شاعر یا کلام کی مقبولیت ، اُن کا کتنا معیار ہے؟
بعض شعراء کو مشاعروں میں خاصی داد ملتی ہے ۔ ان کا کلام معیاری بھی ہوتا ہے اور سطحی بھی ۔ اِسی بنا پر اُن کے ناقدین کہتے ہیں کہ مشاعروں کا کلام معیاری ہونے کی علامت نہیں ۔ ان کا کہناہے کہ معیاری شاعری کا تعین تب ہو گا جب وہ کاغذ پر لکھی ہو کر سامنے آئے گی ۔ اس کے برعکس مشاعرے کے مقبول شعراء ان ناقدین کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ تاثر پھیلانے میں ان شعراء کا عمل دخل زیادہ ہے جنہیں مشاعروں میں داد نہیں ملتی یا بہت کم داد ملتی ہے ۔انیسویں صدی تک یہ بات مشہور تھی کہ جس شاعر کا کلام طوائفوں اور گدا گروں کی زبانوں پر آ جائے ، سمجھو کہ وہ مقبول ہو گیا۔ بیسویں صدی میں (خصوصاً ا س کے آخری چھ سات عشروں میں ) شعراء کی مقبولیت میں گلوکاروں اور قوالوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ۔ ریڈیو، فلم ، ٹی وی اور اسٹیج کے ذریعے بھی کئی شعراء کا کلام مقبول ہوا ۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے انٹر نیٹ نے بھی اس عمل میں خوب اپنا حصہ ڈالا ۔ یہ سوال پھر بھی اپنی جگہ موجود رہا کہ کیا مقبول شاعر بڑا شاعر بھی ہوتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ مقبولیت کو اگر منفی معنوں میں نہ لیا جائے تو مقبول شاعر کو بڑا شاعر بھی کہہ سکتے ہیں۔
سیالکوٹ کے معروٖ ف صحافی اور درجن بھر کتب کے مرتب و خالق محمد آصف بَھلّی کی مرتب کردہ کتاب ’’صدی کی بہترین غزلیں‘‘جون2000میں آئی ۔ 1015صفحات کی اس کتاب میں بیسویں صدی کے 98شعراء کی سینکڑوں غزلیں تھیں۔ کسی کی تین چار اور کسی کی آٹھ دس ۔ احمد فراز کی مقبولیت کی وجہ سے اُن کی 33غزلیں تھیں اور فیضـؔ کی 24۔ فرازؔ کو46صفحے ملے تھے اور فیضؔ کو 27۔ اس کا دیباچہ نامور نقاد ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے لکھا تھا ۔ وہ لکھتے ہیں ’’محمد آصف بھلّی کے ہاں انتخاب کا ایک اہم عیار ’’مقبولیت ‘‘ہے۔ اس لیے فرازؔ و فیضؔ کی غزلوں کے زیادہ ہونے کا جواز مقبولیت عامہ کی صورت میں موجود ہے ۔ جن شعراء کی غزلیں کم تعدادمیں ہیں، اس کے دو سبب ہو سکتے ہیں ۔ بعض شعراء کی مقبول غزلوںکی تعداد دس تک نہیں پہنچتی یا بعض شعراء کا اتنا کم کلام دستیاب ہوتا ہے کہ دس غزلوں کو منتخب کرنا ممکن نہیںہوتا ۔ اس بات کا امکان ہے کہ بعض لوگ مقبولیت کو معیار تسلیم نہ کریں لیکن میرے خیال مین مقبولیت ہر طور ایک اہم معیار ہے ۔ حسرتؔ موہانی کے بقول ؎
شعر دراصل ہیں وہی حسرت ؔ سنتے ہی دل میں جو اُتر جائیں
اور بقول ناطقؔ ؎ ہے وہی دیوانِ مطبوعہ مِرا جس قدر لوگوں کو ناطقؔ یاد ہے
ان شعراء نے شعر کی مقبولیت اور حفظ ہونے کی خوبی کو شعر کا معیار تسلیم کیا ہے۔ غالبؔ، میرــؔ، سوداؔ اور دردـ ؔجیسے شعراء کے عموماً وہی اشعار زندہ ہیں جو لوگوں کو از بر ہیں ۔ عظیم شعراء کے زبان زدِخاص و عام اشعار کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر انہیں یکجا کیا جائے تو مقبولیت عامہ کو معیار نہ سمجھنے والے ناقدین حیران رہ جائیں گے ۔ حافظ نے کہا ہے ۔۔۔قبولِ خاطرو لطفِ سخن خداد اداست۔۔۔۔بہت سے شعراء اپنے ایک ایک شعر کی وجہ سے زندہ ہیں اور متعدد شعراء ایک بھی زندہ شعر نہ کہنے کے سبب مر چکے ہیں ۔ اس لیے مقبولیت بہر طور ایک معیار ضرور ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ ۔۔۔ شعری ذوق ایک معروضی چیز ہے ، شاعری سائنس نہیں ، اسی طرح شعری ذوق بھی ریاضی نہیں کہ ایک ہی جواب درست ہو گا اور باقی سب غلط ۔۔۔‘‘خواجہ زکریا نے اپنے موقف کے حق میں حسرتؔ، ناطق اور حافظؔ کا جو کلام پیش کیا ہے وہ قابلِ غور ہے ۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے اس مضمون میں جو مزید وضاحت کی ہے اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ:۔
’’شعری انتخاب کرنے والے کو اپنے ذوق کی عکاسی کرنے کے ساتھ وسیع تر ذوق کے لوازم کی عکاسی بھی کرنی چاہیے ۔ تاہم تمام منتخب اشعار جملہ اذواق کی تشفی نہیں کر سکتے اور نہ ایسا کرنا کسی مرتب کے لیے ممکن ہے ۔ کسی مرتب کے منتخب کردہ شعراء اور منتخب کردہ اشعار سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر آج تک ایسا کوئی انتخاب نہیں نکلا جو ہر کسی کے معیار اور ذوق پر صد فیصد پورا اُترے۔ کسی انتخاب سے منتخب شعراء اور ان کے منتخب کلام سے اسکی نمایاںخصوصیات کا اندازہ ہو جائے ، اس کی سوچ ، لفظیات اور اس کے عمومی اسلوب کی نشاندہی ہوجائے تو قارئین پر کلام کی وسعت اررنگار نگی کافی حد تک آشکارہو ہی جاتی ہے ‘‘ مجھے خواجہ محمد زکریا کے مندرجہ بالا تجزیے سے کافی حد تک اتفاق ہے ۔ واقعی مقبولیت کی بڑی اہمیت ہے ۔ عموماً معیاری کلام طے کرنے کا مرحلہ مقبولیت کے بعد ہی آتا ہے ۔ کم مقبول یا غیر مقبول شعراء کے کلام کو شاذو نادر ہی پرکھا گیا ہے۔
[ads1][ads2]