اک غزل اُس پہ لکھوں دل کا تقاضا ہے بہت اِن دنوں خ…
اک غزل اُس پہ لکھوں دل کا تقاضا ہے بہت
اِن دنوں خود سے بچھڑ جانے کا دھڑکا ہے بہت
رات ہو دن ہو غفلت ہو کہ بیداری ہو
اُس کو دیکھا تو نہیں ہے اُسے سوچا ہے بہت
تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا یعنی
کبھی دریا نہیں کافی ، کبھی قطرہ ہے بہت
میرے ہاتھوں کی لکیروں کے اضافے ہیں گواہ
میں نے پتھر کی طرح خود کو تراشا ہے بہت
کوئی آیا ہے ضرور اور یہاں ٹھہرا بھی ہے
گھر کی دہلیز پہ اے نور اُجالا ہے بہت
( کرشن بہاری نور )
These days have a beats to get rid of myself.
The night is the day, be negligence that you are awakening
I didn't see her, she thought she is very much.
There are places of thirst, what means
Sometimes the river is not enough, sometimes a drop is very much
The lines of my hands are increased witnesses
I carved myself like a stone so much
Someone has come and is still here.
On the threshold of the house, there is a lot of light
(Krishan Bihari Noor)