( غیـر مطبـوعـہ ) وہی صحرا سا بہت اور ذرا سا دریا…
( غیـر مطبـوعـہ )
وہی صحرا سا بہت اور ذرا سا دریا
مجھ کو لگتا ہے ترا نام سنا سا دریا
سب پہنچتے ہیں فقط پیاس بجھانے اپنی
کوئی دیکھے بھی تو کیسے کہ ہے پیاسا دریا
تیری آنکھیں ہیں سمُندر یہ بتایا جب سے
تب سے آتا ہے نظر مجھ سے خفا سا دریا
تشنہ کاموں کی بڑی بھیڑ لگی ہے، دیکھو
جو بھی آئے اسے دیتا ہے دلاسا دریا
خشک لب اپنے بھلا اس کو دکھاتا کیسے
نظر آیا تھا لئے ہاتھ میں کاسہ ' دریا
تیرتے تیرتے میں آج بھی تازہ دم ہوں
بہتے بہتے نظر آتا ہے تھکا سا دریا
میرے لب پر ہے پہ وہی پیاس پرانی اب تک
میرے آگے ہے رواں ایک نیا سا دریا
بولو کیا لوگے؟ اِدھر چھوٹا سمُندر ہے کماؔل !
ہے اُدھر رکّھا ہوا ایک بڑا سا دریا
( احــمد کمــالؔ حَشــمـی )
— with Ahmad Kamal Hashami.