جلا وہ شمع کہ آندھی جسے بجھا نہ سکے وہ نقش بن کہ…
جلا وہ شمع کہ آندھی جسے بجھا نہ سکے
وہ نقش بن کہ زمانہ جسے مٹا نہ سکے
….
شفیقؔ جونپوری کا یومِ ولادت
May 26, 1903
*شفیقؔ جونپوری (اصل نام ولی الدین) ٢٦؍مئی؍١٩٠٣ء* کو پیدا ہوئے۔ تعلیم حاصل کرنے کا زیادہ موقع نہیں ملا۔ چھوٹی سی عمر میں ہی روزگار کے مسائل میں پھنس گئے لیکن شاعری کا شوق روز بروز بڑھتا گیا۔ *حفیظؔ جونپوری ، نوحؔ ناروی اور حسرتؔ موہانی* سے کلام پر اصلاح لی۔ *شفیق* کے شعری مجموعے :
*تجلیات ، بانگِ جرس ، حرمتِ عشق ، شفق ، طوبی ، سفینہ ، فانوس ، خرمن ، شانہ ، نے* ۔ *شفیقؔ* نے دو سفرنامے بھی لکھے ۔ *’حجاز نامہ‘ اور ’خاتم‘* ۔ یہ دونوں سفرنامے اپنے خوبصورت اسلوب کی بنا پر بہت دلچسپی کے ساتھ پڑھے گئے۔
*شفیقؔ جونپوری* اردو کے ان شاعروں میں سے ہیں جن کی شاعری کا رشتہ اپنے عہد کے سیاسی ، سماجی اور تہذیبی مسائل سے بہت گہرا اور بہت تخلیقی رہا ہے۔ نظموں کے علاوہ ان کی غزلوں میں بھی یہ عصری حسیت مخلتف انداز میں نظر آتی ہے۔ انہوں نے غزل کی کلاسیکی لفظیات کو نئے معنیاتی نظام سے ہم آہنگ کرنے کی شاندار کوشش کی ہے۔ اپنی انہیں خصوصیات کی وجہ سے شفیق اپنے وقت میں بہت مشہور اور مقبول ہوئے۔
شفیقؔ جونپوری کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار
فریب روشنی میں آنے والو میں نہ کہتا تھا
کہ بجلی آشیانے کی نگہباں ہو نہیں سکتی
—
*آ گیا تھا ایک دن لب پر جفاؤں کا گلا*
*آج تک جب ان سے ملتے ہیں تو شرماتے ہیں ہم*
—
عشق کی ابتدا تو جانتے ہیں
عشق کی انتہا نہیں معلوم
—
جلا وہ شمع کہ آندھی جسے بجھا نہ سکے
وہ نقش بن کہ زمانہ جسے مٹا نہ سکے
—
تجھے ہم دوپہر کی دھوپ میں دیکھیں گے اے غنچے
ابھی شبنم کے رونے پر ہنسی معلوم ہوتی ہے
—
کشتۂ ناز کی میت پہ نہ آنے والا
پھول دامن میں لیے سوئے مزار آ ہی گیا
—
کوئی خوشی خوشی نہیں اپنے لیے شفیقؔ
کس کی نگاہ نے سبق غم پڑھا دیا
—
عشق کی رسوائیاں وہ حسن کی بد نامیاں
ہم بھلا بیٹھے مگر دنیا میں چرچا رہ گیا
—
زندگی تجھ سے ہمیں اب کوئی شکوہ ہی نہیں
اب تو وہ حال ہے جینے کی تمنا ہی نہیں
—
یوں تصور میں بسر رات کیا کرتے تھے
لب نہ کھلتے تھے مگر بات کیا کرتے تھے
—
ان کے جلووں نے ہزاروں کو نوازا اے شفیقؔ
آہ اپنی بے زباں نظروں کو شکوا رہ گیا
—
اہل محفل ہوں گے کیا اہل بصیرت اے شفیقؔ
میر محفل ہی کو بے فکر و نظر پاتا ہوں میں
……
*انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*