( غیر مطبوعہ ) بند ہونے کو بہت جلد ہے بابِ ہستی …
( غیر مطبوعہ )
بند ہونے کو بہت جلد ہے بابِ ہستی
اب تو پژمردہ سا لگتا ہے گلابِ ہستی
یورش ِضعف سے لرزاں ہے نفَس کا خیمہ
ٹوٹ جائے نہ یہ طوفاں میں طنابِ ہستی
کیا پتا تھا کہ وہ اک آن میں لے جائے گا
قرض کے طور جو لایا تھا حبابِ ہستی
کھول دے غرفـہ ِماضی کے دریچے مجھ میں
چھیڑ ایسا بھی کوئیراگ، ربابِ ہستی
حدّ ِ امکاں سے خودی جوں ہی گزر جاتی ہے
اٹھنے لگتا ہے بہ ہر طور حجابِ ہستی
ٹھوکریں کھاتا رہا قیس بھی صحرا صحرا
کھینچ لا تی ہے کہاں پر یہ سرابِ ہستی
منفعت پر ہی یقیں ہے' نہ خسارے کا گماں
پی کے مدہوش ہیں کچھ لوگ شرابِ ہستی
گھر کے آیا تو کئی بار تھا لیکن' شعلہ ؔ !
کھل کے برسا نہ کبھی مجھ پہ سحابِ ہستی
( فیـض احـمد شـعـلـہ ؔ)
— with Faiz Ahmad Shola.