عذابِ ہجر سے انجان تھوڑی ہوتا ہے
عذابِ ہجر سے انجان تھوڑی ہوتا ہے
یہ دل اب اتنا بھی نادان تھوڑی ہوتا ہے
یہ زندگی ہے بہت کچھ یہاں پہ ممکن ہے
کہ کچھ نہ ہونے کا امکان تھوڑی ہوتا ہے
یہ دل کے زخم چُھپا کر جو مسکراتے ہیں
تو میرے دوست یہ آسان تھوڑی ہوتا ہے
کبھی کبھار تو بدعت بھی ہو ہی جاتی ہے
ہر ایک لمحہ ترا دھیان تھوڑی ہوتا ہے
وہ جس کے پاس محبت بھی ہو، وفا بھی ہو
بھلا وہ بے سرو سامان تھوڑی ہوتا ہے
تری وفا میں کمی کچھ تو آئی ہے کہ یہ دل
بلا جواز پریشان تھوڑی ہوتا ہے
ادھر اُدھر سے دلیلیں اُٹھانی پڑ جائیں
جو اتنا کچّا ہو، ایمان تھوڑی ہوتا ہے