قادیانی اور میڈیا وار
میرے ایک استاد ہیں جو ہمیشہ قادیانی طبقہ کو غیر مسلم قرار دینے کی مخالفت کرتے ہیں ، بقول ان کے کہ ریاست کو کوئی حق نہیں کسی کو کافر قرار دینے کا ( حالانکہ وہ بھول جاتے ہیں کہ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے کا فیصلہ جمہوری دور میں قرار پایا اور یہ کوئی یکطرفہ فیصلہ نہیں تھا بلکہ فریق مخالف کو اپنا موقف پیش کرنے کا مکمل حق دیا گیا جس کے ثبوت پارلیمنٹ کی دستاویزات میں محفوظ ہیں ) . جب کہ گزشتہ روز ایک نیم ملا و نیم لبرل و نیم سیاستدان و نیم اداکار حمزہ علی عباسی صاحب نے ایک دینی پروگرام کی میزبانی کرتے ہوئے ایسا ہی سوال کیا کہ آخر ریاست کو کیا حق پہنچتا ہے کسی کو غیر مسلم قرار دینے کا ؟
حمزہ عباسی تو کم علم انسان ہے پر میرے ” استاد” آپ کے پاس تو علم کی کوئی کمی نہیں ، کیا آپکو نہیں معلوم کہ وہ سچ بھی گناہ بن جاتا ہے جب اس سے فساد ہو ؟ ، تو پھر ایک ایسا قانون جس کی وجہ سے پاکستان کی اکثریت شانت بیٹھی ہوئی ہے وگر نہ نبوت کے دعوے کرنے والوں کے ساتھ تاریخ اسلام سے جو سلوک ہوتا آرہا ہے وہ آپ بہتر جانتے ہوں گے ، اگر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر الگ شناخت نہ دی جاتی تو آپکو کیا لگتا ہے چناب نگر نامی علاقے میں کوئی خود کو قادیانی کہنے والا ذی روح حیات ہوتا ؟
تو پھر ایسے سوال کیوں اٹھائے جارہے ہیں جس سے عام مسلمان کے دینی جذبات وابستہ ہیں اور وہ ختم رسالت کا ایمان وابستہ ہے جس پر ہم ماں باپ قربان کرنے کا سر عام اعلان کرتے ہیں . کیا ایسے سوالوں سے ایک طرف مسلمانوں کے جذبات بھڑکیں گے اور دوسری جانب قادیانیوں کی جان و مال بھی غیر محفوظ نہ ہوگی ؟
جب کہ دوسری جانب میرے استاد کو یہ بھی اعتراض کہ ایک مذہبی جامت حمزہ علی عباسی کے محض سوال کرنے پر عدالت کیوں جارہی ہے ؟
میرے محترم استاد اگر میں ان ممالک کا جو آپکی تحریروں اور سوچ سے آزادی اظہار کے علمبردار معلوم ہوتے ہیں ذرا ایک مختصر جائزہ پیش کرتا ہوں جس سے آپکو معلوم ہوگا کہ ” جمہوریت جہاں سے طلوع ہوئی ” وہ اپنے کچھ قوانین بلکہ کچھ کیا محض یہویوں کی نسل کشی کے خلاف ہلکی سی بات کرنے پر کیسا رد عمل دیتے ہیں
1) ہولو کاسٹ کی محض حقیقت بیان کرنے پر فرانس کے شہری راجر گراوڈی کو ١٩٩٨ میں چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی.
2) ١٩٩٨ میں ہی یورگن گراف نامی شخص کو ہولو کاسٹ پر بات کرنے کے “جرم” میں پندرہ ماہ قید کی سزا ہوئی نتیجا اسے اپنے ملک سے فرار ہونا پڑا.
3) ١٩٩٨ میں ہی گرہارڈ فوسٹر نامی شخص کو سوئٹزر لینڈ میں ہی ایک سال قید کی سزا ہوئی.
4 ) ١٩٩٩ میں جین پلاٹن نامی شہری کو فرانس میں اسی جرم میں چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی.
5 ) ڈیوڈ ارونگ نامی شخص کو 2006 میں آسٹریا میں تین سال قید کی سزا ہوئی بعد ازاں تیرہ ماہ بعد اسے رہا کر کے ملک بدر کردیا گیا .. واضح رہے ” ملک بدر” کیا گیا.
6) ارنسٹ ینڈل نامی جرمن شخص کو اسی جرم میں ٢٠٠٧ میں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی.
7) یورگی ناگی نامی شخص کو ٢٠١٣ میں ہنگری کی عدالت نے اٹھارہ ماہ قید کی سزا سنائی.
8) جب کہ خواتین کے حقوق کی چیمپئن آپکی مغربی جمہوریت میں ایک ستاسی سالہ بوڑھی خاتون کو گزشتہ سال جرمنی میں دس ماہ قید کی سزا ہوئی وہ بھی محض یہ سوال اٹھانے پر کہ کیا واقعی یہودیوں کی نسل کشی ہوئی تھی؟
یہ لسٹ تو بہت لمبی ہے فی الحال اسی پر گزارہ کیجئے
پر پتہ ہے استاد وہاں کوئی کیوں کچھ نہ بولا ؟
وہاں اسلئے کوئی کچھ نہ بولا کہ ریاست کو ماں جیسی کہا جاتا ہے اور جب ماں جب ایک بات پر ٹوک دے اور غصہ کر جاۓ اور بات کرنے سے منع کردے تو ” فرماں بردار ” اولاد کا یہ فرض بنتا ہے کہ ماں کی ماں بننے کی کوشش نہ کرے اور اس کے فیصلے میں چھپی حکمت کو سمجھے.
فقط
آپکا شاگرد