اختر حسین جعفری کا یومِ وفات June 03, 1992 اردو …
اختر حسین جعفری کا یومِ وفات
June 03, 1992
اردو کی جدید نظم کے ممتاز شاعر اختر حسین جعفری 15 اگست 1932ء کو موضع بی بی پنڈوری ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے کے نام شامل ہیں۔ وہ اردو کے جدید نظم نگاروں میں ایک اہم مقام کے حامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں 2002ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا اس کے علاوہ انہوں نے اپنی تصنیف آئینہ خانہ پر آدم جی ادبی انعام بھی حاصل کیا تھا۔ 3 جون 1992ء کو اختر حسین جعفری لاہور میں وفات پاگئے اور شادمان کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
اختر حسین جعفری حسینی قافلے سے متعلق ہیں‘ یہ ہی وجہ کہ ان کے محاورہ‘ اور تکیہءکلام میں حریت کے عناصر نظر آتے ہیں۔ ان کے چند ایک محاورے‘ جو نظم ۔۔۔۔آئینہ خانہ۔۔۔۔۔ سے لیے گیے ہیں‘ ملاحظہ ہوں۔
.
حرف جگانا جگائیں حرف کو خواب سفر سے اور پوچھیں
خشت اٹھانا اٹھائیں فرش سماعت سے لفظ لفظ کی خشت
خود اپنے آپ سرکتی فصیل ذات کی خشت خشت سرکنا
خوشبو کشید کرنا وہ روشنائی‘ وہ خوش بوئے غم کشید کریں
راکھ سجنا سجی ہے کون سی نوک مژہ پہ ابر کی راکھ
رحم کے سکے گرنا گریں گے رحم کے سکے کب ان حجابوں پر
سمندر چھاننا صدا کے خشک سمندر کو چھان کر دیکھیں
خود اپنے آپ قدم چھوڑتی زمین فرار قدم چھوڑنا
قدم نہ کھینچ کہ اس راہ پر ہمارے سوا قدم کھیچنا
بدن کی لوح پر اتری تو سطر سطر ہوئی لوح پر اترنا
مکان جاگنا مکین سونے لگیں تو مکان جاگتے ہیں
…….
چند اشعار
دل جہاں بات کرے دل ہی جہاں بات سنے
کار دشوار ہے اس طرز میں کہنا اچھا
………
شاخ تنہائی سے پھر نکلی بہار فصل ذات
اپنی صورت پر ہوئے ہم پھر بحال اس کے لیے
………
تپش گلزار تک پہنچی لہو دیوار تک آیا
چراغ خود کلامی کا دھواں بازار تک آیا