چھوٹا : سُہیلؔ احمد
مِرے ہاتھوں کو دیکھو تو
کوئی کہتا ہے: اِِن میں پھول ہی اچّھے لگیں گے
اور
کسی کو فکر ہے،
کاغذ قلم کی عُمر ہے میری
مِرے ِان بد نما ہاتھوں میں کوئی بھی
کھلونا کیوں نہیں ہے؟
بھلے ارزاں سہی،
کچّا کھلونا !!
مِرے اخبار میری ریزگاری سے کہیں بڑھ کر
کسی بَھٹّی کی جُھلساتی ہَوا کے سامنے
جلتا بدن میرا
نظر میں چَھید کرتے
اِِن دُھویں کے بادلوں میں
سانس لیتے پھیپھڑے میرے
وہاں پر سائکل کی ٹیوب سے
اٹھتے سلوشن سے
مِری سانسیں مِرے سینے میں گھُٹتی ہیں
مگر دیکھو !!
اُدھر اک اور منظر ہے
وہ گاڑی سے اترتے،
شوفروں کے آگے چلتے،
خوش ادا بچّے
وہ جن کے رنگ بکھراتے ہوئے بستوں میں
کتنی قیمتی چیزیں مِری حسرت بنی ہیں
اور
کروکو ڈائل جیسے یہ ارَیزر ۔۔۔
کرے آن اور کتابیں
جن کے کاغذ
اِتنے روشن ہیں
کہ میری بجھتی آنکھوں کے دیے
اِن کی تمازت لے کے زندہ ہیں
اور اب اسکول میں کھانے کا وقفہ ہے
چکن سپریڈ والے سینڈوچ
اور شاشلک کی تیز خوش بُو کو
میں بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محسوس کرتا ہوں ۔۔
کڑکتے چِپس اور پھر کوک کے ٹِن
چَھس! ۔۔۔۔ چَھسس چَھس چَھس !!
کی آوازوں سے کُھلتے ہیں
میں بہرا ہو چکا ہوں۔۔۔۔
اور ابھی جس شخص کی ٹھوکر سے میری
تھکی اور اونگھتی سی
پسلیاں رونے لگی ہیں،
مِرے بابا کا کہنا ہے
کہ وہ استاد ہے میرا
مجھے سب کچھ سِکھا دے گا!
اور اب اُستاد نے مجھ کو بُلایا ہے
” ابے چھوٹے ۔!
کہاں کھویا ہے؟ بے غیرت
ذرا گاڑی کے نیچے لیٹ کر یہ پیچ تو کَس دے ۔۔۔
بڑے صاحِب کو جلدی ہے۔۔”
میں چھوٹا ہوں
مجھے سب ” چھوٹا ” کہتے ہیں
میں اپنے بد نما ہاتھوں کو
اکثر دیکھ کر یہ سوچتا ہوں
کیا مِرے ہاتھوں میں چھالے ہیں
یا موتی ہیں ؟؟
تبصرے بند ہیں، لیکن فورم کے قوائد اور لحاظ کھلے ہیں.