100لفظوں کی کہانی (فرشتہ)
میری ماں کون تھی؟ باپ کون تھا؟
کچھ معلوم نہیں ۔۔۔۔
کُوڑے کے ڈھیر پہ اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔
جن کا گناہ تھا ، وہ کُوڑے میں کُوڑا کر گئے تھے۔
گلی سے بھونکتے ، بھاگتے کتوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔
خونخوار، آوارہ بلیاں غرا رہی تھیں۔
شاید انہیں میرے دم توڑتے ننھے وجود کی بدبو آ گئی تھی۔
اچانک دو ہاتھ بڑھے ۔
جان گیا کہ زندگی ختم ، معصوم ہوں،فرشتہ لینے آیا۔
لحاف کی گرمی ملی، سانسیں بحال ہوئیں،،،
ماتھے پہ بوسہ۔۔۔۔
آنکھیںکھولیں ، فرشتہ نہیں تھا۔۔۔
ایدھی کا مسکراتا چہرہ نظر آیا ۔ میری ماں بھی، میرا باپ بھی
سید شاہد عباس