چھیڑتے ہیں گدگداتے ہیں پھر ارماں آج کل جھوٹے سچّے…
چھیڑتے ہیں گدگداتے ہیں پھر ارماں آج کل
جھوٹے سچّے کوئی کر لے عہد و پیماں آج کل
گھونٹ لے میرا گلا، کچھ زور اگر اُس کا چلے
ہاتھ سے میرے ہی تنگ اِتنا گریباں آج کل
چڑھ گئے دیوارِ زنداں پر کبھی، اُترے کبھی
ہم بنے ہیں سایۂ دیوارِ زنداں آج کل
روز راتوں کو سنا کرتا ہوں یہ آوازِ قیس
"پھاڑے کھاتا ہے مجھے خالی بیاباں آج کل"
اے عروسِ تیغ تجھ کو کچھ حیا بھی چاہئے
کیوں گلے پڑتی ہے تُو ہو ہو کے عریاں آج کل؟
سنگدل کافر کا شاید ٹوٹتے دیکھا ہے دل
ٹوٹ کر ملتے ہیں مجھ سے اُس کے درباں آج کل
آ گیا ایسا ہی اب کافر زمانہ، کیا کریں
دابے پھرتے ہیں بغل میں لوگ ایماں آج کل
رات دن ہے میری تربت پر حسینوں کا ہجوم
دیکھنے کی چیز ہے گورِ غریباں آج کل
دن کو روزہ، عید شب کو، ہے عجب شغلِ ریاضؔ
رات بھر پیتا ہے یہ مردِ مسلماں آج کل
(ریاضؔ خیرآبادی)
المرسل :-: ابوالحسن علی ندوی