صدف کو خوبئ قسمت سے تُو جو مِل جاتی صدف کے سِینۂ…
صدف کو خوبئ قسمت سے تُو جو مِل جاتی
صدف کے سِینۂ روشن میں اِک گُہر ہوتی
تِرا نزُول جو ہوتا سوادِ گُلشن میں
نہالِ فصلِ بہاراں کا اِک ثمر ہوتی
اگر ہواؤں کے آغوش میں جگہ پاتی
تو رقصِ شُعلہ و بیباکئ شَرَر ہوتی
زمیں پہ ٹُوٹ کے گرتی نہ آسماں سے اگر
ندیم چاند کی، تاروں کی ہم سفر ہوتی
اندھیری شب کو میسّر نہیں جمال تِرا
نہیں تو، رات سحر سے حسین تر ہوتی
جو بحر پر تِرے آنچل کی چھاؤں پڑ جاتی
تو موجِ بحر کے شانوں پہ، زُلفِ تر ہوتی
حیات نے، تُجھے عورت کا مرتبہ بخشا
نہیں تو شمعِ اُفق، مشعلِ سحر ہوتی
(علی سردار جعفری)
المرسل: فیصل خورشید