ایک زمین تین شاعر … پہلا سہرا مرزا نوشہ خوش ہ…
ایک زمین تین شاعر
…
پہلا سہرا مرزا نوشہ
خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
باندھ شہزادے جواں بخت کے سرپر سہرا
کیا ہی اس چاند مکھڑے پہ بھلا لگتا ہے
ہے ترے حسن دل افروز کا زیور سہرا
سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرف کلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے ترا نمبر سہرا
سات دریا کے فراہم کیے ہوں گے موتی
تب بنا ہوگا اس انداز کا گز بھر سہرا
رخ پہ دولہا کے جو گرمی سے پسینہ ٹپکا
ہے رگ ابر گہر بار سراسر سہرا
یہ بھی اک بے ادبی تھی کہ قبا سے بڑھ جائے
رہ گیا آن کے دامن کے برابر سہرا
جی میں اترائیں نہ موتی کہ ہمیں ہے اک چیز
چاہئے پھولوں کا بھی ایک مقرر سہرا
جبکہ اپنے میں سماویں نہ خوشی کے مارے
گوندھے پھولوں کا بھلا پھر کوئی کیونکر سہرا
رخ روشن کی دمک گوہر غلطاں کی چمک
کیوں نہ دکھلائے فروغ مہ واختر سہرا
تار ریشم کا نہیں ہے یہ رگ ابر بہار
لائے گا تاب گرانباری گوہر سہرا
*ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں
دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا
……
استاد ابراھیم ذوق
اے جوان بخت مبارک تجھے سر پر سہرا
آج ہے یمن وسعادت کا ترے سر سہرا
وہ کہے صلی علی یہ کہے سبحان اللہ
دیکھیں مکھڑے پہ جو تیرے مہ و اختر سہرا
سر پہ طرہ ہے مزین تو گلے میں بد ہی
کہنگنا ہاتھ میں زیبا ہے تو سر پر سہرا
آج وہ دن ہے کہ لائے در انجم سے فلک
کشتی زر مین مہ نو کی لگا کر سہرا
روئے فرخ پہ جو ہیں تیرے برستے انوار
تار بارش سے بنا ایک سراسر۔ سہرا
پھرتی خوشبو ہے اترائی ہوئی باد بہار
اللہ اللہ رے پھولوں کا معطر سہرا
دھوم ہے گلشن آفاق میں اس سہرے کی
گاویں مرغان نوا مسنج نہ کیونکر سہرا
*جس کو دعوی ہو سخن کا یہ سنادے اس کو
دیکھ اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا *
در خوش آب مضامین سے بنا کر لایا
واسطے تیرے ترا ذوق ثناگر سہرا
……
اکبر الہ آبادی
کس قدر جوش مسرت میں ہے سر پر سہرا
خود ہے خوشبو کی طرح جامہ سے باہر سہرا
مصر خوبی کا تو نوشاہ ہے مثل یوسف
سایہ لطف خدا ہے ترے سر پر سہرا
عارض وخال کا تیرے ہی اسے قرب نصیب
کس طرح سے نہ ہو رشک مہ و اختر سہرا
آج ہر گل کی تمنا ہے یہی گلشن میں
کہ ترے فرق مبارک پہ ہو آکر سہرا
بے سبب تو نے سنبھالا نہیں ہاتھوں سے اسے
غش ہے عارض کی صفائی پہ مقرر سہرا
نگہت گیسوئے مشکیں نے دکھایا جو اثر
ہوگیا اور بھی خوشبو سے معطر سہرا
روز روشن کا گماں کیوں شب عشرت پہ نہ ہو
عکس رخسار سے ہے مہر منور سہرا
گلشن حسن میں اللہ رے رسائی اس کی
ہو گیا سنبل گیسو کے برابر سہرا
زینت حسن خداداد جو شادی سے ہوئی
بن گیا چہرہ پرنور کا زیور سہرا
جلوہ حسن کے نظارے کی لاتا نہیں تاب
اس لیے چہرے سے ہٹ جاتا ہے اکثر سہرا
یہ طراوت عرق رخ کی نہیں ہے اس میں
اب آئینہ خورشید میں ہے تر سہرا
کہ دیا ہم نے یہ اک دوست کی فرمائش سے
ورنہ واقف بھی نہیں کہتے ہیں کیونکر سہرا