لہو کا رنگ ایک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک طاقتور…
لہو کا رنگ ایک ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک طاقتور تکبر سے بھرے گُھٹنے تلے
چیختا، فریاد کرتا، بلبلاتا ایک سر
جس کے گِردا گِرد پھرتے
بے حس و سفّاک آنکھوں سے یہ منظر دیکھتے
آدمی کا رُوپ دھارے، جانور
امن اور قانون کے ضامن وہ پتھر کے خُدا
اپنی رنگت کی فضیلت کے نشّے میں مبتلا
سب وہ قاتل بھیڑئیے
کھردری کالی سڑک پہ بین کرتا
رات جیسی کھال کا اِک آدمی
مانگتا تھا بھیک کے انداز میں
سانس لینے کا وہ حقِ دائمی
جس میں رنگ و نسل کی تفریق ہو سکتی نہیں
اس کی چیخوں اور کراہوں کا مگر کوئی اثر
اُن کے نخوت سے بھرے کانوں تلک آتا نہ تھا
اُس کی آنکھوں کی چمک بجھتی گئی
پھر بھی وہ گھٹنا وہیں ٹھہرا رہا
موت سارے راستے دھندلا گئی
کالی چمڑی کو سفیدی کھا گئی
اُس تعصب سے بھرے گُھٹنے تلے
بے حس و حرکت پڑے اس ایک سر کی خامشی
کس طرح سڑکوں پہ آنکھوں اور سینوں میں ہوئی ہے لب کُشا
ظالموں نے یہ کبھی سوچا نہ تھا
آج دنیا بھر میں مل کر چیختی خلقِ خُدا
کر رہی ہے پھر سے اُس بھولے سبق کی ابتدا
جو کبھی گونجا تھا جلتے دشت کی پہنائی میں
"کوئی گورا ہو کہ کالا
فرق ان میں کچھ نہیں ہے رنگ کی بنیاد پر
ایک ہی آدم کی ہیں اولاد سب
ساری مخلوقات کا ہے ایک ربّ"
کیسے اِس پیغامِ عالی شان کی یادِ عزیز
مرتی آنکھیں زندگی سے بھر گئی!
کس طرح اِک آن میں لاکھوں چراغ
بجھ کے اِک آواز، روشن کر گئی!!
امجد اسلام امجد
اِنتِخاب
سفیدپوش