کر لیتی ؟‘‘ وہ الجھ پڑی۔اس کی پھوپھو آج پھر اپنے آپ میں سے نکلی جارہی تھی ۔کوئی اور وقت ہوتا تو وہ انہیں ان کے حال پہ چھوڑ کر واپس پلٹ جاتی لیکن تنہائی اتنا الجھاؤ پیدا کر دیتی ہے کہ انسان کا الجھنے کو دل کرنے لگ جاتا ہے۔
’’میں سکون سے رہنا چاہتی ہوں لیکن تم نے دیکھا ہے میرے وحشت زدہ کمرے میں ناچتی تنہائی کو،تم نے دیکھا ہے میرے ترسنے کو لیکن تم کیوں دیکھو گی ۔تم نے کیوں دیکھنا ہے۔یہ میرا درد ہے،یہ میں نے جھیلنا ہے ۔میں دوستوں کی محتاج ہوں۔نام نہاد دوستوں کو ان کے بچے یا شوہر پریشان کریں تو وہ مجھے وقت دینے آجاتی ہیں ورنہ تو جہ کی بارش کی منتظر بنی میںبنجر زمین کی طرح اندر ہی اندر ٹوٹ پھٹ کا شکار ہوتی رہتی ہوں۔ اک خاک ہے جو میرے سر پر پڑتی رہتی ہے،ایک تنہائی کا طوق ہے جو میرے گلے کا ہار بنا رہتا ہے،اک پھٹکار ہے جو مجھ پہ برستی رہتی ہے۔۔‘‘ وہ بھی تو الجھی ہوئی تھیں،انہیں بھی موقع مل گیا۔
’’اگر تنہائی ایسی ہی ناقابل برداشت تھی تو آپ کو شادی کر لینی چاہیے تھی۔پھوپھو آپ ابھی بھی کسی کو ڈھونڈ سکتی ہیں تو ڈھونڈیں۔اپنا گھر بسائیں۔مجھے خوشی ہوگی۔‘‘پاکیزہ نے بڑی آسانی سے حل بتا دیا۔
’’کتنا آسان ہوتا ہے ناں کسی دوسرے کو حل بتانا۔چٹکیوں میں دوسروں کو ان کی الجھن کے سلجھائو تک پہنچانا۔ہم اتنے عالم فاضل ہوتے ہیں تو آپ اپنے راستے اپنے لیے کیوں آسان نہیں کرلیتے۔مجھے بر ہی ڈھونڈنا ہوتا تو پہلے کیوں نہ ڈھونڈ لیتی۔تم چاہتی ہو کہ میں بر خود ڈھونڈو تاکہ معاشرہ مجھ پہ انگلیاں اٹھائے،میرے کردار پہ انگلیاں اٹھائے۔پہلے ماں زندہ تھی۔اسے میں اتنی عزیز تھی کہ وہ مجھے کسی دوسرے کو سونپنا ہی نہیں چاہتی تھی۔مرتے مرتے گھر بھی بھائی کی جگہ میرے نام کر گئی۔انہیں لگا تھا سر پر پڑی چھت سے بڑا کوئی ساتھی نہیں ہے،انہیں کیا معلوم تھا ہر رات تنہا جاگتے اور اس چھت کو تکتے گزرتی ہے تو یہ چھت آسیب زدہ لگنے لگتی ہے۔یہ چھت امان نہیں لگتی ،عذاب لگتی ہے۔ماں کے بعد میں بھائی کو عزیز ہو گئی۔۔۔ اتنی عزیز کہ ان کی ناک کے نیچے کوئی شخص نہیں آیا۔کوئی رشتہ ان کو میرے لیے پسند ہی نہیں آیا۔پھر تمہیں میری گود میں چھوڑ کر دونوں ایک دن نکلے تو واپس کبھی لوٹ کر نہ آئے۔سال بھر کی بچی کو چلنا پھرنا سکھاتی،اسے سکول داخل کروا کر لوٹی تو میرے بال اتنے سفید ہو چکے تھے کہ کسی کی محبت کا گلاب ان میں سج ہی نہ سکا۔آج تم سوچنے اور بولنے کے قابل ہوئی ہو تو کہتی ہو کہ شادی کر لیں،کتنا آسان ہے ناں مشورے دینا۔بہت آسان ہے مشورے دینا۔‘‘ وہ تلخ اور تند لہجے میں کہتی آخر میں ٹھنڈی سی ہو گئی۔
’’پھوپھو کوئی تو ہوگا جس نے کبھی آپ کوپسند کیا ہو؟ جس کے لیے آپ کا دل بھی دھڑکا ہو۔‘‘ نجانے ایک اجنبی سے اتنا ذاتی سوال پوچھنے کی ہمت پاکیزہ کے اندر کہاں سے آئی۔یہ سوال بچپن سے اس کے ذہن پہ دستک دیتا رہا تھا۔آج جو ماحول سازگار دیکھا تو دہلیز پار کر بیٹھا۔
کہکشائوں کی چمک ایک سیکنڈ کے لیے تسکین کی آنکھوں میں ابھری،اس کے چاندی سے بال شرما گئے لیکن ساتھ ہی حال جیت گیا،چمک معدوم ہوئی۔
’’ پاکیزہ یہ معاشرہ ہے ناں اسے پسند سے،دل کی دھڑکن سے کوئی سروکار نہیں۔اس کا تعلق ہے تو رسم سے، رواج سے،اور عقیدے سے۔اس معاشرے میں انسان تو مر سکتا ہے لیکن روایات کبھی دم نہیں توڑتی۔یہ معاشرہ آنکھ سے زنا کی کھلی دعوت دیتا ہے۔ اس معاشرے میں ہر طرح کا زنا جائز ہے اور آسان ہے ۔لیکن شادی ،نکاح اور جائز تعلق بہت مشکل ہے۔لڑکی والوں کی ناک سے لکیریں کھینچوائی جاتی ہیں۔ اور لڑکے والوں خصوصاََ لڑکے کی ہڈیوں کا رس نکال کر بینڈ باجا بجوایا جاتا ہے۔لڑکا پندرہ سال کی عمر میں شادی کا مفہوم سمجھ جاتا ہے اور شادی مانگتا ہے۔گھر والے پھر بھی اگلے دس سال تک اس کے پچیس سال کے ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔انتظار اس دن کا ہوتا ہے کہ وہ کمانے لگ جائے۔کمانا شروع ہوتا ہے تو اس کے بعد دس سال مزید اس کو آگ میں تپایا جاتا ہے۔سونا تو وہ پہلے ہی ہوتا نہیں کہ کندن بن جائے لیکن کئی لڑکیوں کے روپ سے وہ اپنی آنکھیں سینکتا رہتا ہے۔کئی تتلیوں کو گھر کا رستہ بھلاتا ہے،کئی پنچھیوں کواپنی مٹھی میں دبوچتا رہتا ہے۔ان ہی کے گھروں کی لڑکیاں جب ایسے ویسے کسی بہلاوے میں آجاتی ہیں تو سارا ذمہ دار معاشرے کی کمزور بیساکھیوں کو ٹہرا دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف لڑکا مرد بننے تک کی عمر میں اگر شادی کا نام لے ،خاص طور پر پسند کی شادی تو اس کو اتنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جاتا ہے کہ اگر وہ کسی کو پسند بھی کرتا ہو اور کسی کا دل اس کے نام پہ بھی دھڑکتا ہو تب بھی وہ اس بے امان کو اپنا نام نہیں دے سکتا۔ہمارا معاشرہ اسے اتنی بہادری کی اجازت دیتا ہی نہیں ہے۔اس معاشرے کی عورت سے تو تم نہ پو چھو کہ اس کا دل کبھی کسی کے نام پہ دھڑکا یا نہیں۔‘‘
پاکیزہ نے بہت سے خوابیدہ خواہشات کے پنچھی ان کے لہجے میں پرواز کرتے اور پھر بے موت مرتے دیکھے۔
’’آپ پریشان نہ ہوں پھوپھو،اللہ سب اچھا کرے گا۔‘‘
’’اللہ تو ہمیشہ ہی اچھا کرتا ہے۔اس نے تو کرنا ہی اچھا ہے۔اس کے بندے ہیں ناں ہم سو برائیاں کر لیں تب بھی وہ اچھا کرتا ہے لیکن کچھ چیزیں ہمارے ہاتھ میں بھی ہوتی ہیں۔ اگر ہم ان چیزوں پہ کسی وقت اسٹینڈ نہیں لیتے تو ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ ہر کسی کو الزام دیں۔مجھے بھی کوئی حق نہیں ہے کہ میںکسی کو الزام دوں۔‘‘پل میں تولہ پل میںماش ہوتا مزاج ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کی صورت رواں ہوا۔وہ چیزوں کو ہذیانی انداز میں الٹ پلٹ رہی تھی۔
پاکیزہ خاموش کھڑی انہیں ماضی پہ آنسو بہتا دیکھتی رہی۔وہ جانتی تھی کہ اب سانپ دائرے سے باہر نکل چکا ہے۔لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔وہی ہونا تھا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔چاہے وہ خاموش کروائے یا نہ کروائے۔
’’تمہیں زندگی موقع دے تو تم ضرور لینا موقع۔تم آخری دئیے سے بھی آگ لگا سکو تو لگا لینا۔اپنے حصے کی زندگی جینا۔مجھے تو کسی نے زندگی جینے ہی نہیں دی۔پہلے میری ماں میری دشمن بنی رہی۔پھر میرا بھائی میرے سر پہ سوار رہا۔تمہارے باپ کی وجہ سے آج میں ایسی ہوں۔تمہاری ماں کو اپنی رنگ رلیاں منانے سے فرصت ملتی تو وہ گھر میں ایک تنہا سڑتے ہوئے وجود کا جائزہ لیتی۔پھر تمہیں میرے سر پہ چھوڑ دیا گیا۔سب منحوس میرے لیے ہی رہ گئے تھے۔‘‘
تسکین اپنے سنگھار میز پر پڑی سب چیزوں کو ہاتھ مار کر گرا چکی تھی۔ اس نے ساری رات اسی قالین پہ پڑے بڑبڑاتے رہنا تھا۔اگر کوئی اس کے قریب آتا تو وہ خود کو نقصان پہنچا لیتی۔ایسا ایک دو بار نہیں سینکڑوں بار ہو چکا تھا۔
اگلی آنے والی صبح نارمل ہوتی،تاثرات سے عاری چہرہ لیے ناشتہ تیار رکھے ملتی جیسے کل رات کچھ ہوا ہی نہ ہو۔‘‘کوئی خواب مرا ہی نہ ہو،کوئی پرندہ پھڑپھڑایا ہی نہ ہو۔اور کوئی سانس اٹکا ہی نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے۔
انسان کو اپنے ماں باپ سے ہزاروں شکوے ہو،وہ بظاہران سے دور ہو جائے تب بھی وہ ان کی برائی کر سکتاہے لیکن سن نہیں سکتا۔کسی دوسرے کے منہ سے کسی صورت نہیں سن سکتا۔
پاکیزہ کو اپنے والدین میں سے کسی کا چہرہ یاد نہیں تھا۔گھر میں پڑی دو چار تصویروں سے ان کے تصور کو بمشکل ذہن نشین کیا لیکن تصور سے کہیں پہلے شکایتیں اس کے دماغ جگہ پاتی گئیں۔بھلا کیسے والدین تھے ایک سال کی بچی کو چھوڑ گئے ۔ہزاروں شکوے اور لاکھوں گلے جاں گزیں رہتے۔لیکن پھوپھو جب کوسنے دیتی توپاکیزہ کو بھول جاتا کہ اس نے والدین کے بغیر رہ کر والدین کے بارے میں کیا کیا عجیب خیالات پال رکھے ہیں۔اسے یہ بھی بھول جاتا کہ اس کی پھوپھو نے اس کے ہر ہر قدم پہ سو سو بلائیں اپنے سر لی ہیں۔اس کے سکون اور آسائش کا خیال رکھا ہے۔اسے یاد رہتا تو بس یہ کہ تسکین پھوپھو اس کے مرے ہوئے ماں باپ کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرتی ہیں۔
شاید ان دونوں کے رشتے کے درمیان خلا کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی ۔اسی وجہ نے پاکیزہ کے اندر بھی چھپے ہوئے بہت سے درز بنا دیئے۔وہ بظاہر سختی سے مضبوطی سے کھڑی ہوئی ملتی لیکن تیز ہوائیں جب درزوں سے گزرتی بہت کچھ اندرتک ہل کر رہ جاتا۔
سکول میں ٹوتھ پیسٹ کی کمپنی والے آئے ہوئے تھے۔مئی کے مہینے میں ماں کا عالمی دن منانے کے لیے وہ بچوں کے ہاتھوں سے ان کی مائوں کے لیے پیغامات لکھوا رہے تھے۔پاکیزہ نے محرومی بھرے کچھ الفاظ کاغذ پہ گھسیٹے۔میم نگین نے اس سے صفحہ لے کر پڑھا اور اسے باقی کلاس کے بچوں کے پیغامات جمع کرنے بھیج دیا۔پاکیزہ کے کاغذ پہ لکھا تھا۔
’’دنیا کی سب سے بد نصیب بیٹی وہ ہے جس کی ماں اس کے سر پہ نہیں ہوتی،اسے سردو گرم سے بچا نہیں سکتی ،اس کی تربیت نہیں کر سکتی ،اس کے ساتھ ایک بار پھر سے جوان نہیں ہو سکتی ،اس کے غم نہیں بانٹ سکتی،اس کے درد نہیں پڑھ سکتی ،اسے اپنی آغوش میں سمیٹ نہیں سکتی۔جب جب رات گہری ہوتی ہے آپ کی یاد،آپ کاچہرہ،آپ کا تصور میرے ذہن کے نہاں خانوں میں آن بستا ہے۔میرا دل چاہتا ہے کہ وقت پیچھے پلٹ جائے اور میں آپ کی گود میں چھپ جائوں۔ایک دفعہ میں اپنے ہوش و حواس میں آپ کے لمس کی گرمی محسوس کر سکوںلیکن ایسا ہو نہیں ہو سکتا۔میں تو بد نصیب ہوں۔بہت بد نصیب ہوں۔تنہائی اور اندھیرا میرا مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔میں روتی رہتی ہوں۔میں آپ کو بہت یاد کرتی ہوں امی۔میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں۔‘‘
میم نگین پاکیزہ کے والدین کے انتقال سے واقف تھیں ۔انہوں نے اپنی انگلی سے آنکھ کے کنارے پہ آیا آنسو صاف کیا۔ ایک نظر پاکیزہ کو دیکھا۔اس کے چہرے پہ کوئی بھی تاثر نہیں تھا۔سپاٹ چہرہ لیے وہ پیغامات اکھٹے کر رہی تھی۔میم نے اس کو ہی ذمہ داری سونپی کہ یہ پرنسپل کے دفتر میں دے آئے۔
سیڑھیاں اترتے ہوئے اس کو ہلکی سی ٹھوکر لگی۔صفحے ہاتھ سے گر گئے اس نے ان سب کو اٹھایا اور دوبارہ کھڑی ہوئی۔سب سے اوپر پڑا پیغام آفتاب کی ٹیڑھی میڑھی لکھائی میں لکھا ہوا ایک جملہ تھا۔
’’میں گھر میںجا کر سب سے پہلے اپنی ماں کاچہرہ دیکھتا ہوں کیونکہ میں جو بھی کہوںیا وہ جو بھی کہیں ،انہیں مجھ سے زیادہ اورمجھے ان سے زیادہ کسی سے محبت نہیں۔‘‘
پاکیزہ کی رفتار میں سستی آگئی۔آفتاب میں کیا تھا کچھ بھی نہیں۔آنکھیں کھول کر دیکھاجائے تو پیسے اور وجاہت کے علاوہ اس لڑکے میں رتی بھر بھی کشش والی کوئی شے نہیں تھی۔اس کی لکھائی،اس کی پڑھائی،سب عام تھا۔اعتماد صفر تھا۔کسی نئے شخص سے بات کرتے ہوئے وہ ہکلانے لگ جاتا۔لیکن پاکیزہ مسحور ہوگئی۔۔۔!
وہ مسحوراس لڑکے سے نہیں ہوئی جو مسلسل اس پہ فسوں پھونکنے کی کوشش کر رہا تھا۔وہ مسحور اس گھر سے ہوئی جس میں ماں رہتی ہے۔اس جذبے پہ اس کو بھی اختیار نہ تھا۔
ایک گھر جس میں ماں ہو وہ کتنا حسین ہو سکتا ہے اس کا اندازہ واقعی صرف وہ کر سکتا ہے کہ جس نے ماں کے بغیر زندگی کوگزارا ہو۔
کچھ چیزیں ہم میں ہوتی ہیں اور دوسروں میں نہیں ہوتی۔ہم چاہیں یا نہ چاہیںپزل کے ٹکڑوں کی مانند بچھنے لگتے ہیں۔اور زندگی کی بساط ہم ادھورے ادھوے حصوں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر منظر نامے کو مکمل کر دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کر رہا ہوں محبت بھی اس لئے شاید
جو کام کر نہیں سکتا وہ کام کرتا ہوں
جس طرح موسیقی کے دھیمے دھیمے سر ہمیشہ کانوں میں سنائی دیتے رہتے ہیں،رو پہلی چاندنی زمین پہ اپنے جلوے بکھیرتی رہتی ہے،سورج اپنی طلسماتی شعاعیں لئے ابھرتا ڈوبتا رہتا ہے وقت بھی ان سب کی طرح سبک رفتاری سے گزرتا چلا جاتا ہے ۔
وقت بھی ہمیشہ سفر میں رہتا ہے۔کوئی شے بہت بڑی یا چھوٹی نہیں ہوتی،اس سے جڑے احساسات شے کو بڑا یا چھوٹا کر دیتے ہیں۔نہم کے امتحانات بھی ایسے ہی تھے کہ جب تک ہوئے نہیں اس کے لیے سوہان روح بنے رہے۔جب ہو گئے تو یوں لگا کہ جیسے کوئی بات ہی نہیں تھی۔چھوٹا سا مذاق تھا جو بہت بڑا جن بن کر سر پہ سوار تھا۔دن بیتتے چلے گئے اور پھر وہ دن بھی آگیا جس دن رزلٹ تھا۔
پاکیزہ کی ذہانت نے اسے دنیا کے سامنے ممتاز کر دیا۔اس کا بہت لمبا چوڑا نام نہ تھا جو یاد رہ جاتا۔نام کے ساتھ پھوپھو نے والد کا نام بھی نہ لگایا ،مختصر سا نام تھا لیکن اس نے اپنی شناخت بنا لی۔پورے ضلع میں اس کی پانچویں پوزیشن تھی۔اچھی یاداشت اچھی شے ہے بری۔۔۔ اس سے قطع نظر تعلیمی میدان میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے۔اس عام سے سکول میں رہ کر اتنے اچھے نمبر لینا بہت بڑا کارنامہ بن گیا۔پرنسپل نے پاکیزہ کی بلائیں لی۔اساتذہ اور پاکیزہ کے اعزاز میں ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ہال میں سب تیاریاں مکمل تھیں۔سٹاف روم میں کیک پڑا ہوا تھا۔پاکیزہ کھڑے پانی جیسی نہیں تھی۔اس کے اندر کی صلاحیتیں ابھر ابھر کر باہر آتی۔اس تقریب میں خاص بھی وہی تھی اور منتظم بھی۔وہی کیک لینے سٹاف روم میں گئی۔پیچھے مڑی تو آفتاب کھڑا تھا۔ایک کلاس میں رہتے ہوئے سرسری سی سلام دعا پھر سے شروع ہو گئی تھی۔بچپن کی لڑائیاں ایسی ہی ہوتی ہیں پل میں تو تو میں میں اور دوسرے ہی پل تو ہی تو۔۔۔
’’مبارک ہو‘‘ وہ بہت دھیمے لہجے میں بولا۔
’’خیر مبارک‘‘ پاکیزہ کیک کو ڈبے سے نکال کر ٹرے میں رکھنے لگی۔
کیک کی کچھ کریم ڈبے کے اطراف پر لگ ی تھی۔آفتاب نے اسے اپنی انگلی پہ لگا لیا۔پاکیزہ نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔وہ مسلسل اسی کو دیکھ رہا تھا۔اس نے ایک قدم آگے بڑھایا۔پاکیزہ ایک قدم پیچھے ہٹی۔وہ تین قدم مزید آگے آیا۔اور پاکیزہ تین قدم مزید پیچھے ہٹ کر دیوار سے جا لگی۔وہ اس کے بہت پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔پاکیزہ اس کی آنکھوں کا سامنا نہ کر سکی۔اس نے اپنی آنکھیں میچ لی۔آفتاب نے اس کے گال پہ انگلی سے ہلکی سی کریم لگا دی۔وہ لب اور آنکھیں بھینچے خاموشی سے کھڑی رہی۔وہ کچھ بھی نہیں بول پا رہی تھی۔چند ثانیے گزر گئے ۔سفید سی کریم نے پاکیزہ کے چہرے پر ہفت رنگ پھیلا دیئے۔
پاکیزہ کو لگا وہ کمرے سے نکل گیا ہوگا۔اس نے آہستگی سے آنکھیں کھولی۔وہ وہیں تھا،ادھر ہی۔اس کے عین سامنے کھڑا اس کی پلکوں کے لرزنے تک کو توجہ سے دیکھ رہا تھا۔
’’ احمد کو کہا کرو تم سے دور کھڑے ہو کر بات کیا کرے۔‘‘ آفتاب نے بہت سخت سے انداز میں کہا۔اور باہر چلا گیا۔
آج صبح ہی احمد اس کے پاس کھڑا آج کے پروگرام کی تفصیلات ڈسکس کر رہا تھا۔پاکیزہ کو بھی اس کا اتنا پاس کھڑا ہونا عجیب لگالیکن وہ کچھ نہیں بولی۔اتنا وہ بھی جانتی تھی کہ دو نظریں خفگی سے اس منظر کو دیکھ رہی ہیں۔لیکن اس خفگی کا اظہار اس طرح سے ہو گا وہ بھی نہیں جانتی تھی۔
اس کی زندگی کے نسبتاََ بڑے دن میں وہ اپنے رنگوں کی چھاپ اس کی روح تک اتار گیا۔اپنی عدم اعتمادی کو ا س کے ہاتھوں کی لرزش میں بدل گیا۔پوری تقریب میں وہ اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے میں پھنسائے بیٹھی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سے جیسے تیسے جاناں نبھانا ہو گی مجھے
اشک میرے ازلوں کے ساتھی خواب میرے ماں جائے
اس کے اندر کا زور آہستہ آہستہ ختم ہونے لگا۔اس کے پاس اتنی ہمت نہیں بچی کہ وہ اپنے اندر کے ابال کو اپنے رقص سے باہر نکال سکے۔درد تھا کہ بہت تھا۔کتھارسس کا کوئی بھی ذریعہ اس کے غم کو ختم نہیں کر سکتا تھا۔اس کے گھٹنوں کو چھوتے لمبے سیاہ بال کھلے پڑے تھے۔ابھی کچھ دن پہلے تک ان کی چمک سے کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھااور آج ان کے اجاڑ پن سے حزن کی داستانیں لپٹی نظر آئیں۔
’’وہ میری زندگی میں آیا ہی کیوں تھا جب اس نے چلے جانا تھا۔وہ نہ آتا میں رہ لیتی۔میں اس کے بغیر جی لیتی۔اس کے ہونے نے مجھے اس کی عادت ڈالی۔ایسی عادت ڈالی کہ اب وہ مجھے میرے لہو میں گردش کرتا ملتا ہے۔اگر میں آنکھیں بند کر کے یہ تصور کروں کہ جیسے میرے آج کل دن کٹ رہے ہیں آئندہ زندگی بھی ایسے ہی اس کی بغیر گزرے گی تو واللہ میرے دل کی دھڑکن ہی رک جائے!
مجھے اس کے بغیر سانس ہی نہیں آسکتی۔بھلا ایسے بھی ہوتا ہے؟کوئی کسی کو یوں دھتکار سکتا ہے۔وہ ضرور کسی غصہ میں ہو گا۔اس کی اپنی کوئی پریشانی ہوگی ورنہ ایسی زبان اور وہ میرے سا تھ استعمال کرے۔وہ مجھے کہتا تھا کہ تمہارے جیسی کوئی ایک بھی نہیں تو وہ اس ایک کو دنیا کے لیے چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہے؟‘‘
وہ پھر رونے لگ گئی۔اس کے آنسو ٹوٹ کر چوکھٹ پہ جذب ہونے لگے۔اپنے کمرے کی دہلیز پہ بیٹھی وہ جوگن جوگن سی لگی۔
’’ کیا وہ نہیں جانتا کہ میں اس سے کتنا پیار کرتی ہوں۔کیا اسے اندازہ نہیں ہے کہ وہ ہر رات میرے ذہن میں آنے والی آخری سوچ ہے۔وہ میری ہر صبح کا پہلا خیال ہے۔وہ میرے لیے ریشم ہے ،اطلس ہے ،کمخواب ہے،ہیرا ہے۔وہ میرے لیے اس دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔مجھے اس دنیا سے کچھ بھی نہیں چاہیے ،مٹی کا ایک ذرہ بھی نہیںاور سانس لینے کو ہوا کا ایک جھونکا بھی نہیں۔مجھے وہ چاہیے۔صرف وہ چاہیے۔
وہ جب میرے قدم سے قدم ملا کر چلتا ہے تو ساری زندگی کے دکھ کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔میرے ساتھ خوشیاں رقص کرتی ہیں۔میں نہ چاہتے ہوئے خوشی سے سب دنیا کے دئیے دکھ سہتی رہتی ہوں۔اللہ جی! آپ تو اپنے بندوں کوخوش دیکھنا چاہتے ہیں ۔مجھے میری ہنسی کا سبب لوٹا دیں۔ میرے سارے غم ایک طرف اور وہ اکلوتی خوشی ایک طرف۔۔۔! اللہ جی مجھے وہ خوشی دے دیں جس سے مجھ میں جینے کا حوصلہ رہتا ہے۔اللہ جی! مجھ سے وہ نہ لیں باقی سب لے لیں۔اللہ جی !اگر مجھ سے اسی کو لینا ہے توپھر مجھے زندہ نہ رکھیں۔
میں کسی اور کو اس کے علاوہ تصور بھی نہیں کر سکتی۔اس کی آنکھیں میرے دماغ سے نہیں نکلتی۔میں اس کے ساتھ بھی کسی دوسری کا وجود برداشت نہیں کر سکتی۔اللہ جی جو ہوا اس کو چھو لیتی ہے میں تو اس ہوا سے بھی ناراض رہتی ہوں۔اگر وہ مجھ سے چھین کر کسی اور کو دے دیا گیا تو میری بد دعائیں،میری آہیں،ان کی زندگی کو لگ جائیں گی۔اللہ جی! اتنی زندگیاں نہ خراب کریں ناں۔میری زندگی آباد کر دیں۔مجھے میری زندگی دے دیں۔‘‘
اس نے اپنا ہاتھ پھیلا کر زمین پہ رکھ لیا وہ ہاتھ کو زمین پہ رگڑ رہی تھی تاکہ اس سے جدا ہونے کی لکیروں کو مٹا سکے۔زندگی کے وار نے اسے حیران کیا تھا۔وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ خود کلامی کرتی رہی۔
’’زندگی میں ہار جانا کسے کہتے ہیں ؟ کہانیوں ڈراموں میں لوگ بے ہوش ہو جاتے ہیں،عام زندگی میں تو حقیقت ہوش ایسے چھینتی ہے کہ انسان اپنی آنکھیں بھی موند نہیں سکتا۔وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے حقیقیت کو دیکھتا رہتا ہے۔
جس شخص کو خوبصورت لگنے کی دعائیں میں نے راتوں کو اٹھ اٹھ کر مانگی۔میں اس کے لئے اگر کچھ تھی تو وہ تھا ’’کچھ بھی نہیں ‘‘۔ساری الفتوں کا واحد مرکز میرے شانے پہ سر ٹکائے کسی اور کے خیالوں اسیر تھا اور میں پاگل یہ جان ہی نہ سکی۔میں اتنی معمولی ہوں کہ میری ذات کا کوئی بھی پہلو ،میرے جسم کا کوئی بھی عضو اسے میرے ساتھ باندھ کر نہیں رکھ سکا۔وہ میرے راستے میں آگیا ۔میرے مقصدِ حیات سے لپٹ گیا۔میں نے اسے ہی مقصدِ حیات بنا لیا۔وہ میری لئے زندگی بن بیٹھا اور میں کیا تھی اس کی عام سی زندگی کا معمولی سا معمول۔۔۔!
میں خود کو اس کی فطرت سمجھتی تھی لیکن میں تو اس کی عادت نکلی۔یہ جاننے کے باوجود کہ بے انتہا محبت پہاڑ کی اونچائی جیسی ہوتی ہے آپ واپس پلٹو یا مزید آگے جاؤ آپ کو نیچے اترنا ہی پڑتا ہے ۔ میں محبت کرتی رہی۔یہ بھی جانتے ہوئے کہ اپنا ہی ساتھی جب ہاتھ چھڑا لے تو یہ پہاڑ ایک لمحے کے اندر اندر خود ادھورے وجودوں کو سر پٹخنے کے لئے پستیوں میں دھکیل دیتا ہے۔میں اس بے وفا سے وفا کرتی رہی۔
اللہ جی !میں نے اس کو ابد تک مانگ رکھا تھا۔ایک انسان سے اتنی امیدیں اور خواہشیں لگانا کہاں کی دانشمندی ہے۔زندگی کے اس کھیل میںمیں اپنے نفس کے ہاتھوں ہار گئی۔میں اپنی غلطی مانتی ہوں۔اللہ جی !ایک واحد جگہ جہاں جیتنا میری اولین خواہش تھی میں سر کے بل گری ہوں۔دیکھیں ناں میری ذات کا اعتماد کچل دیا گیا ہے۔سارا کانچ میرے چہرے کو بدنما کر چکا ہے،سا را کیچڑ میری روح کو گدلا کر چکا ہے۔میں خوبصورت بنتی بنتی اتنی بد صورت اتنی بدبودار ہوگئی ہوں کہ نہ تو آئینہ دیکھ سکتی ہوں نہ خود کو سونگھ سکتی ہوں۔اللہ جی! مجھے ان میں شمار کر لے جن کی خطائیں بھلا کر تو ان کے لئے کن کہہ چکا۔اللہ جی !میرے لئے کن کہہ دے۔
اللہ جی آپ کہتے ہیں کہ بندہ میری طرف ایک قدم بڑھائے تو میںاس کی طرف سو قدم بڑھاتا ہوں۔اللہ جی میرے اٹھے ہوئے ہاتھ آپ کی بزرگی و برتری کوتسلیم کر رہے ہیں۔آپ کو اللہ جی !آپ کی بزرگی کا واسطہ مجھے وہ دے دیں۔میں آپ سے اور کچھ نہیں مانگوں گی۔کبھی نہیں مانگوں گی۔میں نے مانگا بھی تو آپ مجھے نہ دینا۔بس ایک وہ شخص تو دے دیں۔پلیز اللہ جی ! میں نے کوئی خواہش ایسے گڑ گڑا کرنہیں کی۔اللہ جی آپ تو کہتے ہیں کہ جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو مجھ سے مانگو۔اللہ جی آپ تو اتنی حقیر حقیر سی چیزیں اتنی ضروری ضروری سی چیزیں بغیر مانگے دے دیتے ہیں۔اللہ جی تیری یہ بندی حقیر ہے اور اور اس کے لیے وہ بندہ ضروری ہے،بہت ضروری۔مجھے میری ضروری چیز دے دیں۔مجھے میرے زندگی کے لیے ضروری انسان دے دیں۔اللہ جی میری ضرورت پوری کر دیں؎۔‘‘
وہ سجدے میں پڑی تھی۔اس کے آنسو تھم نہیں رہے تھے۔کچھ دکھ جیسے اندر موجود تمام آنسوئوں کے سامنے کی رکاوٹ کو دور کر دیتے ہیں۔ہمیں خود بھی معلوم نہیں ہوتا اور آنسو ہماری آنکھوں سے پھیل جاتے ہیں۔اور جب وہ گالوں پہ بہتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ ہم تو رو رہے ہیں۔اس کے آنسو بھی شتر نے مہار تھے۔بہے چلے جا رہے تھے۔
’’رد کیے جانے کا احساس میری جان لے رہا ہے۔میرے دل میں اتنی محبت تو نے کیوں ڈال دی اللہ جی۔اس محبت کا تھوڑا سا حصہ اس کے دل میں بھی ڈال دیتے تو میں اس اذیت سے گزر ہی جاتی۔ اس تکلیف کو میں جھیل ہی لیتی۔اس کے بغیر جیسی راتیںمیں نے گزاری ہیں۔میری جدائی کی ایسی ایک رات اس پہ بھی گزر جاتی۔میری محبت کا چھوٹا سا پودا اس کے دل میں بھی لگ جاتا تو میںیوں بے امان نہ ہوتی۔اللہ جی مجھے امان دے۔اللہ جی مجھے سکون دے۔‘‘
وہ رو رہی تھی اور ایک سکون تھا جو اسے نہیں مل رہا تھا۔اس نے اٹھ کر بستر پہ آنے کی کوشش کی۔وہ لڑکھڑائی بالآخر پہنچ ہی گئی۔وہ لیٹی اور اس کے آنسو یونہی بہتے رہے۔مسلسل بہتے رہے۔اس سے لیٹا بھی نہیں گیا۔وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔اس نے بیڈ کے پاس پڑے دراز میں ہاتھ مارا۔اس کے ہاتھ میں وہ آچکا تھا۔اس نے اپنے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے میں اسے تھام کر آنکھوں کے قریب کیا۔غور سے اسے دیکھا۔پھر اسی بلیڈ کو اپنی بائیں کلائی پہ سختی سے پھیر دیا۔ایسا کرتے وقت اسے آنکھیں بند کرنے کی ضرورت بھی پیش نہ آئی۔جتنا درد اس کی کلائی پہ محسوس ہو رہا تھا اس سے کہیں زیادہ ،بہت زیادہ اذیت اس کے اندر تھی۔خون نکل کر سفید کارپٹ میںجذب ہوتا رہا۔اور وہ یونہی لیٹ گئی۔اتنے سے خون کے بہہ جانے سے اسے موت بھی نہیں آنی تھی۔یہ وہ بھی جانتی تھی۔لیکن اس تکلیف سے اسے سکون مل رہا تھا۔بہت گہرا سکون۔
’’شاید اسی بہانے میرے لہو میں بہتا ہوا شخص میرے اندر سے نکل جائے۔اگر وہ نہیں نکلتاتو کم از کم اس کی یاد ہی نکل جائے۔کچھ تو نکلے میرے اندر سے ،تھوڑی سی ہی سہی۔میں خود بھی تو اپنے آپ کو میسر آئوں۔ذرا سی سہی میں اپنے آپ سے ملوں۔‘‘
وہ خود اذیتی اور بے بسی کے انتہا پہ تھی۔اس سے آگے اس کے لئے کیا تھا ؟ شاید کچھ بھی نہیں !
(جاری ہے)
[button color=”orange” size=”big” link=”http://” icon=”” target=”false”]مریم جہانگیر[/button]