ادھورے خط : عظمیٰ طور
بند لفافوں میں کچھ آہیں ہیں
کچھ لفظ ہیں حجابوں میں
جذبوں کی روشنائی میں لپٹے چند کاغذ ہیں
اور سانس رُکی ہے لفظوں کی
تمھارے نام پہ دم اٹکا ہے
تم تک جانے والے رستے پرانے پن کی باس نے روک رکھے ہیں
کئی برس سے دروازے میں بیٹھے پیغام
منتظر اِس بات کے کہ
میں تُم تک سب کچھ آنے دوں
میں ٹوٹی بکھری سوچ لیے
کب سے ہاری بیٹھی ہوں
اور
چٹخے انا کے خول میں لپٹی
آواز کہیں سے آتی ہے
اب نامہ بر کو آنے دو