نگاہ ساقیٔ نامہرباں یہ کیا جانے ک…
نگاہ ساقیٔ نامہرباں یہ کیا جانے
کہ ٹُوٹ جاتے ہیں خُود دِل کے ساتھ پیمانے
مِلی جب اُن سے نظر بس رہا تھا ایک جہاں
ہٹی نگاہ تو چاروں طرف تھے ویرانے
حیات لغزشِ پیہم کا نام ہے ساقی
لبوں سے جام لگا بھی سکوں خُدا جانے
تبسموں نے نکھارا ہے کُچھ تو ساقی کے
کُچھ اہلِ غم کے سنوارے ہوئے ہیں مے خانے
یہ آگ اور نہیں دِل کی آگ ہے ناداں
چراغ ہو کہ نہ ہو جل بُجھیں گے پروانے
فریب ساقئ محفل نہ پوچھئے مجروحؔ
شراب ایک ہے بدلے ہوئے ہیں پیمانے
مجروحؔ سلطانپوری
المرسل: فیصل خورشید