جوشؔ ملیح آبادی جشنِ ماضی کے شبستاں کی گَمک آج …
جوشؔ ملیح آبادی
جشنِ ماضی کے شبستاں کی گَمک آج بھی ہے
سر پہ ڈوبے ہُوئے تاروں کی دَمک آج بھی ہے
جو اُمنگوں کو ہنکاتی ہے، کِھلونوں کی طرف
میری پِیری میں وہ طِفلانہ لَلک، آج بھی ہے
جِن کو پُھوٹے ہوئے جُگ بِیت چُکا ہے یارو!
اُن غمِ ہجر کے چھالوں میں تَپک آج بھی ہے
تَن میں، برسی ہُوئی راتوں کی نمی ہے، اب تک
دِل میں نِکلی ہُوئی پھانسوں کی کھٹک، آج بھی ہے
شہر سے دُور، لَبِ نہر جو ٹپکی تھی کبھی
سر پہ، اُس شام کے کوَندے کی لپک آج بھی ہے
ماہ اَنگِیختہ قُلزُم کی تڑپ تھی جِن میں
اُن تَرنگوں کی، رگِ جاں میں ہُمک، آج بھی ہے
سانس پر ، بار ہے مرطُوب فَضا کا، پِھر بھی
دِل میں انفاسِ نِگاراں کی مَہک آج بھی ہے
جِس سے جھانکا تھا کسی شُعلہ بَدن کا گدراؤ
میری چُٹکی میں، وہ صدری کی مَسک ، آج بھی ہے
اب کہاں رقصِ نِگارانِ سَمن بر، پِھر بھی
کَمَرِ وقتِ گُرِیزاں میں لَچک آج بھی ہے
جِس سے تِھرکے تھے دَر و بام، لَوِیں جُھومی تھیں
زیرِ محراب، وہ پائل کی جَھنک آج بھی ہے
جو اِجازت نہیں دیتی تھی ہم آغوشی کی
دِل میں پَیوَست، کسی کی وہ جِھجک آج بھی ہے
جِس کے ہر لَوچ میں تلوار سی لہراتی تھی
میری نظروں میں، صَنم کی وہ لَٹک آج بھی ہے
کل، جو لچکی تھی ، کسی شوخ کی انگڑائی میں
اَوجِ تخیُّل پہ، وہ طُرفہ دَھنک، آج بھی ہے
جِن دَبے پاؤں سے، آتی تھی وہ، راتوں کو کبھی
دِل میں، اُن پاؤں کی، سہمی سی دَھمک، آج بھی ہے
چُوڑِیوں سے، جو نِکلتی تھی ، نِرَت میں، اے جوشؔ!
گُنبدِ عُمرِ رَواں میں، وہ کھنک آج بھی ہے
جوشؔ ملیح آبادی