خود غرضی کی انتہا
دل کی بات۔۔۔ڈاکٹر عمرانہ مشتاق
کتنا اچھا ہوتا اگر ہمارے نمائیندگان سینیٹ اور قومی اسمبلی تنخواہوں اور پنشن کے اضافے کے حوالے سے اپنی تحریک کی منظوری کی بجائے سرکاری ملازمین کو اہمیت دیتے، ان کے لئے سو فیصد اضافے کی تحریک منظور کرواتے اور اپنے لئے دو فیصد اضافے کی بات کرتے۔ اگر ایسا کرتے تو پورے پاکستان میں مسرت و شادمانی کی لہر دوڑ جاتی اور عوام میں یہ تاثر پیدا ہوتا کہ ہمارے نمائیندگان حقیقی عوامی نمائیندے ہیں۔ وہ اپنی ذات سے پہلے قوم کی خوشحالی کے لئے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لا رہے ہیں۔ مگر یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ یہ نمائیندگان عوامی نہیں ہیںبلکہ اپنی ذات کے خول میں ہی بند ہیں۔ شکم پروری کے لئے ان کے دل میں جو خواہشیں کروٹیں لے رہی ہیں، وہ صرف اپنی ذات کے لئے ہی ہیں۔ اور اندر کے اس شور میں وہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے حقوق کو دبا رہے ہیں۔ کاش کہ ایک بھی نمائیندہ ایسا ہوتا جو اپنی ذات کی بجائے عوام کی بات کرتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چئیرمین سینیٹ کے ریمارکس قابلِ قدر ہیں کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے مگر سینیٹ کے تمام ممبران کی متفقہ رائے اور خواہش کے سامنے وہ بھی کچھ نہ کر سکے۔ روزانہ کنواں کھود کر پانی پینے والوں کے دلوں میں شگاف ڈال دیئے گئےہیں اور نمائیندگان نے خود ہی اپنے حلقے کے عوام سے فاصلے پیدا کر لئے ہیں۔اب وہ عالی شان مراعات کے ساتھ اپنے حلقہ نیابت میں کس طرح جائیں گے۔سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کے لئے جو کمیٹیاں بنائی گئی ہیں وہ انتہائی سست رفتاری سےسارا سال کام کرتی ہیںاور پھر جب ان کی کارکردگی بجٹ میں ظاہر ہوتی ہے تو سوائے الفاظ کے گورکھ دھندے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی۔ اونٹ کے منہ میں زیرہ کی شرح سے تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ستم ضریفی دیکھئے کہ حزبِ مخالف کے اراکین جو کچھ عرصہ پہلے آپس میں دست و گریباں تھے، تنقید کے گولے اور غیر پارلیمانی الفاظ کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا تھامگر جب ان کی تنخواہوں کی تحریک سامنے آئی تو سب شیر و شکر ہو گئے۔اپنے ذاتی مفاد پہ بھائی چارے کی فضا پیدا کرنے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے تھا کہ اب وہ اپنے اپنے حلقوں سے عوام کو کس طرح تسلی دیں گے جو بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ان کے لئے ادویات خریدنا محال ہوا ہوا ہے۔ خود کشیاں ہو رہی ہیں، بچے بیچے جا رہے ہیںمگر ہمارے نمائیندگان کو شرم نہیں آتی۔کاش وہ ایثاروقربانی کی کوئی مثال پیش کر دیتے۔
آج سے ربعہ صدی پہلے کی روایت تھی کہ اچھے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ممبرانِ قومی اسمبلی اپنے حلقوں میں اپنی جیب سے اخراجات کرتے اور سائلین کی ضروریات کا بھی خیال رکھتےتھے۔ اب خیال رکھنا تو درکنار، وہ تو اپنے حلقے کے لوگوں کو ملتے ہی نہیں اور نہ ہی ان کو ان سے کوئی سروکار ہے۔وہ علاج کے لئے غیر ممالک کے دوروں پر اور اسمبلی کے اجلاسوں میں خراٹے لیتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اراکینِ اسمبلی کو اپنی ذات بہت عزیز ہے۔مگر جن کی رائے سے وہ منتخب ہوئے ہیں ان کی ذات سے ان کو کوئی سر و کار نہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کو فوقیت دی جاتی۔مگرشاید ہمارے رہنما تو خود غرضی کے ایسے خول میں تشریف فرما ہیں کہ جہاں انھیں صرف عیش اور کیش ہی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ کتنے معصوم انہی کی طرح کے حسین خواب آنکھوں میں سجائے فٹ پاتھ پر سوتے ہیں۔کاش ہمارے اراکین کو معلوم ہو تا کہ ان کے حلقے میں کتنی بچیاں اپنے ہاتھوں میں مہندی کے لئے ترس رہی ہیں اور ان کی شادیوں کے لئےرقوم میسر نہیں ہیں۔
پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے آج بھی ایسے پاسبان موجود ہیں جو اپنی جیب سے اخراجات کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔کرپشن میں ملوث اور پانامہ لیکس میں آف شور کمپنیوں کے مالکان کی خواہشات کو کون لگام دے گا۔ان سے درخواست ہے کہ خدارا اب ملک پر رحم کریں اور اس قوم کو مزید بے سر و سامان نہ کریں۔ بلکہ غریبوں کے ٹیکسوں پر عیاشی کرنے کے بجائے ملک و ملت کی خدمت کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ابھی تو عوامی نمائیندوں میں سے ایک بھی نمائیندہ ہمیں نظر نہیں آتا جو پاکستان کو سچا وفادار ہواور اعلان کرے کہ میری ساری تنخواہ اور مراعات میرے حلقے کے بے سرو ساماں لوگوں کی کفالت کے لئے ہے۔اور اپنے حلقے میں بے شک چند بے روزگاروں کو خود روزگاری، خود کفالت اور خود انحصاری کے مواقع فراہم کرے۔اسے سے خوشحال معاشرے کی تشکیل ہو گی۔شکم پروری موت کا سامان ہے جبکہ ہمارے زندہ رہنے کی غذا روحانی مسرتوں کے حصول میں ہے۔
[ads2]