یعقوب تصور خطا گہ آسماں سے اترا، گناہ گاہِ زمین م…
یعقوب تصور
خطا گہ آسماں سے اترا، گناہ گاہِ زمین میں ہوں
اور اسکے با وصف مغفرت کے تصور پر یقین میں ہوں
افق کے اس پار دیکھ لینا نہیں ہے مشکل مجھے
کہ مثلِ بصیرتِ عدسۂ محدب، بصارتِ دور بین میں ہوں
اگر یہ سچ ہے کہ جزو آدم ہے نور مبدائے آفرینش
شعاعِ شمسِ جلال ہوں میں، جمالِ ماہِ مبین میں ہوں
میں اس لئے منفرد ہوں شائد، عمل میں تقویم کے ہوں احسن
وگرنہ ہوں واقفِ حقیقت کہ میں نہ تیرہ نہ تین میں ہوں
اگر ہوا ہوں میں سم گزیدہ، کسی کو الزام دوں تو کیسے
میں اپنا ہی خون پی رہا ھوں، میں اپنی ہی آستین میں ہوں
رواں دواں ہے یہ کاروبار جہاں میری ہی شمولیت سے
وہ جس سے مشروط ہے تحرک، میں ایسا پرزہ مشین میں ہوں
نبی و آلِ نبی کی نہج معینہ پہ ہوں گامزن بس
مجھےنہ فرقوں میں بانٹ واعظ، نہ سین میں ہوں نہ شین میں ہوں
میں تیری آنکھوں کو چومتا ہوں، لبوں سے رخسار سے رہوں مس
یوں جان لے مثلِ تارِ ریشم، تری نقابِ مہین میں ہوں
کلام میرا حقیقتاً ہے تصدقِ ربِ زدنی علما
کہاں میں اقلیمِ شاعری کے معلمینِ ذہین میں ہوں
سخن شناسی، یہ شعر فہمی، فنِ پزیرائی داد و تحسیں
دلا رہی ہے یقیں تصور، ذہین تر سامعین میں ہوں