ایک پُرانا خواب : فریحہ ؔنقوی
بہت قدیم سا وہ گھر
بہت بہت قدیم سا۔ ۔۔۔۔۔ !
وہ پتّھروں کا گھر کوئی
اسی کے ایک تنگ سے کِواڑ میں کھڑی ہوئی
وہ کون تھی؟
وہ کون تھی ؟ جو خواب میں علیل تھی
وہ جس کے زرد جسم کا تمہیں بہت خیال تھا
رقیب تھی مِری ؟
مگر بَھلی بھلی لگی مجھے ۔۔۔ !!
تھی اُس کے زرد رنگ پر گھنی اداسیوں کی رُت
پگھل پگھل کے گِر رہا تھا اُس کی آستیں پہ دُکھ ۔۔۔۔
مِری تو روح خوف سے لرز گئی
نگاہ چیخنے لگی
“یہ کون ہے ‘ یہ کون ہے؟؟ ”
اسی گھڑی
تمہاری اک نگاہ نے جُھکے جھکے یہ کہہ دیا،
کہ” یہ علیل ہے بہت
اسے مرا ذرا سا دھیان چاہییے
یہ جب بھی تن درُست ہو گئی’ مَیں لَوٹ آؤں گا ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے زرد رُو !
میں جانتی نہیں تجھے
تو کون تھی ؟ نہیں پتا
مگر تری حیات کی دعا مِری حیات ہے !!
تُو تن درست ہو کے کب دِکھائے گی ؟
تبصرے بند ہیں، لیکن فورم کے قوائد اور لحاظ کھلے ہیں.