Third World . میں کسی طور تِرا ہو ہی نہیں سکتا ہوں…
.
میں کسی طور تِرا ہو ہی نہیں سکتا ہوں
چھوڑ دامن مجھے جانے دے مجھے تنگ نہ کر
دیکھ میں تیسری کا دنیا کا ہوں مفلس شہری
میرا ہر پل نئے قرضوں میں دبا جاتا ہے
یہ مِرا دَور ہے اکبر کا حسیںدور نہیں
بُھوک اور پیاس سے کُرلاتے ہوئے لوگوں کو
دیکھ پتھرائی ہوئی آنکھوں کے ان حلقوں کو
دیکھ فرقوں میں بٹے جاتے ہیں میرے بازو
روز گلیوں میں کٹے جاتے ہیں میرے بازو
نت نئے ظلم کو سہتے ہوئے اور جیتے ہوئے
دیکھ میری نئی نسلوں کو دھواں پیتے ہوئے
.
میری گلیوں میں بھٹکتے ہوئے مفلس بچے
میرے کھیتوں میں اُترتے ہوئے بنجر موسم
مجھے مزدور کی اُجرت کے لئے لَڑنا ہے
دیکھ یہ آخری موقع ہے مِرے لوگوں کا
اور ان کے لیے آگے کی طرف بڑھنا ہے
میرے محدود وسائل میں یہ ممکن ہی نہیں
میں انہیں دل سے لگائوں کہ تِرے پیکر کو
درد اتنا ہے کہ تھم جاتی ہے دھڑکن جاناں
آگ برساتا ہوا آتا ہے ساون جاناں
کیسے پہنائوں تِرے ہاتھ میں کنگن جاناں
میں نہیں کہتا کہ سَستے ہیں تِرے سب جذبے
ہاں مگر ان کو کسی اور کی آنکھوں میں سجا
دیکھ یوں ضد تو نہ کر میری رفاقت کے لیے
یہ تِرا حُسن نہیں کچھ بھی، محبت کے لیے
چھوڑ دامن مجھے جانے دے مجھے تنگ نہ کر
میں کسی طور تِرا ہو ہی نہیں سکتا ہوں
.
نسلِ آدم کے مقدر میں فقط گولی ہے
تو بھی سنتی ہے ناں، بندوق کہیں بولی ہے
میرے لوگوں پہ مسلط ہوئی جاتی ہے یہ جنگ
دیکھ یہ پھول سے چہرے ہوئے کیسے بے رنگ
دیکھ قندھار، یہ بغداد، فلسطیں، کشمیر
ہائے کیا خواب تھے، لاشیں ہوئیں جن کی تعبیر
دیکھ یہ کس نے پکارا یہ تڑپ کس کی ہے
دیکھ وہ ایک ہی بیٹا تھا جسے مارا ہے
دیکھ وہ تازہ دھماکے میں جھلستے ہوئے لوگ
دیکھ وہ نیم برہنہ کسی معذور کی لاش
ایک احساس کے آنچل کو ترستے ہوئے لوگ
.
دیکھ وہ جیب کترتا ہوا کمسن بچہ
دیکھ اُبھری ہے پھر آواز کہیں ماتم کی
میری تہذیب کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کا جلوس
میرے ملنے میں رُکاوٹ مِرے خوابوں کا جلوس
رات دن سوگ کے عالم میں ہے تَن مَن جاناں
.
اب تو بے معنی ہیں رشتے سبھی بندھن جاناں
کیسے پہنائوں تِرے ہاتھ میں کنگن جاناں
میں کسی طور تِرا ہو ہی نہیں سکتا ہوں
ایک صورت میں مگر ہمسفری ممکن ہے
.
اپنے فرسودہ محبت کے تصور کو بدل
مجھے پانا ہے تو پہلے مِرے ہونے کو گَنوا
نوچ کر پھینک دے اس دل سے مِرے رَنج وملال
اپنی رَگ رَگ میں بَسا ’’اِن‘‘ کی محبت کا خیال
دیکھ جو فیصلہ کرنا ہے ذرا جلدی کر
ہاں! تو پھر لا، مِرے ہاتھوں میں حسیں ہاتھ تھما
اپنے مہکے ہوئے ہاتھوں سے یہ گولی تو نکال
میں وہاں دیکھتا ہوں تو یہاں والوں کو سنبھال
.
وصی شاہ
[ad_2]