تم رک کے نہیں ملتے ہم جھک کے نہیں ملتے معلوم یہ ہ…
تم رک کے نہیں ملتے ہم جھک کے نہیں ملتے
معلوم یہ ہوتا ہے کچھ تم بھی ہو کچھ ہم بھی
شمیم کرہانی کی پیدائش
Jun 08, 1913
شمیمؔ کرھانی گاؤں کرھان ضلع مئو (یو-پی) کے ایک زمیندار گھرانے میں 08 جون 1913ء کو پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام سید شمس الدین حیدر اور تخلص شمیم کرھانی تھا۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد دیانند اینگلو ورڈیک سکول سسٹم اور اینگلو عربی سکول نیو دہلی میں بطور معلم تعینات رہے۔ وہ فارسی زبان کے عالم تھے، لیکن شاعری اردو زبان میں ہی کی۔آٹھ برس کی عمر سے آپ نے شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ تحریکِ آزادی ہندوستان کے لیے انہوں نے بیشمار نظمیں اور ترانے لکھے۔ ان کی ایک نظم '' جاگو نا باپو کو نیند آ گئی ہے'' بہت مشہور ہے۔
آپ نے 19 مارچ 1975ء کو نیو دہلی میں وفات پائی۔
منتخب کلام
نکل پڑے ہیں صنم رات کے شوالے سے
کچھ آج غریباں میں ہیں اجالے سے
چلو پلٹ بھی چلیں اپنے مے کدہ کی طرف
یہ آ گۓ کس اندھیرے میں ہم اجالے سے
خدا کرے کہ بکھر جائیں میرے شانوں پر
سنور رہے ہیں یہ بادل جو کالے کالے سے
بتوں کی خلوت رنگیں میں بزم انجم میں
کہاں کہاں نہ گۓ ہم ترے حوالے سے
جنوں کی وادئ آزاد میں طلب کرو
نکال لو ہمیں شام و سحر کے ہالے سے
حیات عصر مجھے پھیر دے مرا ماضی
حسین تھا وہ اندھیرا ترے اجالے سے
کوئی مناۓ تو کیسے مناۓ دل کو شمیمؔ
یہ بات پوچھیۓ اک روٹھ جانے والے سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دل بھی جلاتے ہیں رکھ دیتے ہیں مرہم بھی
کیا طرف طبیعت ہے شعلہ بھی ہیں شبنم بھی
خاموش نہ تھا دل بھی خوابیدہ نہ تھے ہم بھی
تنہا تو نہیں گزرا تنہائی کا عالم بھی
چھلکا ہے کہیں شیشہ ڈھلکا ہے کہیں آنسو
گلشن کی ہواؤں میں نغمہ بھی ہے ماتم بھی
ہر دل کو لبھاتا ہے غم تری محبت کا
تیری ہی طرح ظالم دل کش ہے ترا غم بھی
انکار محبت کو توہین سمجھتے ہیں
اظہار محبت پر ہو جاتے ہیں برہم بھی
تم رک کے نہیں ملتے ہم جھک کے نہیں ملتے
معلوم یہ ہوتا ہے کچھ تم بھی ہو کچھ ہم بھی
پائی نہ شمیمؔ اپنے ساقی کی نظر یکساں
ہر آن بدلتا ہے مے خانے کا موسم بھی