( غیــر مطبــوعــہ ) عشق کے بھی رنگ بھرتے جا رہے …
عشق کے بھی رنگ بھرتے جا رہے ہیں
اُور ہــوَس بھی لوگـــ کرتے جا رہے ہیں
عکس مِلنے تھے ابھـی جن آئنـوں کو
ٹوٹ کر وہ بھی بکھرتے جا رہے ہیں
واقعہ تھا ایک ہی’ پَر لوگ اُس میں
اپنا اپنا رنگ بھرتے جا رہے ہیں
آئے جو دھوکے مین اپنی زندگی کے
کیسی کییسی مَوت مرتے جا رہے ہیں
چاک ہے ہر پردہ ء شانِ وجُـود ‘ اُور
روح تک خنجر اُترتے جا رہے ہیں
گم شدہ کچھ دن تھے جن کی کھوج میں ہم
بیتی گلیوں سے گذرتے جا رہے ہیں
چل رہے ہیں ایک سی وَحشت میں ہم سب
اپنے سائے سے بھی ڈرتے جا رہے ہیں
دوستی اور دشمنی کے درمیاں بھی
کچھ منافِـق کام کرتے جا رہے ہیں
( جـــاویـدؔ اَحـــــمد )