( غیر مطبوعہ ) حاشیے اُڑتے ہیں تسطیر بدل جاتی ہے …
( غیر مطبوعہ )
حاشیے اُڑتے ہیں تسطیر بدل جاتی ہے آوازوں سے
ہم کہانی کو وہیں جوڑ کے لے آتے ہیں اندازوں سے
۔۔
موت کی نَرتکی جب وقت کے چوبارے پہ،گُھنگرو باندھے
مُنتظر رَقص کے، زِینے میں کئی جھانکتے دروازوں سے
۔۔
کیسے تصویر سے لمحے کو کوئی کھینچ کے باہر لائے
نیلے پتّھر کو کہاں سُرخ بنا پائے کوئی غازوں سے
۔۔
ایسے بِکھری ہیں کہ دِل دَشت کو گُلزار کیا لمحوں میں
ذرّہ دَر ذرّہ بھرے رنگ تری آنکھوں کے اعجازوں سے
۔۔
دِید اُمیّد کا کشکول پٹخ کر، تری چوکھٹ پہ جُھکا
اور پھر طَشت سوالی نے بھرے صرف ترے نازوں سے
۔۔
رینگنے والے کُھرچتے ہیں تجسّس میں زمیں کا سینہ
صاحبِ شہپرِ وِجدان خبر لاتے ہیں پروازوں سے
۔۔
لاکھ پُوچھو کہ ہے کیا لطف یہاں چلنے میں اور جلنے میں
سارباں ریت کے پردے نہ اُٹھائیں گے کبھی رازوں سے
۔۔
بُلبلِ باغِ تخیّل جو اُڑی ، پُھول پہ لپکی تِتلی
سبز پُھلکاری پہن کر غزل آزاد ہُوئی سازوں سے
— with Neelam Malik.