امان النساء خان، ایک ملکہ، ایک بے مثل شاعرہ، شاہ م…
امان النساء خان، ایک ملکہ، ایک بے مثل شاعرہ، شاہ مقام کی قدیم لوک شاعری کو ایک دیوان میں مجتمع کرنے والی، گلوکارہ، ساز اختراع کرنے والی اور ان کے تار چھیڑ کر دھنیں مرتب کرنے والی ایک ملکہ جس کے حسن کے چرچے بیجنگ میں تخت نشین شہنشاہوں تک پہنچے تھے۔۔
صرف یارقند نہیں پورے سنکیانگ میں دہقان ہوں یا دانشور اس کے نام کی مالا جپتے ہیں، اس کے شعر پڑھتے ہیں، اپنے دکھ اور محبتیں امان النساء خان مے سپرد کرتے ہیں، وہ ہر ترکستانی گھر میں رہتی ہے۔۔ وہ اس کے شعری دیوان سے فال نکالتے ہیں جیسے ایرانی کلام حافظ سے رجوع کرتے ہیں۔۔۔
وہ ایک لکڑہارے کی بیٹی تھی جس نے جب کہ وہ شکار پر تھا، یارقند کے خان اعظم کو اپنے حسن کی شعاعوں سے مسخر کر لیا اور اس نے اسے اپنے حرم میں شامل کر لیا، ملکہ بنا دیا۔۔ امان النساء خان بھی " طاہرہ " کی مانند نوجوانی میں ہی، صرف تینتیس برس کی عمر میں مر گئی لیکن ان دونوں کی شاعری میں جذبے کے وہی عشق آتش ہے، نارسائی اور دکھ کی وہی آگ ہے کو ان کی ذات کے آتش فشاں سے بھڑکتی عرش پر دستک دے کر فرشتوں کے پر بھی راکھ کر دیتی ہے۔۔
امان النساء کہتی ہے۔۔۔
پہاڑ کی چوٹی سے میں نیچے اتر گئی، اس کے دامن میں گلاب کی ایک کلی کی مانند جھکتی گئی اور اے میرے محبوب تمہارے لئے دعا کرتی گئی۔۔۔
اے میرے محبوب، تمہرا چہرہ گلاب کی سرخ کلی ہے اور تمہاری محبت ایک ایسے نان کی مانند ہے جو تندور میں جھلس رہا ہے۔۔۔
باغ میں ایسا کوئی سرو نہیں جو تمہاری قامت کی ہمسری کر سکے اور کوئی گل ایسا نہیں جس کا رخ تم ایسا ہو۔۔۔
کوئی لعل یاقوت اتنا سرخ نہیں جتنے تمہارے ہونٹ اور کوئی آنکھیں ایسی نہیں جو کسی کو جلا کر راکھ کردیں۔۔۔
میری ستار کا ہر تار میرے بدن سے کھینچا گیا ہے اور میری روح شاہ مقام کے مقام تک آگئی ہے۔۔
میرے دل میں تمہاری محبت کی آمد ہے اور میں تمہارے سامنے بیٹھی ستار کی تاروں کو چھیڑتی ہوں۔۔۔
بلند پہاڑوں میں ایک روشنی ہے، اور وہ روشی نہیں ہے، میرے محبوب کا گھر ہے۔۔۔
••••••
حوالہ : لاہور سے یارقند
مصنف : مستنصر حسین تارڑ صاحب
انتخاب و ٹائپنگ : احمد بلال
بشکریہ
https://www.facebook.com/groups/1876886402541884/permalink/2694040024159847