100لفظوں کی کہانی (نمائش)
راشن بیگ بھی پہنچ چکے تھے۔
تمام “دعوتی اشرافیہ” بھی ٹھنڈے ٹینٹ کے اندر ،
نرم کرسیوں پر براجمان تھے۔
راشن لینے والے ضرورت مند بھی باہر”تپتی دھوپ” میں گھٹنوں کے بل انتظار میں تھے۔
حاجی صاحب کبھی اِدھر جاتے ، کبھی اُدھر،
غصہ اور پریشانی چہرے سے عیاں تھی۔
نرم کرسی سے اُٹھ کر مصنوعی گرمی کا تاثر دیتے ہوئے،
لاٹ صاحب نے دریافت کیا کہ ،
کس کا انتظار ہے۔
ؑمغلظات ارشاد فرماتے ہوئے بس اتنا کہا۔۔۔
کم بخت “فوٹو گرافر” ابھی تک نہیں آیا۔
سید شاہد عباس